بدھ، 4 نومبر، 2015

آیۃ اللہ شیخ نمر کی سزا پر خاموشی کا مطلب!: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی




آیۃ اللہ شیخ نمر کی سزا پر خاموشی کا مطلب!


آیۃ اللہ شیخ باقر النمر کی سزا پر خاموشی کا مطلب!
اسلام ٹائمز: سعودی عرب کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے آیۃ اللہ باقر النمر کی پھانسی کا حکم سنا دیا ہے اور اب یہ مسئلہزارت خارجہ پہنچ چکا ہے۔ کچ
ھ لوگوں کی فطرت یہی بن چکی ہے کہ حقیقت کو افسانوی رنگ دیتے ہیں اور محض افسانہ کو حقیقت کا لبادہ اڑھا دیتے ہیں اور سادہ لوح انسان ان کی سازش کو نہیں سمجھ پاتے، جس کے نتیجہ میں نت نئے فسادات جنم لیتے رہتے ہیں۔ شیخ و نمر کو پھانسی کا حکم سنا دیا گیا اور امت مسلمہ خاموش ہے! کیا دشمن کی سازش نے ہماری آنکھوں پر، ہمارے کانوں پر اور ہمارے اذہان پر ایسے محکم پردے ڈال دیئے ہیں کہ ہم اس کی سازش کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔؟ شیخ نمر کو پھانسی کا حکم سنایا جانا، شیعہ سنی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ دشمن کی سازش ہے کہ علمائے اسلام کے وجود کو دنیا سے مٹا دیا جائے۔


تحریر: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی


آیۃ اللہ شیخ باقر النمر کی پھانسی کا مسئلہ کسی خاص مسلک سے مربوط نہیں ہے، یعنی اس میں شیعہ یا سنی کسی قسم کا شائبہ نہیں پایا جاتا بلکہ یہ دہشت گرد اور اسلام دشمن عناصر کی رچائی ہوئی سازش ہے، جس کو کچھ نادان مسلمانوں کے ذریعہ عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے اور دامن اسلام کو داغدار کیا جا رہا ہے۔ دشمن کا اصلی مقصد اسلام و مسلمین کو ضرر پہنچانا اور اس امت کے علماء کو زمین سے ختم کرنا ہے، تاکہ ان کی مرضی کے مطابق قوانین نافذ کئے جائیں۔ لہٰذا دشمن کی اس سازش کے پیش نظر باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام و مسلمین کے مفاد کی فکر کریں اور باطل کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے حق کی حمایت کا ثبوت دیں، اس دور میں ناخن ادراک کے استعمال کی نہایت ضرورت ہے۔ آیۃ اللہ شیخ باقر النمر، افق اسلام کا وہ چمکتا ستارہ ہے جس کا غروب جہانِ اسلام کو تاریکی کے گھاٹ اتار سکتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف نے تحصیل علم کے دوران اور تحصیل سے فراغت کے بعد اپنی زندگی کا مشغلہ راہِ قرآن و اہل بیت (ع) کو بنایا۔ آپ نے ہمیشہ اپنا ہر قدم اسلام و مسلمین کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اٹھایا، جس انسان نے اپنی زندگی تبلیغ دین کے نام وقف کردی ہو یا ایسے انسان کو یہی جزا ملنی چاہئے کہ نام نہاد مفتی اعظم قتل کا فتویٰ صادر کر دے! اور جہانِ اسلام کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگے؟ جی نہیں! یہ دشمن کی جانی بوجھی سازش ہے، جو مسلمانوں کے کاندھوں پر اسلحہ رکھ کر خود مسلمانوں میں ہی انتشار پھیلانا چاہتا ہے، کمال کی بات یہ ہے کہ موصوف کو پھانسی کی سزا اس جرم میں سنائی گئی کہ آپ آمریت کو ناخوش آیند نگاہوں سے دیکھتے تھے! کیا آمریت اور حاکمیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی یہ سزا ہے کہ س انسان کو سزائے موت سنا دی جائے!

بعض لوگوں نے مفتی اعظم کی حمایت کے پیش نظر یہ افواہ اڑائی کہ شیخ نمر کو سزائے موت نہیں سنائی گئی ہے بلکہ یہ صرف ایک افواہ ہے۔ جب حقیقت کو افسانہ نگاری میں تبدیل ہوتے دیکھا کہ تو موصوف کے برادر عزیز ’’جناب محمد النمر‘‘ نے اپنے ٹویٹر پیج پر یہ واضح کر دیا کہ کچھ دین فروش مسلمان مفتی اعظم کی غلطی چھپانے کی خاطر حقیقت کو افواہ کا رنگ دے رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کی عدالت اس مسئلہ میں سرگرم عمل ہے، سعودی عرب کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے آیۃ اللہ باقر النمر کی پھانسی کا حکم سنا دیا ہے اور اب یہ مسئلہ وزارت خارجہ پہنچ چکا ہے۔ کچھ لوگوں کی فطرت یہی بن چکی ہے کہ حقیقت کو افسانوی رنگ دیتے ہیں اور محض افسانہ کو حقیقت کا لبادہ اڑھا دیتے ہیں اور سادہ لوح انسان ان کی سازش کو نہیں سمجھ پاتے، جس کے نتیجہ میں نت نئے فسادات جنم لیتے رہتے ہیں۔ شیخ نمر کو پھانسی کا حکم سنا دیا گیا اور امت مسلمہ خاموش ہے! کیا دشمن کی سازش نے ہماری آنکھوں پر، ہمارے کانوں پر اور ہمارے اذہان پر ایسے محکم پردے ڈال دیئے ہیں کہ ہم اس کی سازش کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔؟ شیخ نمر کو پھانسی کا حکم سنایا جانا، شیعہ سنی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ دشمن کی سازش ہے کہ علمائے اسلام کے وجود کو دنیا سے مٹا دیا جائے اور اس سازش کے پس پردہ دشمن کا مقصد یہ ہے کہ جب علمائے اسلام کا وجود ہی نہیں ہوگا تو اسلامی تبلیغ کا سدّ باب ہوجائے گا اور پھر ہماری من مانی دنیا ہماری مٹھی میں ہوگی!

کیا ہمیں اب بھی ناخن ادراک کا استعمال نہیں کرنا چاہئے؟ کیا گاندھی جی کے بندروں کی صفات کو اپنانا اسلام و مسلمین کے مفاد میں ہے؟۔ اگر امت مسلمہ خاموشی سادھے رہے گی تو شیخ نمر کو پھانسی کے پھندے سے محفوظ نہیں رکھا جاسکتا اور اگر آج موصوف کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا تو گویا دشمن کے لئے میدان صاف ہوجائے گا، وہ کل آئے گا اور کسی دوسرے عالم دین کو پھانسی دلائے گا۔ دشمن کے لئے زمینہ فراہم ہوجائے گا کہ وہ ہمارے ہاتھوں کو ہمارے ہی علماء کے خون سے رنگین کرے۔ اگر ذرا سی بات ہوجاتی ہے تو سڑکیں جام ہوجاتی ہیں اور انواع و اقسام کی ریلیاں نظر آتی ہیں، لیکن یہ اتنا اہم مسئلہ کہ ایک عالم دین کو سزائے موت سنائی گئی ہے، لیکن جہان اسلام پر خاموشی طاری ہے! کیا اسلام کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم مسلمان کہلائیں؟ کیا اسلام نے مسلمانوں کے لئے کوئی قانون نہیں رکھا؟ یہ کون سا قانون ہے کہ آمریت کے خلاف آواز اٹھانے والے کے حق میں مسلم عدالت سزائے موت سنا دے! جب کہ یہ عدالت کو بھی معلوم ہے کہ موصوف برحق ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ قدیم زمانہ واپس پلٹ کر آگیا ہے کہ حق گوئی کے جرم میں تختۂ دار پر لٹکانے کا حکم صادر ہونے لگا!۔ گویا عالم اسلام میں ایک بار پھر ’’ھل من ناصر ینصرنا‘‘ کی صدائے استغاثہ بلند ہو رہی ہے، ابن زیاد کا زندان شیعیان علی ؑ کے لئے کھل گیا ہے، کیا اس زمانے میں کوئی اصغر بے شیر ہے جو امام حسین ؑ کی صدائے استغاثہ پر اپنے آپ کو گہوارہ سے گرا کر یہ ثبوت دے سکے کہ اسلام کی حمایت میں ہم آواز احتجاج بلند کریں گے!۔ ہمیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ آخر دنیا کس ڈگر پر چل رہی ہے، دشمن کی سازش کیا ہے، آخر دنیا ہم سے کیا چاہتی ہے؟ عالم اسلام کو بدنام کرنے کی خاطر کچھ مسلم دشمن عناصر نے مسلم دنیا میں ایسا نفوذ پیدا کرلیا کہ عالم اسلام انہیں مسلمان سمجھنے لگا جب کہ ان کا دور دور تک اسلام و مسلمین سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔

یہ لوگ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور ان کی مکمل کوشش یہی ہے کہ عالم اسلام کو منتشر کر دیا جائے اور ان کی طاقت کے پرخچے اڑا دیئے جائیں کیونکہ دشمن کو یہ اندازہ ہے کہ اگر عالم اسلام متحد رہے گا تو ہم اس کا کچھ بال بیکا نہیں کر پائیں گے۔ لہٰذا ان میں پھوٹ ڈالو، ان کو آپس میں لڑاؤ اور ان پر راج کرو، دشمن کی اتنی بڑی سازش ہے اور ہم خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھوا بازی جیت جائے!۔ ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا اور اپنے حق کے لئے آواز احتجاج بلند کرنی ہوگی۔ کم سے کم ہمیں اتنا ہی سوچ لینا چاہئے کہ جیسے ایک عام مشکل میں سڑکوں پر جام لگا دیتے ہیں، اسی طرح آیۃ اللہ شیخ باقر نمر کے حق میں متحد ہوکر کھڑے ہوجائیں اور دشمن کو یہ سمجھا دیں کہ اس کی ہزار کوششوں کے باوجود امت مسلمہ کے پرخچے نہیں اڑیں گے بلکہ ہم ہمیشہ متحد تھے اور ہمیشہ متحد رہیں گے اور اگر کوئی اس کوہ مصمم کے سامنے آئے گا وہ چکنا چور ہوجائے گا۔ ہمارا شعار حق کی حمایت، ہماری شان حق کی رفاقت، ہماری آن بان حق و صداقت ہے، لہٰذا ہم سے ٹکرانے کی کوشش نہ کرنا۔ اگر ہم آج اس طرح ایک صف میں کھڑے ہوجائیں گے تو پھر دشمن کے حوصلے سرد ہوجائیں گے، وہ آگے کی سازش کے بارے میں کئی بار سوچے گا لیکن اگر ہم آج خاموش رہے تو دشمن کی حوصلہ افزائی ہوگی، جس کے نتیجہ میں پوری امت مسلمہ کو اس خاموشی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ہماری یہی گزارش ہے کہ امت مسلمہ ایک پلیٹ فارم پر آکر اتحاد کا نمونہ پیش کرے اور باطل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے حفاظت حق کا ثبوت دے۔

اس مضمون کو اس لنک پر بھی پڑھا جا سکتا ہے: 

http://www.islamtimes.org/ur/doc/article/495394/

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords