اتوار، 10 جنوری، 2016

اسلام ٹائمز: ضیاء الافاضل کا انٹرویو





http://www.islamtimes.org/ur/doc/interview/511568
شیخ باقر النمر کی شہادت انسانیت، عدالت اور حق گوئی کی شہادت تھی، مولانا سید غافر رضوی
شیخ باقر النمر کی شہادت انسانیت، عدالت اور حق گوئی کی شہادت تھی، مولانا سید غافر رضوی


اسلام ٹائمز: تجزیہ نگار و ادارۂ شعور ولایت لکھنؤ انڈیا کے معاون مدیر کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا
 کہ آیۃ اللہ باقر النمر کو قتل کرنیوالوں نے ان سے پہلے اہلسنت کے ایک مشہور عالم اور امام جماعت البہا 
جناب فارس الزہرانی کو تہہ تیغ کیا تھا، اہلسنت کے شعلۂ انتقام کو کم کرنے کے لئے شیعہ عالم دین آیۃ اللہ باقر النمر
 کو قتل کر دیا اور اس کے ذریعے شیعہ سنی اختلاف کا بیج بونا چاہا، دشمن کے اس عمل نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ
 دشمن نہ تو سنی ہے نہ ہی شیعہ ہے بلکہ یہ ایک دہشتگرد تنظیم ہے، جس کو نہ اہلسنت سے ہمدردی ہے 
نہ اہل تشیع سے بلکہ ان کو صرف اپنے تخت و تاج سے محبت ہے، ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ 
اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔


ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی کا تعلق ہندوستانی ریاست یو پی سے ہے، مولانا سید غافر رضوی تعلیم و تدریس کے علاوہ متعدد محاذوں پر سرگرم عمل ہیں، تحقیق، تصنیف، خطابت، شاعری میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ ادارۂ شعور ولایت لکھنؤ انڈیا کے معاون مدیر ہیں، ادارۂ ابوطالب لاہور میں رکن ھیئت تحریریہ، ادارۂ ریاض القرآن لکھنؤ میں فعال رکن کی حیثیت سے مصروف ہیں، ادارۂ نور اسلامک مشن لکھنؤ میں عمومی رکن ہیں، ہندوستان کے مشہور و معروف اخباروں میں بھی ان کے مضامین مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں، مولانا سید غافر رضوی کی متعدد کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، اسلام ٹائمز نے ان سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)



اسلام ٹائمز: ماشاء اللہ آپ نے شیخ باقر النمر کے حوالے سے متعدد مضامین بھی تحریر فرمائے ہیں، جاننا چاہیں گے کہ شیخ باقر النمر کو کس ناکردہ جرم کی سزا میں قتل کیا گیا ہے۔؟

مولانا سید غافر رضوی: تاریخ اسلام شاہد ہے کہ آدم سے لیکر خاتم تک اور خاتم سے لیکر دور حاضر تک، ہر زمانے میں حامیان حق و حقیقت اور پاسبان عدالت نے چمنستان اسلام کو اپنے لہو کے ذریعہ سرخرو کیا ہے، ان کا ہدف اسلام کی حفاظت اور حق گوئی کو رائج کرنا رہا ہے، شہید باقر النمر کا لہو بھی دنیائے انسانیت سے یہی کہہ رہا ہے کہ ہم حق گوئی اور قیام عدالت کے جرم میں تہہ تیغ کئے گئے، دشمن نے موصوف کو دنیا کے سامنے ایک دہشت گرد کی صورت میں پیش کرنا چاہا لیکن حق یہی ہے کہ نہ تو کبھی حق چھپا تھا، نہ ہی چھپا ہے اور نہ کبھی چھپے گا۔ زبان خاموش ہوجائے گی تو لہو پکار کر کہے گا کہ ہمیں قیام عدالت کے جرم میں دہشت پسند حکومت نے سزائے موت دی ہے، آیۃ اللہ باقر النمر کو قتل کرنے والوں نے ان سے پہلے اہلسنت کے ایک مشہور عالم اور امام جماعت البہا جناب فارس الزہرانی کو تہہ تیغ کیا تھا، اہلسنت کے شعلۂ انتقام کو کم کرنے کے لئے شیعہ عالم دین آیۃ اللہ باقر النمر کو قتل کر دیا اور اس کے ذریعے شیعہ سنی اختلاف کا بیج بونا چاہا، دشمن کے اس عمل نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دشمن نہ تو سنی ہے نہ ہی شیعہ ہے بلکہ یہ ایک دہشتگرد تنظیم ہے، جس کو نہ اہلسنت سے ہمدردی ہے نہ اہل تشیع سے، بلکہ ان کو صرف تخت و تاج سے محبت ہے، ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔

اسلام ٹائمز: شیخ باقر النمر کی شہادت کے بعد دنیا بھر میں ہونیوالے احتجاجی مظاہروں کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی: دنیا میں ہونے والے مظاہرے صرف مظاہرے نہیں بلکہ یہ ایک تحریک ہے، جس کو آگے بڑھانا ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے، یہ تحریک، دہشتگردی کی بیخ کنی کے لئے بہت لازمی ہے، اگر ہم دشمن کے خلاف قدم نہیں اٹھائیں گے تو اس کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور نہ جانے کتنے زہرانی اور نمر تہہ تیغ کئے جاتے رہیں گے، اس دہشتگرد تنظیم کا سدّباب نہایت ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: آل سعود مخالف احتجاج میں ہمیں کیا روش اپنانی چاہیئے، کہ انتشار و تضاد سے بچا جاسکے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: ہمارے احتجاج میں حق گوئی اور عدالت کا لحاظ رکھا جائے، جس کے ذریعے دنیا کا ہر عاقل یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے کہ یہ احتجاجات حق کی عکاسی کرتے ہیں اور شہید نمر کو شہید کرکے دشمن نے بہت برا کام کیا ہے، یہ شہادت صرف شیعہ عالم سے مخصوص نہیں تھی، بلکہ انسانیت اور عدالت و حق گوئی کی شہادت تھی۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ شہادت باعث بنے گی کہ سعودی عرب کی عوام مزید بیدار ہوجائے، یا انکے حوصلوں کو اس شہادت کے نتیجے میں دبایا جاسکتا ہے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: جی ہاں! یہ شہادت عوام میں شعور و بیداری پیدا کرے گی، حق ہمیشہ بلند رہتا ہے۔ لہٰذا شہادت کے ذریعے عوام کو خاموش نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے ذریعہ جذبات بیدار ہوتے ہیں، جس کا اظہار شیخ نمر کی شہادت کے ایام میں خود ان کے وطن "قطیف" میں دیکھنے کو ملا۔ یقیناََ خونِ ناحق رنگ لاتا ہے اور شہید نمر کا لہو بھی رنگ لائے گا، اور جب یہ رنگ لائے گا تو پوری دنیا میں ایک انقلابی فضا قائم ہوجائے گی، صرف انسانیت اور عدالت کے حامی نظر آئیں گے، دہشتگرد تنظیم کو منہ چھپانے کی جگہ بھی میسر نہیں ہوگی۔ اس شہادت کے ذریعے حق پسندی کو نہیں مٹایا جاسکتا، نہ انکے جذبے کو دبایا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے ذریعے شہادت کو فروغ ملے گا، حق کے شیدائی راہ حق میں ثابت قدمی کا ثبوت دیتے ہوئے سروں پر کفن باندھ لیں گے اور ظلم بوکھلا جائے گا کہ کون کون سے سروں کو قلم کرے، یہاں تو ہر سر حق کا حامی نظر آتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایسی دہشتگرد تنطیم کی سربراہی میں 34 ممالک کے دہشتگردی مخالف اتحاد کا نتیجہ کیا ہوگا۔؟
مولانا سید غافر رضوی: ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، صدائے حق کو نہ تو کبھی دبایا جاسکا ہے اور نہ ہی کبھی دبایا جاسکتا ہے، چاہے کتنے ہی ممالک دہشتگردی کے حامی ہوجائیں، حق کا راستہ نہیں روکا جاسکتا، حق ہمیشہ بلند تھا اور ہمیشہ بلند رہے گا، اس زمانے کے مسلمانوں کا عینی فریضہ ہے کہ ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دہشتگردی کا مقابلہ کریں، کیونکہ دہشتگرد تنظیمیں انسانیت کی دشمن ہیں، ان کا مقابلہ صرف یکجہتی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: یمن اور بحرین میں ہونیوالے مظالم پر آپکا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: چاہے یمن ہو یا بحرین، عراق ہو یا شام، پاکستان ہو یا دنیا کا اور کوئی ملک، جہاں بھی مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، ان کے قاتل مسلمان نہیں ہیں بلکہ اسلامی لبادہ میں استعمار، صہیونیزم اور دہشتگرد تنظیمیں ہیں، جو موقع کی مناسبت سے چہرے بدل بدل کر سامنے آرہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: شام و عراق اور عالم اسلام اب داعش جیسی دہشتگردی سے نجات پائے گا یا مزید خانہ جنگی بڑھے گی۔؟
مولانا سید غافر رضوی: اگر احتجاجی مظاہرے اسی طرح جوش و خروش کے ساتھ دشمن کی ہمت کو پست کرتے رہے تو ایک دن وہ بھی آئے گا کہ دنیا سے دہشتگردی کا نام و نشان مٹ جائے گا، کیونکہ اتحاد و یکجہتی ایسی طاقت کا نام ہے، جس کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت قائم و دائم نہیں رہ سکتی، دہشتگردی کے خاتمہ کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ تمام امت مسلمہ، دہشتگرد تنظیم کے مقابل اٹوٹ باندھ کی مانند ڈٹ کر کھڑی ہوجائے، دہشتگردوں کو یہ سمجھا دے کہ ہم مسلمان ہیں اور اتحاد کی صف قائم کرکے دہشتگردی کے خلاف کھڑے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض ممالک کے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی حرکت و سازش کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی: یہ بہت احمقانہ حرکت کی گئی ہے، اس حرکت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دہشتگردی کی حمایت میں آواز بلند کرنے والے یہ ممالک کمزور ہونے کے باوجود دہشتگردی کے حامی بھی ہیں، یہیں پر وہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ’’جوں کو بھی زکام ہونے لگا‘‘، ان ممالک کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ دہشتگرد تنظیم کبھی کسی ملک یا کسی قوم کی ہمدرد نہیں ہوتی بلکہ یہ ایسی تنظیم ہے جو ہمیشہ حق و عدالت اور انسانیت کا خون بہاتی ہے، انسانیت کے ناطے ہی سہی لیکن ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ اس تنظیم کی مخالفت میں قیام کریں۔

خبر کا کوڈ: 511568

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords