بدھ، 14 دسمبر، 2016

عید زہرا سلام اللہ علیہا، کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ




عید زہرا سلام اللہ علیہا، کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
تاریخ کے آئینے میں
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
محاورہ مشہور ہے کہ ''سوئی کا پھاوڑا بن گیا'' لیکن ہمارے معاشرہ میں کبھی کبھی سوئی کا وجود نہ ہوتے ہوئے بھی پھاوڑا وجود میں آجاتاہے اور اس کا واحد سبب ہمارے درمیان افراط و تفریط کا وجود ہے؛ حالانکہ اگر ائمۂ اطہار کے اقوال زریں کا مطالعہ کیا جائے تو بخوبی واضح ہوجائے گا کہ ہمارے اماموں نے کمی اور زیادتی دونوں چیزوں کی مذمت کی ہے اور اعتدال و میانہ روی کا درس دیا ہے، حضرت علی  نے ارشادفرمایا:ہَلَکَ فِیَّ رَجُلَانِ، مُحِبّ غَالٍ وَ مُبْغِض قال؛ میرے متعلق دوقسم کے لوگ گمراہ ہوں گے، ایک تو وہ جو ہمیں حد سے بڑھا دیتے ہیں اور ایک وہ جو ہمیں ہمارے مرتبے سے نیچے گرادیتے ہیں۔(١)؛  اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: لَا اِفْرَاطَ وَلَا تَفْرِیْطَ بَلْ اَمْر بَیْنَ الْاَمْرَیْن؛ نہ تو حد سے تجاوز کرو، نہ منزل سے پیچھے رہ جاؤ بلکہ میانہ روی کو شعار بناؤ۔(٢)
یوں تو گزشت زمان میں روز و شب کی گردش کے ذریعہ انسان اپنی آخری منزل کی جانب گامزن رہتا ہے لیکن انہی ایام میں کچھ ایام اور کچھ راتیں ایسی ہیں جنہوں نے دامن تاریخ میں خصوصی مقام حاصل کیا ہے۔مثلا ًشب قدر، شب عاشور، روز عرفہ، روز غدیر، شب ہجرت، روز عید فطر اور روز عید قربان وغیرہ۔
یوں تو فریقین کے درمیان تمام تاریخوں میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ٩ربیع الاول ایسی تاریخ ہے جس میں بہت زیادہ اختلاف ہے لہٰذا اس روز کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے میانہ روی سے کام لیتے ہوئے تعصب کی عینک اتار کر غور و خوض سے مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اس تحقیق کا مقصد یہی ہے کہ فریقین کی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا جائے اور جو لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں ان کو یہ سمجھایا جاسکے کہ حد سے تجاوز بھی گمراہی کا سبب ہے اور منزل سے پیچھے رہنا بھی کاروان زندگی سے جدا ہوجانے کا باعث ہے لہٰذا اس تحقیق میں کچھ اعتراضات کے جواب بھی ملحوظ خاطر رکھے جائیں گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہ ربیع الاول کی٩ /تاریخ کو دامن تاریخ میں خصوصی منزلت حاصل ہے۔ یہ تاریخ اپنے دامن میں متعدد خوشیاں سموئے ہوئے ہے، جن میں سے چند خصوصیات کا تذکرہ مومنین کے لئے منفعت بخش ثابت ہوسکتا ہے:
امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ کی امامت کا آغاز: اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہی وہ مبارک تاریخ ہے جس تاریخ سے امام زمانہ عج کی امامت اور آپ کی غیبت صغری کا آغاز ہوا۔(٣)؛  اہل تشیع کے درمیان٩ /ربیع الاول کو روز عید اسی لئے شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اس روز سے آخری حجت خدا عج کی امامت کا آغاز ہوا۔(٤)
اعتراض: ایسی کون سی خاصیت ہے کہ ٩ربیع الاول کو امام زمانہ عج کی تاجپوشی کا جشن منایا جائے!، اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہر امام کی شہادت کے اگلے روز جشن تاجپوشی منانا چاہئے کیونکہ ایک امام کے بعد دوسرا امام  اس کا نائب بن جاتا ہے!۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے تمام ائمۂ معصومین زندہ ہیں اور ان کی حیات دنیوی و اخروی میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن پھر بھی ایک خاص فرق یہ ہے کہ ہمارے گیارہ امام اس دنیا سے جاچکے ہیں اور اخروی دنیا میں قیام پذیر ہیں لیکن امام زمانہ عج زندہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسی دنیا میں موجودہیں لہٰذا اگر ان کے چاہنے والے ان کی تاجپوشی کا جشن مناتے ہیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور شرعی نقطۂ نگاہ سے بھی کسی قسم کا اعتراض وارد نہیں ہوتا۔
عمر ابن خطاب کا قتل:  نو ربیع الاول ٢٣ . ھ  کی رات کے آخری حصہ میں عمر ابن خطاب نے اس دنیا سے کوچ کیا۔(٥)
اعتراض: عمر ابن خطاب کا قتل ٢٦ذی الحجہ کو ہوا جس پر کتاب طبقات گواہ ہے تو پھر نو ربیع الاول کو کیوں منسوب کیا جارہا ہے؟ ۔
جواب: یقینا کتب تواریخ میں قتل عمر کی تاریخ ٢٦ذی الحجہ بھی نقل ہوئی ہے؛ لیکن ٩ربیع الاول سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ نو ربیع الاول کی روایت بھی موجود ہے۔ جب ٩ربیع الاول کی تاریخ بھی ذکر ہوئی ہے تو پھر اس تاریخ کی اتنی شدت کے ساتھ مخالفت کیوں کہ اس تاریخ میں کسی قسم کی خوشی نہیں منانی چاہئے!!؛ جس کو ٢٦ذی الحجہ پر اعتماد ہو وہ اس کے حساب سے منائے اور جس کو ٩ربیع الاول پر اعتقاد ہو وہ اس کے حساب سے منائے، یہ تو (2+2=4) والی بات ہے، اس میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ فلاں شخص دشمن اہلبیت تھا اور وہ فلاں تاریخ میں واصل جہنم ہوا ہے تو فطری بات ہے کہ اہلبیت کے چاہنے والے اس دن خوشی کا اظہار کریں گے؛ اس اظہار سے روکنا خلاف فطرت ہوگا۔ تحقیق کی اہمیت اپنی جگہ محفوظ ہے لیکن تحقیق ایک گوشے سے نہیں ہوتی بلکہ دونوں جانب کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے۔ اگر دو تاریخیں بیان ہوئی ہیں تو ہمیں بھی دونوں تاریخوں کو بیان کرنا چاہئے اور فیصلہ سامنے والے پر چھوڑنا چاہئے کہ وہ کون سی تاریخ کو اپنانا چارہا ہے۔یہ روز اہلبیت اطہار علیہم السلام، انبیائ، ملائکہ اور حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کے لئے خوشی کا دن ہے کیونکہ اس روز فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی دعا قبول ہوئی۔(٦)؛  یہ روز اس لئے عید کے نام سے موسوم ہے کیونکہ اس روز کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے روز عید قرار دیا اور حکم دیا ہے کہ اس روز کو سب لوگ روز عید قرار دیں اور اس عید کے اعمال بجا لائیں۔(٧)؛ امام عسکری سے مروی ہے: ''ایّ یوم اعظم حرمة عند اہل البیت من ہذا الیوم التاسع من شھر ربیع الاول'' یعنی اہلبیت کے نزدیک نو ربیع الاول سے زیادہ باعظمت کون سا روز ہوسکتا ہے!۔(٨)؛ اس مبارک روز کی اتنی زیادہ فضیلت ہے کہ اگر کوئی شخص اس روز راہ خدا میں انفاق کرے تو اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔اس روز مومنین کو کھانا کھلانا، خوشبو لگانا، اپنے اہل و عیال کے لئے فراخ دلی کا اظہار کرنا، نیا لباس پہننا اور شکر خدا بجا لانا مستحب (تاکیدی)ہے۔(٩)
اعتراض: اس عید کو، عید زہرا کا نام کیوں دیا گیا؟ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس تاریخ میں دشمنِ زہرا قتل ہوا ہے تو جناب فاطمہ کی شہادت پہلے ہوئی ہے اور یہ واقعہ بعد میں پیش آیاتو فاطمہ زہرا  نے کیسے خوشی منائی جو عید زہرا کا نام دیا گیا؟ بعض لوگ یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس روز جناب مختار نے قاتلانِ امام حسین  کے سرہائے نجس امام زین العابدین  کی خدمت میں بھیجے تھے تو اس اعتبار سے ٩ربیع الاول کو خوشی مناتے ہیں کہ کیونکہ اہل حرم نے سوگ بڑھایا تھا! تو اس اعتبار سے اس عید کا نام عید زینب یا عید سجاد ہونا چاہئے تھا، یہ عید زہرا ہی کیوں؟۔
جواب: اسلامی اخلاقیات کے اعتبار سے ہر کام میں بزرگ کو ترجیح دی جاتی ہے؛ جب ہم(امام حسین کے علاوہ ) کسی امام کے مصائب پڑھتے ہیں تب بھی یہی کہتے ہیں کہ فاطمہ زہرا کو ان کے لال کا (ان کے فرزند کا، ان کے بیٹے کا) پرسہ دینا ہے؛ حالانکہ جناب فاطمہ صرف امام حسن و امام حسین علیہما السلام کی والدہ ہیں باقی اماموں کی تو دادی اور پردادی ہوئیں!... ان اماموں کی مائیں تو الگ الگ ہیں! پھر ہم جناب فاطمہ کی طرف نسبت کیوں دیتے ہیں؟ صرف اسی لئے کہ وہ مقام و منزلت کے اعتبار سے عظیم ہیں۔ دور حاضر میں ''سید۔یا ۔سیدہ'' اس کو کہا جاتا ہے جو جناب فاطمہ کی جانب منسوب ہوکیونکہ شہزادی کا ایک لقب''سیدہ'' بھی ہے اسی لئے سادا ت کو'' سید'' کہا جاتا ہے۔ چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد آج ہم خود کو''سید'' صرف اسی لئے کہلاتے ہیں کہ جناب سیدہ سے منسوب ہیں تو پھر عید کو ان کے نام سے مخصوص کیوں نہیں کیا جاسکتا!۔ اور رہی بات یہ کہ جناب فاطمہ کی شہادت پہلے ہوئی ہے اور خلفاء کا قتل یا وفات بعد میں تو پھر عیدزہرا کیسے ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ ضروری نہیں ہے کہ زندہ ہوں تبھی کسی چیز کی جانب نسبت دی جائے! بلکہ بعد از وفات کے نمونے خود ہمارے معاشرے میں بھرے پڑے ہیں، جب تک شہید نمر زندہ تھے ان کا کچھ پتہ نہیں تھا لیکن جیسے ہی گرفتار کئے گئے تو ایک انقلاب برپا ہوگیا اور جب شہید ہوگئے تو ان کے نام پر خود قم المقدسہ(ایران) میں ایک سڑک بنادی گئی، ہمارے ہندوستان میں بھی بہت سے راستے شہیدوں کے نام پر ہیں جو ان کی زندگی میں موجود نہیں تھے بلکہ شہادت کے بعد بنائے گئے ہیں، وہ تو شہید ہوچکے ہیں پھر ان کے نام سے منسوب کیوں! کیا وہ تمام شہید آکر اپنے ناموں پر سڑکیں دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں؟ یا وہ ان سڑکوں پر چل رہے ہیں؟ وہ تو جاچکے ہیں تو پھر بعد میں ان کے ناموں سے منسوب کیوں کیا جا رہا ہے؟۔لہٰذا یہ کہنا کہ اس عید کو عید زہرا نہیں کہا جاسکتا کوئی معقول بات نہیں ہے۔ اس روز کو وہ فضیلت حاصل ہے جو تاریخ میں کسی بھی روز کو حاصل نہیں ہے اس روز کے بہتر نام ذکر ہوئے ہیں جن میں سے ایک نام عید زہرا بھی ہے؛ بہتر ناموں میں سے چند اسما ء یہ ہیں: عید اللہ الاکبر، غدیرِ ثانی، عیدِ فطرِ دوم، شیعوں کی خوشی کا روز، عید اہلبیت علیہم السلام، روز قتلِ منافق، روزِ قبولیتِ اعمال، مظلوم کی کامیابی کا روز، مومنین کی دوستی کا روز، گناہان کبیرہ سے پرہیز کا روز، گمراہی کی نابودی کا روز، شکر گزاری کا روز، عید زہرا، روز توبہ۔(١٠)
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ واقعۂ کربلا کے بعد جناب مختار نے قیام کیا اورقاتلان امام حسین سے انتقام لیا؛ ممکن ہے تواریخ میں کچھ اختلاف ہو کیونکہ تواریخ ہم تک براہ راست نہیں آئی ہیں اسی طرح روایات بھی سلسلہ در سلسلہ آئی ہیں تو یہ ایک عام سی بات ہے کہ اختلاف ہوسکتا ہے، معترض نے یہ کہا ہے کہ اس روز ابن زیاد کا سر امام سجاد کی خدمت میں نہیں پہنچا! یہ بھی تو ممکن ہے کہ اگر ابن زیاد کا نہیں توکسی اور قاتل کا سر پہنچا ہو!! تو پھر اتنا اصرار کیوں، روایات تو بہت پائی جاتی ہیں، مثلاً: عمر ابن سعد (المعروف بہ پسر سعد)کا قتل، نو ربیع الاول ہی وہ مبارک تاریخ ہے جس میں جناب مختار نے عمر ابن سعد(لشکر یزید کے ایک اہم کارکن)کو واصل جہنم کیا، جب جناب مختار نے پسر سعد کا سر امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تو امام کے لب مبارک پر مسکان آگئی اور اہل حرم کو سوگ بڑھانے کا حکم دیا۔(١١)
قتلِ عمر کی داستان: مغیرہ بن شعبہ کے فیروز نامی غلام (المعروف بہ ابو لؤلؤ)نے عمر ابن خطاب کے پیٹ میں خنجر مارا جس کے سبب عمر کی موت واقع ہوئی، یہ واقعہ ٩/ربیع الاول کو پیش آیا۔(١٢)؛ ابولؤلؤ عمر کو قتل کرکے فرار کرنا چاہتا تھا کہ کچھ لوگ اس کے فرار میں حائل ہوئے، تاریخ کے مطابق ابولؤلؤ نے ان میں سے بارہ لوگوں کو زخمی کیا جن میں سے چھ افراد زخموں کی تاب نہ لاکر اسی وقت مرگئے۔(١٣)؛ ابولؤلؤ نے ایسی کاری ضرب لگائی تھی کہ عمر ابن خطاب کو بستر پر لیٹنا پڑا، جب شراب پلائی گئی تو زخم سے باہر آنے لگی لیکن چونکہ شراب اور خون کا ایک رنگ تھا لہٰذا شناخت نہیں ہو پارہی تھی کہ شراب کہاں سے نکل رہی ہے!۔کچھ لوگوں کی تجویز سے دودھ پلایا گیا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کہاں سے نکل رہا ہے۔ یہ تو معلوم ہوگیا کہ پیٹ میں جانے والی چیز زخم کے ذریعہ بہہ کر باہر آرہی ہے لیکن اس کاری ضربہ کا علاج کوئی حکیم نہ کرسکا اور خلیفۂ ثانی خلیفۂ اول سے ملحق ہوگئے اور موت کے تیسرے دن دفن کیا گیا۔(١٤)؛ عمر ابن خطاب کی مدتِ خلافت دس سال چھ مہینے چار دن تھی، یہ پہلا ایسا شخص تھا جس نے خود کو امیر المومنین کہلایا(حالانکہ امیر المومنین علی علیہ السلام پہلے سے موجود تھے)اور ابو موسیٰ اشعری پہلا ایسا انسان تھا جس نے منبر سے پہلی بار عمر ابن خطاب کو امیر المومنین کہہ کر خطاب کیا۔(١٥)
اعتراض: جب نو ربیع الاول کو کوئی مناسبت ہے ہی نہیں تو پھر خوشی کیسی؟۔
جواب(١): مذکورہ مطالب کے پیش نظر اس روز کو عید قرار دیا جانا سنت رسول ۖ کے مطابق ہے جو ہم نے حوالہ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
جواب(٢): بعض علمائے اعلام کی تحقیق کے مطابق از جملہ کاشف الغطاء صاحب: ٩ اور ١٠ ربیع الاول کی وہ اہم تاریخیں ہیں جن میں رسول خداۖ اور جناب خدیجہ کا عقد مسنون قرار پایا، لہٰذا اگر کوئی بھی مناسبت نہ مانی جائے تو صرف اسی مناسبت کے ذریعہ اس روز خوشی کا جواز پیدا ہوجاتا ہے۔(١٦)
جواب(٣): اس روز خوشی نہ منانے پر کوئی دلیل نہیں ہے، جب مخالف کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ اس روز خوشی نہیں مناسکتے!؟۔لیکن خوشی منانے کا جواز ہے کیونکہ متعدد روایات کے ذریعہ ثابت ہے جو بیان کیا جاچکا ہے۔
جواب(٤): یہ تاریخ کوئی نئی ایجاد نہیں ہے، بلکہ برسوں سے چلی آرہی ہے! تو آج ہمارا اعتراض کرنا کچھ معقول سا نہیں لگ رہا ہے!؛ یہ سنت ہمارے بزرگ علمائے اعلام نے ہی قائم کی ہے جس پر مذکورہ روایات بھی گواہ ہیں اور دوسری بات یہ کہ علمائے برّ صغیر میں سے کسی عالم دین نے اس تاریخ کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جو اس روز کی خوشی کے جواز پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کیونکہ منطقی قانون ہے''السکوت یدل علی الاقرار'' یا ''السکوت کالاقرار'' یعنی خاموشی کا مطلب اس چیز کا اقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم کے خلاف قیام کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ کہیں تمہاری خاموشی کے ذریعہ ظلم کی اعانت نہ ہوجائے۔اگر علمائے اعلام کی نظروں میں عید زہرا کی کوئی اہمیت نہیں تھی تو وہ خاموش کیوں رہے؟کیا ان کی خاموشی(اس رسم کے غلط ہونے کی صورت میں) تعاونوا علی الاثم و العدوان کا مصداق قرار نہیں پائے گی؟۔عالم کا کام قوم کو راہ راست پر گامزن رکھنا ہے نہ کہ قوم کو گمراہ کرنا؛ جب علماء کی خاموشی امت کی گمراہی کا سبب قرار پانے لگے تو شرعی نقطۂ نظر سے سکوت توڑنا واجب ہے؛ اگر نو ربیع الاول کو خوشی اور فرحت کی محفلیں برپا کرنا گمراہی ماناجائے تو علماء کی خاموشی کو کیا کہا جائے گا؟ شاید ان کی خاموشی کا ایک سبب یہ ہو کہ وہ حضرات دوراندیش تھے... ان کی تدبیریں حکمتوں کے سرچشمے ہوتی تھیں، اس تاریخ کی خوشی پر سکوت اختیار کرنے میں بھی ایک حکمت پوشیدہ تھی اور وہ یہ حکمت تھی کہ اگر نو ربیع الاول کو خوشی کا روز قرار نہ دیا جائے تو پھر سوگواروں کا سوگ کب بڑھے گا؟ یوں تو امام خمینی کے بقول: ہمارے لئے ہر روز روز عاشورا اور ہر زمین زمین کربلا ہے، لیکن اس کا تعلق دل کی گہرائیوں سے ہے؛ معاشرہ میں جینے کے لئے غم اور خوشی دونوں کا تال میل لیکر چلنا پڑتا ہے۔ اگر نو ربیع الاول کوسوگ نہ بڑھایا جائے تو پھر سال بھر تک عزاداری ہی عزاداری کا سلسلہ رہے گا، یعنی سال بھر تک کوئی خوشی کی تاریخ نہیں آئے گی کیونکہ جیسے عید زہرا پر اعتراض کیا جارہا ہے اسی طرح ہر خوشی کی تاریخ پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ معاشرہ کی ریت یہی ہے کہ کبھی خوشی تو کبھی غم کی لہروں سے روبرو ہونا پڑتا ہے، کبھی بچہ کی ولادت ہوتی ہے تو کبھی کسی عزیز کو سپرد خاک کرنا پڑتا ہے، اگر ہم سال بھر تک عزاداری منائیں گے تو دنیا کے قدم سے قدم ملاکر نہیں چل سکتے جو آیات وروایات کے خلاف ہے کیونکہ نہ تو صرف دنیا طلبی میں فلاح ہے اور نہ ہی صرف آخرت کی فکر میں نجات ہے، معصومین کے بیانات کے مطابق اگر فلاح و بہبودی کے خواہاں ہیں تو دنیا و آخرت کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہوگا کیونکہ انسانیت کا اصلی امتحان یہی ہے کہ وہ دنیا و آخرت کو ایک ساتھ لے کر کس طرح منزل مقصود تک رسائی حاصل کرتا ہے!۔ ہر قسم کی خوشی، سالگرہ، ولادت وغیرہ کو بالائے طاق رکھنا پڑجائے گا؛ یہی سبب ہے کہ ہمارے بزرگ علماء نے دو مہینے آٹھ دن کے بعد ایک تاریخ(نو ربیع الاول) کا انتخاب کیا کہ اس میں عزادارانِ مظلوم کربلا سوگ بڑھائیں اور اپنے دنیاوی امور بھی انجام دے سکیں۔
 جواب(٥): کسی بھی آیت،روایت،حکایت یا تاریخ میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس تاریخ میں خوشی منانا حرام ہے یا خوشی منانا مکروہ ہے یا خوشی منانا قبیح امور میں شمار کیا گیا ہے، تو پھر ایسی کون سی مصیبت آئی جو نوربیع الاول کے خلاف قدم اٹھانے پر مجبور ہورہے ہیں!۔ اگر مذکورہ مناسبتوں میں سے کوئی ایک مناسبت بھی ثابت ہوجائے تو خوشی منانے کے لئے کافی ہے!۔ معاشرہ میں محاورہ مشہور ہے کہ ''خوشی بہانہ تلاش کرتی ہے'' اس محاورہ کے پیش نظر اگر کسی بہانے اس تاریخ میں خوشی منائی جارہی ہے تو شرعاً اورعقلاً درست ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے۔
اعتراض: نو ربیع الاول کو لوگ ''یوم رفع القلم'' کے نام سے جانتے ہیں یعنی اس روز جتنا دل چاہے گناہ انجام دو، کسی گناہ پر کوئی سزا نہیں ملے گی، اس دن مکمل آزادی ہے۔
جواب: جہاں تک حق کی بات ہے وہ یہی ہے کہ سال بھر میں کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے جس میں کسی بھی شریعت نے کسی گناہ کی اجازت دی ہو! جیسا کہ ہم نے ابتدائے کلام میں عرض کیا ہے کہ افراط و تفریط کا وجود انسان کو ''دھوبی کا کتا '' بنا دیتا ہے جو نہ توگھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا؛ یہ مقام بھی انہی مقامات میں سے ایک ہے، یہاں پر لوگ افراط کے شکار ہوگئے ہیں جب کہ ہمارے معصومین نے بھی یہی دعوت دی ہے کہ کسی مذہب کے ماننے والوں پر طعن و تشنیع نہ کیا جائے کہ اختلاف کا سبب قرار پائے ، اسی طرح معصومین  کے حقیقی پیروکاروں کا بھی یہی رویہ ہے کہ دوسرے مذاہب پر طعن و تشنیع نہ کیا جائے؛ یہ صرف جہالت ہے کہ نہ تواقوال معصومین کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی نائبانِ ائمہ کی بات ماننے کو تیار ہیں؛ ایسی صورت میں وہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ قرآن کریم میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ انسان ایک روز گناہ کرسکتا ہے! بلکہ خدا کی بارگاہ میں ہر عمل کا حساب ہوگا چاہے وہ ایک ذرّہ کے برابر ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: ''جس نے ذرہ برابر نیکی انجام دی وہ اسے(میدان حشرمیں) دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہے وہ اس کو (بھی) دیکھے گا''۔(١٧)؛ لہٰذا یہ کہنا کہ فلاں دن گناہ کرنا جائز ہے، یہ کسی بھی صورت معقول نہیں ہے۔دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: ''ہر شخص (بروز قیامت) اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوگا''۔(١٨)؛ اس آیت میں کسی قسم کے اعمال کی قید نہیں لگائی گئی ہے کہ نیک اعمال کا ذمہ دار ہوگا یا اعمال بد کا ذمہ دار ہوگا! یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ زیادہ تر ایسا جملہ مذموم مقامات پر استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ ہمارے معاشرہ میں بھی رائج ہے کہ بھائی ہم نے تمہاری رہنمائی کردی ہے اب تم جانو...۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر تم نے ہمارے مشورہ پر عمل نہ کیا تو ضرر سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ہر خوشی کی تاریخ میں خوشی منانے کی ترغیب دلائی گئی ہے لیکن کسی بھی لمحہ چھوٹے سے چھوٹا گناہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے لہٰذا یہ کہنا قرین عقل نہیں کہ اس روز کوئی گناہ نہیں لکھا جائے؛ یہ تو خداوند عالم کی رحمت و مغفرت کی وسعت ہے کہ اس نے چارسو اپنی رحمت پھیلا رکھی ہے، ارشاد ہوا: ''اگر کوئی ایک نیکی انجام دے گا تو ہم اس کو دس نیکیوں سے نوازیں گے اور اگر کوئی گناہ انجام دے گا تو ایک گناہ کی ایک ہی سزا پائے گا''۔(١٩)؛ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی روز گناہ انجام دیئے جائیں اور نامۂ اعمال میں گناہ نہ لکھے جائیں!؛ ہمیں خداوندعالم کی مہربانی و عطوفت سے انکار نہیں ہے لیکن عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ جیسا مریض ہو ویسی ہی دوا دی جائے۔ اگر وہ کسی گناہ کو بخش دے تو یہ اس کا رحم وکرم ہے۔ ہمارے ذہنوں سے یہ فتور نکل جانا چاہئے کہ اس روز ہمیں گناہوں کی اجازت ملی ہوئی ہے؛ اگر ہمارا یہی نظریہ ہوجائے گا تو پھر عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان کیا فرق رہے گا! وہ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ پہلی اپریل کو بڑے سے بڑا جھوٹ بولا جاسکتا ہے اور اس دن جھوٹ بولنے میں کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا!۔ حالانکہ ہرگز ایسا نہیں ہے، انجیل میں کہیں ایسا مسئلہ نہیں جو گناہ کی اجازت دیتا ہو یہ تو صرف عیسائیوں نے اپنی طرف سے بنایا ہے، اسی طرح یہ ہمارا یہ کہنا کہ نو ربیع الاول کو ہر گناہ انجام دیا جاسکتا ہے یہ بھی آیات و روایات کے خلاف ہے لہٰذا ہمیں ایسی واہیات سے پرہیز کرنا چاہئے۔
اعتراض: دنیائے اسلام میں دعوت اتحاد کا سلسلہ جاری و ساری ہے، کیا یہ نو ربیع الاول اتحاد اور وحدت کے منافی نہیں ہے؟۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ آیات و روایات میں اتحاد کی انتہائی عظمت و منزلت بیان ہوئی ہے، قرآن میں ارشاد ہورہا ہے: ''اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور گمراہ نہ ہو''۔(٢٠)؛ لیکن اس وحدت و اتحاد کے مفہوم کو سمجھنا پڑے گا کہ خدا و رسولۖ نے اتحاد کے کیا معنی بیان کئے ہیں!؛ کسی بھی آیت و روایت میں اتحاد کا مطلب یہ بیان نہیں کیا گیا کہ انسان اپنا عقیدہ چھوڑ کر دوسرے مذاہب کے عقائد کو اپنائے!، اتحاد کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے عقیدے پر قائم رہ کر دشمن کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈٹ جائے، مثلاً اہل تشیع اور اہل تسنن میں عقائد کے اعتبار سے اختلاف پایا جاتا ہے تو یہ اختلاف اپنی جگہ لیکن اگر مسلمانوں پر غیر مسلم کی جانب سے یلغار ہو تو پھر شیعہ سنی نہیں دیکھا جائے گا بلکہ مسلم عنوان کو اختیار کیا جائے گا، اتحاد کا مفہوم یہی ہے کہ تمام امت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائے اور دشمن کو دندان شکن جواب دے سکے لیکن عقائد کے متعلق کہیں حکم نہیں دیا گیا ہے کہ اگر اتحاد قائم کرنا چاہتے ہو تو اپنا مذہب بدل ڈالو!؛تولّی اور تبرَّیٰ اہل تشیع کے نزدیک دفروع دین (عقائد)میں شمار کئے جاتے ہیں یعنی جس طرح نماز روزہ حج وغیرہ واجب ہیں اسی طرح یہ دونوں چیزیں بھی واجب ہیں لہٰذا اظہار محبت اور اظہار بیزاری کو دین سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ اظہار کس طرح کیا جائے؟ اس اظہار میں بعض نادان لوگ افراط و تفریط کے شکار ہوکر مذہب کی بدنامی کا سبب قرار پاتے ہیں، اگر ان امور میں بھی(بقیہ امور کی طرح) تعادل اور میانہ روی سے کام لیا جائے تو کسی قسم کا اختلاف واقع نہیں ہوگا یہاں تک کہ کسی آبگینے کو ٹھیس بھی نہیں پہنچے گی اور اتحاد بھی اپنی جگہ برقرار رہے گا۔
نتیجہ و خلاصہ:
١۔ چونکہ فریقین کی کتابوں میں قتل عمرابن خطاب سے متعلق دونوں تاریخیں(٩ربیع الاول اور ٢٦ذی الحجہ) مرقوم ہیں لہٰذا ان میں سے کسی ایک پر زیادہ زور دینا درست نہیں ہے، دوسری روایت چاہے ضعیف ہی سہی لیکن موجود ہے اور اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔نو ربیع الاول کی خوشی سے مطلقاً انکار کرنا معقول نہیں ہے کیونکہ اس تاریخ سے متعلق کئی مناسبتیں مذکور ہیں جن میں سے اگر ایک کو بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس روز کی خوشی کے لئے کافی ہے۔ کیاہمارے زندہ و پائندہ امام کا آغاز امامت ہمارے لئے خوشی کا باعث نہیں ہونا چاہئے؟ اگر کوئی مناسبت شمار بھی نہ کی جائے تب بھی رسول خداۖ کا اس روز کو عید قرار دینا، اسی طرح امام عسکری کا یہ فرمان کہ اہلبیت کے لئے نو ربیع الاول سے بڑی کون سی عید ہوگی!،جیسے امور'' نو ربیع الاول'' کی خوشی میں چارچاند لگادیتے ہیں۔
٢۔ کتب تواریخ کے پیش نظر جناب مختار  کے قیام میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، جب جناب مختار کا قیام مسلّم ہے تو قاتلینِ امام حسین سے انتقام لینا بھی ایک یقینی امر ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جناب مختار کے اس عمل سے امام سجاد کے لب ہائے مبارک پر تبسم آیا تھا، امام سجاد کی خدمت میں قاتلانِ امام حسین کے سروں کا پہنچنا بھی یقینی ہے؛ کیا یہ امر بعید از عقل ہے کہ جناب مختار  نے نوربیع الاول کے روز ہی امام سجاد کی خدمت میں سر پیش کئے ہوں!ہرگز نہیں، ممکن ہے اسی روز سرپہنچے ہوں... تو پھر اس میں اتنی شدت درست معلوم نہیں ہوتی!۔
٣۔ ہمیں اپنے بزرگ علماء اعلام کی کاوشوں اور حکمتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ چلئے ہم فرض کرتے ہیں کہ نو ربیع الاول کے روز کوئی مناسبت نہیں ہے، چلئے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ کسی معصوم نے اس روز خوشی کا حکم نہیں دیا... لیکن ان چیزوں سے غض نظر، برس ہا برس سے ایک ہی تاریخ میں یہ خوشی منایا جاناحکمت سے خالی نہیں ہے، ہمارے بزرگوں نے یہ تاریخ اس لئے معین کی ہے کہ سوگواروں کا سوگ بڑھایا جائے اور شادی بیاہ، عقیقہ وغیرہ جیسی خوشی کی تقریبیں کریں، اگر نو ربیع الاول کی تاریخ معین نہ کی جاتی تو پھر سال بھر میں وہ کون سا روز آتا جس میں عزادارانِ امام حسین  اپنا سوگ بڑھاتے؟ دومہینے آٹھ دن عزاداران امام حسین عزاداری میں محو رہتے ہیں اور ان ایام میں خوشی کی کوئی تقریب نہیں کرتے تو کیا یہ معقول ہے کہ انہیں نو ربیع الاول کی خوشی سے شدت کے ساتھ روکا جائے؟، حالانکہ اس روز خوشی منانا نہ تو حرام ہے اور نہ مکروہ... زیادہ سے زیادہ مباح کہا جاسکتا ہے اور مباح، مساوی الطرفین ہوتا ہے(یعنی آپ کو اختیار ہے کہ انجام دیں یا نہ دیں)اس تناظر میں اگر نو ربیع الاول کی خوشی منائی بھی جارہی ہے تو اگر اس خوشی سے ثواب نہ بھی ملے تو کوئی عذاب بھی نہیں مل رہا ہے؛ صرف یہ سمجھ لیجئے کہ سوگ بڑھایا جارہا ہے، اس صورت میں تو کوئی اعتراض کی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی ہے! تو پھر اس شدت میں کمی لانا بہتر ہے کیونکہ مباح کام پر کوئی عقاب نہیں ہے۔
٤۔ مسلمانوں کا رویہ عیسائیوں کی مانند بھی نہیں ہونا چاہئے کہ سال بھر میں ایک روز گناہ انجام دینا جائز ہے؛ کسی شریعت نے اس چیز کی اجازت نہیں دی کہ سال بھر میں ایک دن گناہ انجام دے سکتے ہو، ایسی چیزیں جہالت کی عکاسی کرتی ہیں اور ایسے لوگ اپنی حد سے تجاوز کرتے ہیں اور ان کا یہ حدود سے تجاوز کرنا خدا و رسولۖ کے غضب کا باعث ہوتا ہے لہٰذا نہ تو منزل سے آگے اور نہ ہی منزل سے پیچھے بلکہ کاروان کے ساتھ رہنا ہی منزل مقصود تک پہنچاتا ہے، (نہ حلوا بن کہ چَٹ کرجائیں بھوکے...نہ کڑوا بن کہ جو چکّھے سو تھوکے) یہ شعربھی تعادل اور میانہ روی کی دعوت دے رہا ہے؛ لہٰذا اگر نو ربیع الاول کی خوشی مغلّظات سے خالی ہو تو ایسی خوشی منانے میں شرعی و عقلی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں ہے۔آیات و روایات میں ملعونوں پر لعنتیں کی گئی ہیں لیکن کہیں کسی ملعون کو گالی نہیں دی گئی، ہمارا اسلام گالی کو حرام قرار دیتا ہے اسی طرح ہماری شریعت نے ناچ گانے کو بھی حرام قرار دیا ہے لہٰذا ہمیں اپنی ہر خوشی میں رضائے خدا کا لحاظ رکھنا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معصومین کی خوشی میں خوش ہونا اور ان کے غم میں غمزدہ ہونا ہمیں ان ہستیوں سے قریب کرتا ہے لیکن ہمارا فریضہ ہے کہ اپنے نیک اعمال کے ذریعہ اس قربت کو باقی رکھیں کیونکہ ناچ گانا اور گالی گلوچ ہمارے معصومین کا شیوہ نہیں ہے بلکہ یہ ملعونوں کا شیوہ ہے، اگر ہم ملعونوں پر لعنتیں کررہے ہیں اور ان لعنتوں میں گالی گلوچ کا استعمال کررہے ہیں یا کسی منافق کے قتل کی خوشی میں ناچ گانا کرنے لگیں تو پھر ہم میں اور ملعونوں میں کیا فرق باقی رہتا ہے؟ جیسے وہ لوگ لعنتوں کے حقدار قرار پائے ہیں ایسے ہی ہم لوگ بھی ان کے زمرے میں شمار کئے جائیں گے۔ اسلام نے کسی بھی حالت میں گالی اور ناچ گانے کی اجازت نہیں دی ہے لہٰذا ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ہر گوشے کو مدنظر رکھ کر خوشی منائیں، ایسا نہ ہو کہ ہم خوشی منائیں اور ہماری خوشی ہمارے امام کو رنجیدہ کردے! شیعیان علی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دشمنوں کا رویہ اختیار کریں۔ خوشی منائی جائے لیکن اپنی حدود میں رہتے ہوئے منائی جائے اسی صورت میں ہمارے ائمۂ اطہار ہم سے خوش رہیں گے۔
٥۔ کسی مناسبت پر کوئی خوشی منانا اتحاد کے منافی نہیں ہے کیونکہ اتحاد کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے عقائد میں آزاد رہتے ہوئے اپنے بھائی کا ہاتھ تھام کر چلے؛ چاہے بارہ وفات ہو یا سترہ ربیع الاول، چاہے نو ربیع الاول ہو یا اٹھارہ ذی الحجہ... غرض کوئی بھی خوشی منائی جائے ہر خوشی میں اس کی حدود کو مدنظر رکھا جائے؛ اتحاد کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ دشمن طاقت کے مقابل ایک ساتھ نظر آئیں چاہے عقیدے الگ الگ ہوں۔ نو ربیع الاول کی خوشی اتنی زیادہ اختلاف کا باعث نہیں جتنی زیادہ یہ تحقیقی سازش اتحاد کو نقصان پہنچارہی ہے کہ نو ربیع الاول میں کوئی خوشی ہی نہیں ہے!۔ میں تحقیق کا مخالف نہیں ہوں بلکہ میں خود تحقیق پسند انسان ہوں لیکن تحقیق کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ کسی گوشہ کو تشنۂ بیان نہ چھوڑا جائے؛ اگر تحقیق میں دوپہلو ہوں تو دونوں پہلوؤ ں پر برابر روشنی ڈالی جائے، صرف ایک پہلو پر زور دینا تحقیق نہیں کہلاتا۔ چاہے رسم ہی سہی... لیکن ایک رسم جو برسوں سے چلی آرہی ہے اس کے لئے ایک دم یہ کہہ دینا کہ یہ رسم فضول ہے اور اس تاریخ میں کوئی مناسبت نہیں پائی جاتی... کیا ایسی باتیں آبگینوں کو ٹھیس پہنچانے کا باعث قرار نہیں پائیں گی؟ یہی باتیں اور اسی طرح کے مضامین نے ہی قوم کو دو فرقوں میں تقسیم کیا ہے؛ ایک فرقہ اس ضد پر اَڑا ہوا ہے کہ ہم نو ربیع الاول کو خوشی منائیں گے اور اس خوشی میں مغلّظات بھی شامل کرلئے، اور دوسرا فرقہ اس ضد پر اڑا ہوا ہے کہ نہ تو ہم خود منائیں گے اور نہ ہی کسی کو خوشی منانے دیں گے!تو اب اندازہ لگائیے کہ عوام کی فرقہ بندی کا سہرا کس کے سر بندھے گا؟ شریعت نے یہی تو سمجھایا ہے کہ افراط و تفریط سے دامن بچاؤ اور میانہ روی کو شعار بناؤ۔ کام اس طرح ہونا چاہئے کہ ''سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے''الفاظ کے خاروں سے کسی کے دامن عقیدت کو تار تار کرنا کسی بھی زاویۂ نگاہ سے معقول نہیں ہے۔
اس بحث کا ماحصل یہی ہے کہ اگر برسوں پرانی چیز کوایک دم ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا نتیجہ اچھا ثابت نہیں ہوسکتا؛ بلکہ ہماری مرضی کے بالکل برعکس نتیجہ سامنے آئے گا، ہر کام کے لئے زمینہ سازی اور مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایک مناسبت دو تاریخوں میں پائی جارہی ہے تو دونوں تاریخوں میں بھی منایا جانا کسی قباحت کا حامل نہیں ہے لیکن دونوں میں سے ایک پر زیادہ زور دینا اور دوسرے کو ہیچ شمار کرنا عقل و منطق کے خلاف ہے۔ ''والسلام علی من اتبع الھدیٰ''۔
حوالہ جات:
١۔نہج البلاغہ، حکمت١١٤۔
٢۔شیخ کلینی، اصول کافی، ج٨، ص١٥٩۔
٣۔ارشاد: ج ٢، ص٣٣٦۔کشف الغمہ: ج٢ ، ص٤٠٢۔مستجاد: ص٢٢٦۔اقبال: ص٥٩٨۔فیض العلام: ص٢٠٧۔زاد المعاد: ص٣٣٤۔کافی: ج٢ ، ص٥٦١۔مصباح کفعمی: ج٢ ، ص٥٩٦۔بحار الانوار: ج٩٥ ، ص٣٥٥- ج ٥٠، ص٣٣٤۔
٤۔فیض العلام: ص٢١١۔
٥۔مدینہ المعاجز: ج ٢، ص٩٧۔
٦۔زاد المعاد: ص٣٣٤ ۔وقایع الایام: جلد ربیع الاول و ربیع الثانی، ص٥٩۔مستدرک سفینہ البحار: ج٤ ، ص٦٧۔
٧۔فیض العلام: ص٢١١ ۔
٨۔مجلسی، بحارالانوار، ج٩٥، ص٣٥١،٣٥٢؛ نشر بیروت۔سید ابن طاؤس، کتاب زوائد۔
٩۔مصباح کفعمی: ج ٢، ص٥٩٦۔بحار الانوار: ج٩٥ ، ص١٨٩۔زاد المعاد: ص٣٤٤۔بحار الانوار: ج٩٥ ، ص٣٥١۔
١٠۔مستدرک الوسائل ج١،ص ١٥٥۔
١١۔زاد المعاد ص٣٤٤۔
١٢۔مسار الشیعہ: ص٢٣۔توضیح المقاصد: ص٣٣ ۔العدد القویہ: ص٣٢٨۔فیض العلام: ص١٢٩۔بحار الانوار: ج٩٥ ، ص١٩٩۔
١٣۔بحار الانوار: ج٩٥ ، ص١٩٩۔
١٤۔تاریخ الخلفا: ص١٣٣۔
١٥۔تتمہ المنتہی: ص١١۔
١٦۔ کاشف الغطائ،سوال و جواب، ص١٠۔
١٧۔ سورۂ زلزلہ٧،٨۔
١٨۔ سورۂ مدثر٣٨۔
١٩۔ سورۂ انعام١٦٠۔
٢٠۔ سورۂ آل عمران١٠٣۔

اتوار، 10 جنوری، 2016

اسلام ٹائمز: ضیاء الافاضل کا انٹرویو





http://www.islamtimes.org/ur/doc/interview/511568
شیخ باقر النمر کی شہادت انسانیت، عدالت اور حق گوئی کی شہادت تھی، مولانا سید غافر رضوی
شیخ باقر النمر کی شہادت انسانیت، عدالت اور حق گوئی کی شہادت تھی، مولانا سید غافر رضوی


اسلام ٹائمز: تجزیہ نگار و ادارۂ شعور ولایت لکھنؤ انڈیا کے معاون مدیر کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا
 کہ آیۃ اللہ باقر النمر کو قتل کرنیوالوں نے ان سے پہلے اہلسنت کے ایک مشہور عالم اور امام جماعت البہا 
جناب فارس الزہرانی کو تہہ تیغ کیا تھا، اہلسنت کے شعلۂ انتقام کو کم کرنے کے لئے شیعہ عالم دین آیۃ اللہ باقر النمر
 کو قتل کر دیا اور اس کے ذریعے شیعہ سنی اختلاف کا بیج بونا چاہا، دشمن کے اس عمل نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ
 دشمن نہ تو سنی ہے نہ ہی شیعہ ہے بلکہ یہ ایک دہشتگرد تنظیم ہے، جس کو نہ اہلسنت سے ہمدردی ہے 
نہ اہل تشیع سے بلکہ ان کو صرف اپنے تخت و تاج سے محبت ہے، ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ 
اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔


ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی کا تعلق ہندوستانی ریاست یو پی سے ہے، مولانا سید غافر رضوی تعلیم و تدریس کے علاوہ متعدد محاذوں پر سرگرم عمل ہیں، تحقیق، تصنیف، خطابت، شاعری میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ ادارۂ شعور ولایت لکھنؤ انڈیا کے معاون مدیر ہیں، ادارۂ ابوطالب لاہور میں رکن ھیئت تحریریہ، ادارۂ ریاض القرآن لکھنؤ میں فعال رکن کی حیثیت سے مصروف ہیں، ادارۂ نور اسلامک مشن لکھنؤ میں عمومی رکن ہیں، ہندوستان کے مشہور و معروف اخباروں میں بھی ان کے مضامین مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں، مولانا سید غافر رضوی کی متعدد کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، اسلام ٹائمز نے ان سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)



اسلام ٹائمز: ماشاء اللہ آپ نے شیخ باقر النمر کے حوالے سے متعدد مضامین بھی تحریر فرمائے ہیں، جاننا چاہیں گے کہ شیخ باقر النمر کو کس ناکردہ جرم کی سزا میں قتل کیا گیا ہے۔؟

مولانا سید غافر رضوی: تاریخ اسلام شاہد ہے کہ آدم سے لیکر خاتم تک اور خاتم سے لیکر دور حاضر تک، ہر زمانے میں حامیان حق و حقیقت اور پاسبان عدالت نے چمنستان اسلام کو اپنے لہو کے ذریعہ سرخرو کیا ہے، ان کا ہدف اسلام کی حفاظت اور حق گوئی کو رائج کرنا رہا ہے، شہید باقر النمر کا لہو بھی دنیائے انسانیت سے یہی کہہ رہا ہے کہ ہم حق گوئی اور قیام عدالت کے جرم میں تہہ تیغ کئے گئے، دشمن نے موصوف کو دنیا کے سامنے ایک دہشت گرد کی صورت میں پیش کرنا چاہا لیکن حق یہی ہے کہ نہ تو کبھی حق چھپا تھا، نہ ہی چھپا ہے اور نہ کبھی چھپے گا۔ زبان خاموش ہوجائے گی تو لہو پکار کر کہے گا کہ ہمیں قیام عدالت کے جرم میں دہشت پسند حکومت نے سزائے موت دی ہے، آیۃ اللہ باقر النمر کو قتل کرنے والوں نے ان سے پہلے اہلسنت کے ایک مشہور عالم اور امام جماعت البہا جناب فارس الزہرانی کو تہہ تیغ کیا تھا، اہلسنت کے شعلۂ انتقام کو کم کرنے کے لئے شیعہ عالم دین آیۃ اللہ باقر النمر کو قتل کر دیا اور اس کے ذریعے شیعہ سنی اختلاف کا بیج بونا چاہا، دشمن کے اس عمل نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دشمن نہ تو سنی ہے نہ ہی شیعہ ہے بلکہ یہ ایک دہشتگرد تنظیم ہے، جس کو نہ اہلسنت سے ہمدردی ہے نہ اہل تشیع سے، بلکہ ان کو صرف تخت و تاج سے محبت ہے، ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔

اسلام ٹائمز: شیخ باقر النمر کی شہادت کے بعد دنیا بھر میں ہونیوالے احتجاجی مظاہروں کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی: دنیا میں ہونے والے مظاہرے صرف مظاہرے نہیں بلکہ یہ ایک تحریک ہے، جس کو آگے بڑھانا ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے، یہ تحریک، دہشتگردی کی بیخ کنی کے لئے بہت لازمی ہے، اگر ہم دشمن کے خلاف قدم نہیں اٹھائیں گے تو اس کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور نہ جانے کتنے زہرانی اور نمر تہہ تیغ کئے جاتے رہیں گے، اس دہشتگرد تنظیم کا سدّباب نہایت ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: آل سعود مخالف احتجاج میں ہمیں کیا روش اپنانی چاہیئے، کہ انتشار و تضاد سے بچا جاسکے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: ہمارے احتجاج میں حق گوئی اور عدالت کا لحاظ رکھا جائے، جس کے ذریعے دنیا کا ہر عاقل یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے کہ یہ احتجاجات حق کی عکاسی کرتے ہیں اور شہید نمر کو شہید کرکے دشمن نے بہت برا کام کیا ہے، یہ شہادت صرف شیعہ عالم سے مخصوص نہیں تھی، بلکہ انسانیت اور عدالت و حق گوئی کی شہادت تھی۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ شہادت باعث بنے گی کہ سعودی عرب کی عوام مزید بیدار ہوجائے، یا انکے حوصلوں کو اس شہادت کے نتیجے میں دبایا جاسکتا ہے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: جی ہاں! یہ شہادت عوام میں شعور و بیداری پیدا کرے گی، حق ہمیشہ بلند رہتا ہے۔ لہٰذا شہادت کے ذریعے عوام کو خاموش نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے ذریعہ جذبات بیدار ہوتے ہیں، جس کا اظہار شیخ نمر کی شہادت کے ایام میں خود ان کے وطن "قطیف" میں دیکھنے کو ملا۔ یقیناََ خونِ ناحق رنگ لاتا ہے اور شہید نمر کا لہو بھی رنگ لائے گا، اور جب یہ رنگ لائے گا تو پوری دنیا میں ایک انقلابی فضا قائم ہوجائے گی، صرف انسانیت اور عدالت کے حامی نظر آئیں گے، دہشتگرد تنظیم کو منہ چھپانے کی جگہ بھی میسر نہیں ہوگی۔ اس شہادت کے ذریعے حق پسندی کو نہیں مٹایا جاسکتا، نہ انکے جذبے کو دبایا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے ذریعے شہادت کو فروغ ملے گا، حق کے شیدائی راہ حق میں ثابت قدمی کا ثبوت دیتے ہوئے سروں پر کفن باندھ لیں گے اور ظلم بوکھلا جائے گا کہ کون کون سے سروں کو قلم کرے، یہاں تو ہر سر حق کا حامی نظر آتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایسی دہشتگرد تنطیم کی سربراہی میں 34 ممالک کے دہشتگردی مخالف اتحاد کا نتیجہ کیا ہوگا۔؟
مولانا سید غافر رضوی: ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، صدائے حق کو نہ تو کبھی دبایا جاسکا ہے اور نہ ہی کبھی دبایا جاسکتا ہے، چاہے کتنے ہی ممالک دہشتگردی کے حامی ہوجائیں، حق کا راستہ نہیں روکا جاسکتا، حق ہمیشہ بلند تھا اور ہمیشہ بلند رہے گا، اس زمانے کے مسلمانوں کا عینی فریضہ ہے کہ ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دہشتگردی کا مقابلہ کریں، کیونکہ دہشتگرد تنظیمیں انسانیت کی دشمن ہیں، ان کا مقابلہ صرف یکجہتی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: یمن اور بحرین میں ہونیوالے مظالم پر آپکا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: چاہے یمن ہو یا بحرین، عراق ہو یا شام، پاکستان ہو یا دنیا کا اور کوئی ملک، جہاں بھی مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، ان کے قاتل مسلمان نہیں ہیں بلکہ اسلامی لبادہ میں استعمار، صہیونیزم اور دہشتگرد تنظیمیں ہیں، جو موقع کی مناسبت سے چہرے بدل بدل کر سامنے آرہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: شام و عراق اور عالم اسلام اب داعش جیسی دہشتگردی سے نجات پائے گا یا مزید خانہ جنگی بڑھے گی۔؟
مولانا سید غافر رضوی: اگر احتجاجی مظاہرے اسی طرح جوش و خروش کے ساتھ دشمن کی ہمت کو پست کرتے رہے تو ایک دن وہ بھی آئے گا کہ دنیا سے دہشتگردی کا نام و نشان مٹ جائے گا، کیونکہ اتحاد و یکجہتی ایسی طاقت کا نام ہے، جس کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت قائم و دائم نہیں رہ سکتی، دہشتگردی کے خاتمہ کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ تمام امت مسلمہ، دہشتگرد تنظیم کے مقابل اٹوٹ باندھ کی مانند ڈٹ کر کھڑی ہوجائے، دہشتگردوں کو یہ سمجھا دے کہ ہم مسلمان ہیں اور اتحاد کی صف قائم کرکے دہشتگردی کے خلاف کھڑے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض ممالک کے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی حرکت و سازش کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی: یہ بہت احمقانہ حرکت کی گئی ہے، اس حرکت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دہشتگردی کی حمایت میں آواز بلند کرنے والے یہ ممالک کمزور ہونے کے باوجود دہشتگردی کے حامی بھی ہیں، یہیں پر وہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ’’جوں کو بھی زکام ہونے لگا‘‘، ان ممالک کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ دہشتگرد تنظیم کبھی کسی ملک یا کسی قوم کی ہمدرد نہیں ہوتی بلکہ یہ ایسی تنظیم ہے جو ہمیشہ حق و عدالت اور انسانیت کا خون بہاتی ہے، انسانیت کے ناطے ہی سہی لیکن ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ اس تنظیم کی مخالفت میں قیام کریں۔

خبر کا کوڈ: 511568

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords