اتوار، 30 اگست، 2015

مسلمانوں کے اتحاد پر تکفیریوں کی یلغار: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی


مسلمانوں کے اتحاد پر تکفیریوں کی یلغار

 ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

اتحادویکجہتی ایک ایسی عظیم شئے ہے کہ جس کے مقابل کوہِ گراں بھی خفیف اور سبک نظر آتا ہے، اتحاد کی حقیقت یہی ہے کہ اگر ایک ہاتھ کی ایک انگلی ہو تو اس کو کوئی بھی توڑ سکتا ہے لیکن اگر پانچوں انگلیاں متحد ہوجائیں تو پھرگھونسے(مُکّے) کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اوراگر یہ گھونسا دشمن کے منھ پر پڑجائے تو اس کا منھ توڑدے۔ اس دور پُر آشوب میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی نہایت ضروری امر ہے کیونکہ غیر مسلم اقوام کے ارادے کچھ نیک نہیں لگ رہے ہیں۔ چارسمت سے مسلم قوم پر یلغار ہورہی ہے، کبھی تو مذہب کے نام پر جنگ ہورہی ہے اور کبھی دین کے نام پر شمشیروتبر نکالے جارہے ہیں۔ دشمن کی سازش ہے کہ ہماری قوم کا شیرازہ بکھیردے ، اسے مسلمانوں کا اتحاد پسند نہیں ہے، وہ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف وانتشار کا بیج بورہا ہے جس کا خمیازہ امت مسلمہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ دشمن مختلف چہروں کے ساتھ رونما ہوتا ہے کبھی القاعدہ کی شکل میں تو کبھی سپاہ صحابہ کی شکل میں اور کبھی داعش کی صورت میں۔ اس دور میں مسلمانوں کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آخری ہفتہ میں دشمن نے ایک نیا طرزعمل اپنایا کہ اخباروں کے ذریعہ امام خمینی کی توہین کی گئی اور میڈیا کے ذریعہ یہ عام کردیا گیا کہ ایران کے دار السلطنت ''تہران'' میں امام خامنہ ای حفظہ اللہ کے حکم سے اہلسنت کی مسجد منہدم کردی گئی اور اس بات کو اتنا شائع کیا گیا کہ دہلی میں کانفرنس بھی منعقدکیاگیا جس میں رہبر معظم امام خامنہ ای حفظہ اللہ کی کھلے الفاظ میں توہین کی گئی؛ جب کہ اظہر من الشمس ہے کہ ایران میں اہلسنت حضرات کی تعداد کم نہیں ہے، بالخصوص سیستان، بلوچستان اور کردستان سنی نشین علاقے ہیں؛ ان علاقوں میں اگر سوفیصد نہیں تو کم سے کم اسّی فیصد کی تعداد اہلسنت حضرات کی ہے، کیا عقل سلیم اس بات کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہے کہ جہاں اہلسنت کا بول بالا ہو وہاں کسی شیعہ کو وزارت دے دی جائے؟ جی نہیں! عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ جہاں جس قوم کی اکثریت ہو وہاں اسی قوم میں سے نائب اور وزیر منتخب کیا جائے اور یہی سنت الٰہی ہے کیونکہ خداوندعالم نے حضوراکرمۖ کی شان میں ارشاد فرمایا: ''ہم نے ان کی جانب ایک نبی کو مبعوث کیا جو انھیں میں سے ہے...''۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ سنی نشین علاقوں کے وزراء اہل سنت ہی ہیں، اور تازہ معلومات اور شمارش سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پورے ایران میںکل مساجد ٧٠٠٠٠(ستّرہزار)ہیں جن میں سے سنیوں کی مسجدوں کی تعداد١٥٠٠٠(پندرہ ہزار) یا ١١٠٠٠(گیارہ ہزار) ہے۔اگر فیصد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اہل سنت کی مساجد شیعہ مساجد سے کہیں زیادہ ہیں!۔ ایران کے دار السلطنت''تہران'' میں اہل سنت کی گیارہ مساجد ہیں جن میں سے مسجد نسیم، مسجد النبی، مسجد صادقیہ وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ کیا ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال سرنہیں اٹھاتا کہ جس جگہ گیارہ مسجدوں کا وجود ہو وہاں ایک مسجد کو کیوں منہدم کیا جائے گا؟ مسجد کے انہدام کی افواہ صرف ایک جھوٹی افواہ ہے جس میں ذرہ برابر سچائی کی بو نہیں مل سکتی۔ ایران میں شیعہ سنی اتحادقابل دید ہے، یہاں کسی سنی پر شیعہ مسجد میں نماز پڑھنے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی شیعہ، سنی مسجد میں نماز ادا کرنا چاہے تو اس پر بھی کسی قسم کی پابندی نہیں ہے، سنی حضرات شیعہ مساجد میں ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرلیتے ہیں اورشیعہ حضرات سنی مساجد میں ہاتھ کھول کر نماز اداکرتے ہیں،جب یہ اتحاد کا نمونہ تکفیری گروہ کونظرآیا تو اس گروہ سے یہ اتحاد برداشت نہیں ہوا اور اس نے یہ ٹھان لیا کہ مسلمانوں کے اتحاد کو تفرقہ واختلاف سے تبدیل کردیں گے۔ اسی گروہ کی جانب سے یہ افواہ شائع ہوئی کہ تہران میں اہلسنت کی مسجد کو منہدم کردیاگیا ہے، اس افواہ کے ذریعہ اس گروہ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے آپسی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا جائے اور کوئی مسلمان اتحاد کی جانب مائل نہ ہو۔ ان لوگوں کی سازش ایک حد تک کامیاب ہوئی اور کچھ نادان مسلمان، مسلمانوں کے خلاف ہی کھڑے ہوگئے اور سمینار میں رہبر معظم کی توہین سے بھی گریز نہیں کیا، انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ جو انسان پوری دنیا کے مسلمانوں کو اتحاد ویکجہتی کی دعوت دے رہا ہے آخر وہ اپنی مملکت میں اہلسنت کی مسجد پر کیوں یلغار کرے گا؟۔سمینار منعقد کرنے والوں کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ یمن ،بحرین اور کویت میں بھی تو مسجدیں منہدم ہوئی ہیں ان کے متعلق اتنا پروپگنڈہ کیوں نہیں کیا گیا! یہ صرف استعمار کی سازش ہے جو مسلمانوں کے اتحاد پر یلغار کررہا ہے۔''کیاملا ان کو پیمبرۖ کی اہانت کرکے؟؛ تم بھی کیا پائوگے رہبر کی اہانت کرکے؛ دے رہی ہے یہ صدا جنگ احد اے غافر؛ فوج پسپاں ہوئی لیڈر کی اہانت کرکے''۔ جی ہاں! حقیقت یہی ہے کہ اگر ایک لشکر اپنے سردار کی اہانت کرکے فتح وکامرانی حاصل کرنا چاہے گا تو کسی بھی صورت ممکن نہیں، فتح وکامرانی صرف اسی وقت مقدور ہے جب رہبر کے اشاروں پر چلاجائے۔ ''دشمن کی یہ سازش ہے کہ وحدت کو مٹادے؛ کچھ وہم وگماں شیعہ وسنّی میں بڑھادے؛ مسجد کے لئے دونوں کو آپس میں لڑادے؛ جب منتشر ہوجائیں ہوجائیں تو سولی پہ چڑھادے؛ للہ! شیاطین کی سازش کو سمجھئے؛ غافر کی طرف سے ہے، گزارش کو سمجھئے''۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن کو مسلمانوں کا اتحاد برداشت نہیں ہورہاہے اسی سبب طرح طرح کی سازشیں انجام دے رہا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اتحاد کا علمبردار، اختلاف کا زمینہ فراہم نہیں کرتا۔ تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ الٹی سیدھی افواہوں پر گوش بر آواز نہ ہوں بلکہ الٰہی فرمان ''اے صاحبان ایمان! خداوند عالم کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ و اختلاف برپا نہ کرو'' پر لبیک کہیں کیونکہ نعرۂ اتحاد سنت رحمن ہے اور اختلاف کی دعوت دینا سیرت شیطان ہے۔ آخر کلام میں بارگاہ ایزدی میں دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار عالم! امت مسلمہ میں زیادہ سے زیادہ اتفاق و اتحاد کا جذبہ پیدا کردے تاکہ ہم دشمن کا منھ توڑ جواب دے سکیں۔ ''آمین''۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ''۔ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
٭٭٭
        

بدھ، 26 اگست، 2015

تکفیریت کے اعتقادی مبانی کا جائزہ


تکفیریت کے اعتقادی مبانی کا جائزہ

ضیاء الافاضل مولانا سيد غافر  رضوی  

حرف دل

دور حاضر میں تکفیریت نے  پوری دنیا پر احاطہ کرلیا ہے ؛ تکفیر، علم کلام کی اصطلاح  ہے جس کا مطلب ہوتا ہے  "مسلمانوں کی جانب کفر کی نسبت دینا" اور جو گروہ مسلمانوں کی جانب کفر کی نسبت دیتا ہے اس گروہ کو تکفیری گروہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر  لفظ تکفیر کو سلیس اردو کے سانچہ میں ڈھالا جائِے  تو  تکفیر کو "وہابیت"سے تعبیر کیا جائے گا کیونکہ مسلمانوں پرکفر کا الزام لگانے  والا کوئی اور گروہ نہیں بلکہ وہابی فرقہ ہے۔ وہابیت اس دیمک کا نام ہے جو شجراسلام کو کھوکھلا کررہی ہے، وہابیت ایسا ناسور ہے جو اسلام کے قلب میں سوراخ کرناچاہتا ہے۔ وہابیت کا حقیقی اور گھناؤنا چہرہ پہچاننا بہت ضروری ہے اور اس کی تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے لہٰذا ہم اس نوشتہ میں وہابیوں کے افکار اور ان کے بنیادی عقائِد کونقل کرکے ان کا تنقیدی جائزہ لیں گے لیکن اس سے پہلے وہابیت کی مختصر تاریخ بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں:٧.ھ کے اواخرمیں دنیائے اسلام  ایک نام نہاد مسلمان کے بے رحم افکار کا شکار ہوئی، اس شخص(ابن تیمیہ) نے اپنے باطل نظریات کو ہرجگہ عام کردیا، اگرچہ اسے بہت سے دانشوروں نے نصیحت کی اورہر دوست و دشمن نے روکنے کی کوشش کی لیکن یہ اپنی گمراہی پرقائم رہا، آخر کار علمائے اسلام مجبور ہوکر اس کی مخالفت میں کھڑے ہوئے اور اس کو اسلامی معاشرہ سے خارج کردیا، اس کو قید کر لیا گیا اور اسی قیدخانہ میں واصل جہنم ہوگیا۔ ابن تیمیہ کی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کے باطل افکار بھی زمین بوس ہونے لگے، اس کے شاگردوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اس کے مذہب کو رائج کریں اور اس کے افکار کو عام کریں لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ مل سکی۔ محمد بن عبد الوہاب نے محمد بن سعود کی پشت پناہی میں ابن تیمیہ کے افکار کو عام کیا اور آخر کار اپنی دعوت کو عام کرکے تمام دنیائے اسلام پر کفر کی تہمت لگادی۔ اس نے دین اسلام کے مسلّم اصولوں کو اپنے پیروں تلے روندا،مسلمانوں کے اعتقادات پر حملہ کیا، قتل و غارتگری کو عام کیا اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔سب سے پہلے اس کے مقابلہ میں خود اس کے باپ اور بھائی نے قدم اٹھایا۔ اس کے بھائی ''شیخ سلیمان'' نے اس کے عقائد کی مخالفت میں کتاب تحریر کی اور مسلمانوں سے یہ خواہش ظاہر کی کہ اس کے باطل افکار کے مقابل کوہ محکم کی مانند ڈٹ جائیں۔ اس کے بعد تمام اسلامی مذاہب نے مخالفت کا اظہارکیا۔اسی مقصد کے پیش نظر، تکفیریت اور وہابیت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے  ان حقائق کو عوام تک پہونچانا نہایت ضروری ہے تاکہ عوام الناس بھی وہابیت کے حقیقی چہرہ  سے واقف ہوسکیں ۔ اس گروہ کےعقائد گمراہ کن خیالات و تصورات پر مبنی ہیں اور ان لوگوں کی گمراہی کا سبب ان کی یہ غلط فہمی ہے کہ "پوری دنیا میں ان لوگوں کے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے" ان کا یہی باطل خیال اس بات کا باعث بنا کہ تمام مسلمانوں  پر کفر کی تہمت لگائیں اور اس نظریہ کو رائج کرنے میں انھوں نے یہ سیاست اپنائی کہ اپنے باطل خیالات کو مسلمانوں کے عقائد  پر تھونپنا چاہا  اور جب مسلمانوں نے عملی میدان میں ان کے باطل افکار کے سامنے سر نہیں جھکایا  تو  انھوں نے کفر  کا  فتویٰ  لگاکر مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا، ان کے اس رکیک عمل کی جھلکیاں، عراق، شام، افغانستان اور پاکستان میں اظہرمن الشمس ہیں؛ اپنے نوشتہ کی محدودیت کے پیش نظر ہم اس باطل گروہ کے باطل نظریات میں سے چند نظریات کا تنقیدی جائِزہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔


تکفیریت کے اعتقادی مبانی اور ان کا جائزہ
اگر غور کیا جائے تو وہابیوں کے افکار اسلام و قرآن اور خلافت الٰہیہ کے مخالف نظر آئیں گے، وہ عقل کا استعمال کئے بغیر مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگا دیتے ہیں اور ان کی جان اور ان کے اموال کو جائز شمار کرتے ہیں!۔ اسی طرح اگر وہابیوں کے تفکرات کا منصفانہ مطالعہ کیاجائے اور ان کو خوارج کے مقابل قرار دیا جائے تو کوئی فرق نظرنہیں آئے گا یعنی وہابیوں کا راستہ وہی ہے جو خوارج کا راستہ تھا۔ ابن وہّاب کے زمانے سے دور حاضرتک کے مسلمان اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
دین اسلام کے اہم اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ جو شخص اپنی زبان پر کلمۂ شہادتین جاری کرے وہ مسلمان کہلاتا ہے اور اس کا خون ،اس کی جان اور اس کا مال و متاع اسلام کی حفاظت میں ہے، اس کی تمام شرعی تکالیف بھی وہی ہیں جو ایک مسلمان کی ہوتی ہیں۔ اسلام نے ہرگز ایسا حکم نہیں دیا کہ بال کی کھال نکالی جائے، یہ دیکھا جائے کہ اس کے دل میں بھی ایمان ہے یا فقط ظاہراً اسلام لایا ہے!۔شاید وہابیوں نے اس اسلامی حکم پرغورنہیں کیا اور جو ان کے باطل افکارکو قبول نہ کرے اس کو کافر شمار کیا گویا انھوں نے اس آیۂ کریمہ کو فراموشی کی نذرکردیا: (وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقَیٰ اِلَیْکُمْ السَّلَامَ لَسْتَ مُوْمِناً) یعنی اگر تم کسی سے صلح وآشتی کرنا چاہتے ہو تو اس کو یہ طعنہ مت دو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔
یوں تو  ان کے باطل افکار بہت زیادہ ہیں لیکن ان میں سے چند افکار پر تنقیدانہ نظر کرتے ہیں:

(۱)شفاعت
اگرچہ خداوندعالم نے پیغمبر،صالحین اور فرشتوں کے حقِّ شفاعت کی خبر دی ہے لیکن وہابیوں کا یہ نظریہ ہے کہ "خدا کے علاوہ کسی کی شفاعت جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے" وہابی فرقہ، خدا کے علاوہ کسی اور سے شفاعت طلب کرنے والوں پر کفرکا فتویٰ لگاتا ہے اور ان کی جان اور مال ومتاع کو مباح شمار کرتا ہے۔
شفاعت کے متعلق محمدبن عبد الوہاب کا نظریہ ہے: ''اگر شفاعت طلب کرنے والوں کا منظور نظر یہی ہو کہ انبیاء، ملائکہ اور اولیاء سے شفاعت طلب کرکے خدا تک پہونچیں تو یہ وہی چیز ہے کہ جس کے ذریعہ ان کی جان اور ان کا مال مباح ہوجاتا ہے''۔
محمد ابن عبد الوہاب کا نظریہ وہی ہے جوبعینہ ابن تیمیہ کانظریہ ہے: "پیغمبراکرمﷺنے ان لوگوں سے جنگ کی جو بتوں سے شفاعت طلب کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ انھیں خدا سے بخشوائیں، لہٰذا اگر کوئی دیندارشخص ایسا عقیدہ رکھتا ہے تو درحقیقت وہ بھی انھیں کفار کے عقیدہ پر قائم ہے، کیونکہ اس زمانہ کے کفار کا بھی یہی نظریہ تھا کہ (مَانَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلٰی اللّٰہِ زُلْفَیٰ ) ہم ان کی پرستش صرف اس غرض سے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں خداسے نزدیک کردیں"۔
وہابیوں نے ایسی حقیقت سے انکار کیا جو اظہر من الشمس ہے کیونکہ قرآن کریم نے خدا کے علاوہ بھی بہت سی شخصیتوں اور بہت سی چیزوں کو شفیع کے عنوان سے پہچنوایا ہے، یہ بات عقل سے کوسوں دور ہے کہ قرآن کے فرامین کی صریحی مخالفت کی جائے جب قرآن کریم نے صراحتاً انبیاء،صالحین اورشہداء کو شفیع کے عنوان سے پہچنوادیا ہے تو پھر انسانوں کو یہ حق کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ قرآنی احکام کی مخالفت کرتے ہوئےغیر خدا کی شفاعت کو حرام قرار دیں!؟۔

نوٹ: تفصیل طلب حضرات میری اصل کتاب "وہابیت کا تنقیدی جائزہ" کا مطالعہ کریں، یہ کتاب اسی وبلاگ پر پی ڈی ایف (PDF) کی صورت میں دستیاب ہے، دائیں سائڈ میں "میری کتابیں ڈاؤنلوڈ کیجئے" والے آپشن پر جائیے اور اس کتاب کے نام پر کلک کرکے ڈاؤنلوڈ کیجئے۔

جمعہ، 21 اگست، 2015

فاطمہ زھرا (س) عالم کے لئے نمونہ عمل: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی


فاطمہ زہرۖا عالم کے لئے نمونہ عمل
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر حسن رضوی چھولسی 
وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباہات کیا کرتے تھے جو عورت ذات کو ننگ و عار سمجھتے تھے یہ وہ تشدد آمیز ماحول تھا
 جس میں ہر سمت ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اسی تاریکی کو سپیدی سحر بخشنے کے لئے افق رسالت پر خورشید عصمت طلوع ہوا جس کی کرنوں نے نگاہ عالم کو خیرہ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی منجلاب میں ایک گلاب کھلا جس کی خوشبو نے مشام عالم کو معطر کر دیا ایسے ماحول میں دختر رحمة العالمین نے تشریف لا کر اس جاہل معاشرہ کو یہ سمجھا دیا کہ ایک لڑکی باپ کے لئے کبھی بھی سبب زحمت نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ رحمت ہوتی ہے لیکن وہ حقیقت فراموش اس حقیقت کو بھلا بیٹھے تھے کہ جو وجہ خلقت انسان ہے وہ بھی ایک عورت ہے فاطمہ زہرا ۖ دنیا میں کیا آئیں معاشرہ عرب میں ایک انقلاب برپا ہو گیا اگر اس بات کی ان جملوں کے ذریعے وضاحت کی جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ گنگا الٹی بہنے لگی آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگا عرش فرش اور فرش و عرش سے تبدیل ہو گئے چونکہ ایسے پر آشوب ماحول میں امن و امان ہو جانا ایک نا ممکن امر ہے جو معاشرہ بیٹی کا وجود اپنے اوپر بار سمجھتا تھا وہ معاشرہ آج بیٹی کو سر کا تاج شمار کرنے لگا جو سماج کل تک بیٹی کو منجلاب گرا دانتا تھا وہ سماج آج بیٹی کو گلاب سمجھنے لگا گویا کہ کل انسان تاریکی میں تھا فاطمہ کی آمد نے اس کی تاریکی کو تنویر سے بدل دیا اور زیادہ وضاحت کے لئے اس طرح تعبیر کیا جائے کہ فاطمہ زھراۖ باغ رسالت کا وہ تنہا ترین پھول ہے جس کی نظیر نا ممکن ہے پروردگار نے مردوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا نبوت کے بعد سلسلہ امامت جاری کیا لیکن فاطمہ زہرا ۖ عالم نسواں کی تنہا ترین سردار ہیں شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔ 

اکلوتی فاطمہ ۖ ہیں قسم لا شریک کی 
قرآن مصطفی میں اضافہ نہ کیجئے 
(نجمی فیض آبادی ) 

یعنی جس طرح خدا کا کوئی ثانی نہیں اسی طرح فاطمہ بھی بے مثل ہیں جس طرح قرآن پاک میں اضافہ ممکن نہیں اسی طرح دختر رسول بھی یک و تنہا ہے شاعر نے آواز دی …… 

آپ ہی سورہ کوثر کی فقط ہیں مصداق 
بیٹیاں چاہے بناتی رہے تاریخ ہزار 
( غافر چھولسی ) 

تاریخ فاطمہ ۖ کے سوا تین بیٹیاں کیا اگر ہزار بیٹیاں بھی بتاتی رہے تو سورہ کوثر پھر بھی فاطمہ ۖ کی توصیف کرتا رہیگا یہ سورہ ایسا ہے کہ جن حضرات کو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا وہ بھی اس مختصر سورہ کے آگے منہ کی کھاتے نظر آئے یہ ان کا ذوق شاعری تھا کہ ایک مصرعہ کا اور اضافہ کر دیا ……

انا اعطیناک الکوثر فصل لربک وانحر 
ان شانئک ھو الابتر ما ھذا کلام البشر 
یہ کلام کسی بشر کا نہیں ہے بلکہ اس سے تو خا لق بشر کی جھلک آرہی ہے چونکہ عرب کے بددئوں کو عورت کی قدر و منزلت معلوم نہیں تھی اسی عدم علمی کی بنیاد پر عورت کو ہر وراثت سے محروم کر دیا گیا اور جعلی حدیث لا کر خرافاتیاںشروع کر دیں کہ رسول اکرم ۖ کا فرمان ہے : نحن معاشر الانبیاء لا نورث ولا نورث 
ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کو وارث بناتے ہیں نہ کسی کے وارث بنتے ہیں لیکن دختر رسول نے باغ فدک کے مسئلہ میں قیام کر کے یہ سمجھا دیا کہ اسلام نے عورت کو بھی وراثت سے محروم نہیں رکھا بلکہ اسلام میں عورت کا حق ہے اور ایک مقام ہے چونکہ فاطمہ زہرا ۖ نے رسول اکرم ۖ کے دہن مبارک سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ۔ ۔۔ 
یا فاطمہ ان اللہ تعالیٰ امر نی ان ادفع الیک فدک … اے ( میری بیٹی ) فاطمہ مجھے پروردگار عالم نے حکم دیا ہے کہ میں باغ فدک تمہیں بخش دوں ۔ 
اب دنیا چاہے وراثت کے سلسلہ میں چاہے کتنی ہی حدیثیں گڑھتی رہے ۔فاطمہ زہرا ۖ رسول ۖ سے اس قدر محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں کہ رسول ۖ فرماتے نظر آئے : فاطمة ام ابیھا : فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہے رسول بے جب فاطمہ میں ماں والی شفقت دیکھی توماں کہہ دیا یا شاید اسی وجہ سے رسول ۖ فاطمہ کی تعظیم کیا کرتے تھے اب اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی چونکہ ماں کی تعظیم واجب ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہاں ایک سوال سر اٹھائے کہ رسول نے فاطمہ کو ماں جو کہا ہے وہ مجاز کہا ہے حقیقت میں ماں تو نہیں بن گئیں ؟ بیٹی ہی رہینگی اور بیٹی پر باپ کا احترام واجب ہوتا ہے نہ کہ باپ پر بیٹی کا اور یہاں منظر بالکل بر عکس نظر آرہا ہے اس جگہ پر آپ کا اعتراض بالکل صحیح ہے چونکہ منظر واقعاً بر عکس ہے تو سن لیجئے نہ تو رسول فاطمہ کی عزت بیٹی کی حیثیت سے کرتے تھے نہ ماں کہنے کی وجہ سے احترام کرتے تھے بلکہ رسالت تعظیم عصمت کے لئے کھڑی ہوتی تھی رسول اسلام فاطمہ ۖ کی توصیف میں گویا ہیں ( کتاب بشارة المصطفیٰ ) اب کلام رسول کی توجیہہ کسی بھی طرح کر لیجئے یا تو کہئے بیٹی تھیں اسی وجہ سے عزیز تھیں یا بمطابق قول رسول ماں کی حیثیت سے عزیز تھیں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فاطمہ کا غم و غصہ خدا کا غیظ و غضب ہے اور فاطمہ کی خوشی خوشنودی خدا ہے ( کتاب کنز العمال ) 


فاطمہ زہرا بحیثیت زوجہ :
فاطمہ زہرا ۖ بیاہ کر علی مرتضیٰ کے بیت الشرف میں تشریف لے گئیں دوسرے روز رسول اکرم بیٹی اور داماد کی خیریت معلوم کرنے گئے ۔ علی ۖسے سوال کیا یا علی تم نے فاطمہ کو کیسا پایا ؟ علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ، یا رسول اللہ ۖمیں نے فاطمہ کو عبادت پروردگار میں بہترین معین و مددگار پایا ( کتاب بحار الانوار ج٤٣ ) 
گویا علی یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زوجہ قابل تعریف وہی ہے جو اطاعت شوہر کے ساتھ ساتھ مطیع پروردگار بھی ہو شاعر نے اس بات کو ایسے نظم کیا ۔

حسن سیرت کے لئے خوبی سیرت ہے ضرور 
گل و ہی گل ہے جو خوشبو بھی دے رنگت کے سوا 

چونکہ حسن دائمی نہیں ہوتا عمل دائمی ہوتا ہے آخرت میں دنیا وی حسن کام آنے والا نہیں بلکہ نیک اعمال ساتھ دینگے ۔ علی سے جواب دریافت کرنے کے بعد رسول ۖ فاطمہ ۖ کی طرف متوجہ ہوئے تو عجیب منظر نظر آیا ایک شب کی بیاہی بوسیدہ لباس پہنے بیٹھی ہے رسول نے سوال کیا بیٹی تمہارا لباس عروسی کیا ہوا بوسیدہ لباس کیوں پہن رکھا ہے ؟ فاطمہ ۖ نے جواب دیا بابا میں نے آپ کے دہن مبارک سے یہ سنا ہے کہ راہ خدا میں عزیز ترین چیز قربان کرنی چاہئے بابا آج ایک سائل نے دروازہ پر آکر سوال کیا تھا مجھے سب سے زیادہ عزیز وہی لباس تھا بابا میں نے وہ لباس راہ خدا میں دیدیا ۔ فاطمہ ۖ نے اپنے شیعوں کو درس دیا کہ خدا کو ہر حال میں یاد رکھنا چاہیئے اگر تمہارے پاس صرف دو لباس ہیں اور ان میں سے ایک زیادہ عزیز ہے تو اس لباس کو راہ خدا میں خیرات کر دو ۔ 
لاکھوں سلام ہو ہمارا اس شہزادی پر جس کا مہر ایک زرہ (جس کی ارزش پانچ سو درہم تھی ) اور ایک کتان کا بنا ہوا معمولی ترین لباس اور ایک رنگی ہوئی گوسفند کی کھال …… تھا( وافی کتاب النکاح ) فاطمہ ۖ کا یہ معمولی سا مہر خواتین عالم کو درس قناعت دے رہا ہے کہ جتنا بھی ملے اس پر شکر خدا کر کے راضی رہنا چاہئے یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم ۖ فرمایا : میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں جن کا مہر کم ہو ( وافی کتاب النکاح ) 
مصحف ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرماتے ہیں : کسی خاتون کا مہر زیادہ ہونا باعث فضیلت نہیں قابل مذمت ہے بلکہ مہر کا کم ہونا باعث عزت و شرافت ہے ( وافی کتاب النکاح ) 
لیکن ہزار حیف امت رسول کو کیا ہوگیا ؟ بیٹی کے گھر والے یہ سوچ کر مہر زیادہ معین کرتے ہیں کہ مہر زیادہ رہے گا تو لڑکا اس کے وزن میں دبا رہے گا اور ہماری لڑکی طلاق سے محفوظ رہے گی اور جب مہر معین پر لڑکے سے معلوم کیا جاتا ہے کہ کیا تم اس مہر پر راضی ہو تو لڑکا یہ سوچ کر جواب اثبات میں سر ہلا دیتا ہے کہ دینا تو ہے ہی نہیں ہاں کرنے میں کیا جاتا ہے ۔ 
لیکن عزیزو ! مہر واجب الادا ہوتا ہے صرف سر ہلانے سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ عمل کا جامہ پہنانا واجب و لازم ہے ۔ جس طرح فاطمہ ۖ کا مختصر سا مہر تھا اسی طرح جہیز بھی مختصر سا تھا اس زمانہ ( حال حاضر ) کے اعتبار سے تو بہت ہی کم نظر آتا ہے ۔یہ بات صحیح ہے کہ زمانے کے کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں وقت بھی کچھ اقتضا کرتا ہے لیکن … اساس شریعت اسلام عقل و شعور ہے کسی بھی حال میں عقل سلیم اس بات کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتی کہ اپنے دولت خانہ کو غریب خانہ بنا کر دوسرے کے گھر کو دولت کدہ بنا دیا جائے بلکہ زمانہ اور وقت چاہے کتنے ہی چیختے چلاتے رہیں عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ خوش و خرم اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کو جہیز دیا جائے ہمارے معاشرہ میں مثال مشہور ہے پیر صرف اتنے پھیلانے چاہئیں جتنی وسیع چادر ہو اگر وسعت سے زیادہ پیر پھیلائیں گے تو اس کا نتیجہ واضح ہے ۔ 


فاطمہ ز ھرا ۖبحیثیت مادر :
چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسول صدیقہ طاہرہ کی نسل سے ہوں اسی لئے آپ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی ، تربیت اولادظاہر میں ایک مختصر سا جملہ ہے لیکن اس میں بہت مہم اور وسیع معنی مخفی ہیں ۔ تربیت صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراہم کر دئے جائیں اور بس …… بلکہ یہ لفظ والدین کو ان کے ایک عظیم وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے اولاد کا کسی عہدہ پر فائز ہونا بھی تربیت والدین کا مرہون منت ہے فاطمہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے ایسے بچوں کی پرورش کرنی ہے کہ اگر اسلام صلح و آشتی سے محفوذظ رہتا ہے تو صلح کریں اگر اسلام کی حفاظت جنگ کے ذریعہ ہو رہی ہے تو جھاد فی سبیل اللہ کے لئے قیام کریں چاہے ظہر سے عصر تک بھرا گھر اجڑ جائے لیکن اسلام پر آنچ نہ آئے اگر اسلام ان کے گھر انہ کے برہنہ سر ہونے سے محفوظ رہتا ہے تو سر کی چادر کو عزیز نہ سمجھیں عزیزو دوستو ! فاطمہ ۖ ان کوتاہ فکر خواتین میں سے نہیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں بلکہ آپ گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس گردانتی تھیں آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا ، ایسا نہ ہو ہم خود کو ان کا شیعہ شمار کرتے رہیں لیکن ان کی سیرت سے دور دور تک تعلق نہ ہو ان کے احکام و فرامین پس پشت ڈالدیں۔ 
پروردگار ہمیں سیرت اہل بیت علیہم السلام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرما ۔ 
آمین والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ ضیاء الافاضل مولانا سید غافر حسن رضوی چھولسی 


ماہ خدا میں کتاب خدا کی معلومات: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

ماہِ خدا میں کتابِ خدا کی معلومات

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

یوں تو آیات وروایات کے پیش نظر تعلیم اورمعلومات (Knowledge. General Knowledge)پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے لیکن ہرعام کے ساتھ ایک خاص بھی ہوتا ہے لہٰذا تعلیم کا حصول تو عام ہے لیکن کتاب خدا کی تعلیم اور اس سے متعلق معلومات ایسی خصوصیات کی حامل ہیں کہ جو خصوصیات کسی بھی تعلیم کو حاصل نہیں ہیں۔ ماہ رمضان المبارک میں قرآنی معلومات اس لئے بھی نہایت ضروری ہے کہ اس مقدس کتاب کا نزول اسی ماہ مبارک میں قرار پایاہے۔ قرآن کریم کے کچھ تقاضے ہیں کہ جن کو امت مسلمہ کی ہر فرد کو عملی جامہ پہنانا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ قرآن کریم کی اس شکایت کے زمرہ میں قرار پائیں: ''پروردگار! اس قوم نے مجھے فراموشی کی نذر کردیا'' یوں تو سالوں سال اس مبارک کتاب پر دھول جمتی رہتی ہے اور اگر وقت نکل پایاتو اس کی صفائی کرکے دوبارہ بالائے طاق رکھ دیا۔ کم سے کم اس مہینہ کی برکتوں کے ذریعہ ہی سہی،اس مقدس کتاب کی تلاوت اور اس کی تعلیمات پر غور کیا جائے، ان اشیاء پر غوروخوض کیا جائے جو اس مبارک کتاب میں بیان ہوئی ہیں۔ چونکہ اس کتاب کا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا کا ہرخشک وتر اس میں موجود ہے لہٰذا ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ اس کتاب میں غوروخوض کریںاورہرچیز کوعمیق نگاہ سے دیکھیں، اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ اپنی قوم کو قرآنی اشیاء سے آگاہ کیا جائے لہٰذایہ کوشش رہے گی کہ ایک مضمون کے ذریعہ لوگوں تک کافی معلومات پہونچ جائے۔
قرآنی معلومات:قرآن کریم کے کل سوروں کی تعداد١١٤ہے اور پورے قرآن کو ٣٠ پاروں میںتقسیم کیا گیا ہے۔پورے قرآن میں ایک سوچودہ بار ہی بسم اللہ آئی ہے باوجود اس کے کہ ایک سورہ(سورۂ برائت۔سورۂ توبہ) بسم اللہ سے خالی ہے! پھر کیسے ١١٤بار آئی؟ سورۂ نمل میں دوبار بسم اللہ آئی ہے، ایک تو آغاز میں اور ایک اس وقت جب جناب سلیمان پیغمبرنے ملک سبا کی ملکہ(بلقیس) کو خط لکھا توآپ نے اپنے خط کا آغاز اللہ کے نام سے کیاتھا۔ سورۂ الحمد کا دوسرا نام، سبع مثانی بھی ہے؛ اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں سات آیتیں ہیں اور یہ سورہ دوبار نازل ہوا ہے اسی لحاظ سے اس کو سبع مثانی کا نام دیا گیا کیونکہ عربی زبان میں سبع کا مطلب ہوتا ہے''سات'' اور مثانی کا مطلب ہوتا ہے ''دوبار''؛ اس سورہ کو امّ القرآن یعنی قرآن کی ماں سے بھی تعبیر کیاگیاہے۔ سورۂ قل ھواللہ کو سورۂ توحید بھی کہاجاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اس سورہ کی تمام آیات خداوندعالم کی وحدانیت کا منھ بولتا شاہکار ہیں۔سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٥٥ کو آیۂ ولایت کہاجاتا ہے کیونکہ اس آیت میں خداوندمنان نے ولایت خداورسولۖ اور ایسے صاحبان ایمان کی ولایت کا ذکر فرمایا ہے جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں۔ سورۂ احزاب کی آیت نمبر٣٣ کو آیۂ تطہیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس آیت کے آخری حصہ میں خداوند عالم نے اہلبیت اطہار کی طہارت کی ذمہ داری لی ہے۔ سورۂ احزاب کی آیت نمبر٥٦ کو آیۂ صلوات کا نام سے تعبیرکیا جاتا ہے کیونکہ اس آیت میں خداوندعالم فرماتا ہے: ''بے شک خداوندعالم اور اس کے ملائکہ نبی پاکۖ پر درودبھیجتے ہیں، اے صاحبان ایمان! تم بھی ان پر درودوسلام بھیجو''۔ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر٦١ کو آیۂ مباہلہ کا نام دیاگیا ہے کیونکہ اس آیت میں خداوندعالم نے اپنے پیارے حبیبۖ کا وہ قول نقل فرمایا ہے جس میں آپۖ نے نصاریٰ نجران سے یہ کہاتھا کہ تم اپنے بیٹوں کو لائوہم اپنے بیٹوں کو لائیں، تم اپنی عورتوں کو لائوہم اپنی خواتین کو لائیں، تم اپنے نفسوں کو لائوہم اپنے نفسوں کو لائیں اور پھر مباہلہ کرتے ہوئے جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر٢٠٧، یہ آیت شب ہجرت میں نازل ہوئی،یہ آیت اس مطلب کی عکاسی کرتی ہے کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مرضی رب کے عوض اپنے نفس کو بیچ دیتے ہیں اورخداوندعالم اپنے بندوں کی بابت نہایت مہربان ہے۔ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٣ کو آیۂ اکمال دین اور اتمام النعمة کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس آیت کے آخری حصہ میں خداوندعالم نے دین اسلام کو اکمال واتمام کی سند کچھ اس انداز سے دی ہے: ''...آج تمہارے دین سے کفار مایوس ہوگئے لہٰذا کسی قسم کے خوف کی ضرورت نہیں ہے؛ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور میں تمہارے لئے اسلام نامی دین سے راضی ہوگیا...''۔ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٦٧ کو آیۂ تبلیغ (آیۂ بلّغ)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں خداوندعالم اپنے حبیبۖ سے ارشاد فرماتاہے: ''اے رسولۖ! وہ پیغام پہونچادیجئے جو آپ پر پہلے سے ہی نازل کیاجاچکاہے اور اگر وہ پیغام نہیں پہونچایاتو گویا کوئی کار رسالت انجام نہیں دیا اورخداوندعالم آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا،بے شک خدا کفارکی ہدایت نہیں کرتا''۔ یوں تو مولائے کائنات کی شان میں تین سو سے زیادہ آیات نازل ہوئی ہیں لیکن وہ آیات جن پر فریقین(شیعہ وسنی) کا اتفاق ہے ان کی تعداد٢٥ہے۔ فریقین کے اتفاق کے مطابق قرآن مجید کی٤آیتیں ولایت مولائے کائنات کو ثابت کرتی ہیں: (١)سورۂ نسائ٥٩(آیۂ اطاعت)؛ (٢)سورۂ مائدہ٥٥(آیۂ ولایت)؛ (٣)سورۂ مائدہ٦٧(آیۂ بلّغ یا آیۂ تبلیغ)؛ (٤)سورۂ توبہ١١٩(آیۂ صداقت یا آیۂ صادقین) جس میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے: ''اے صاحبان ایمان! تقویٰ اختیار کرو اور صادقین کے ساتھ ہوجائو ''۔ سورۂ ناس اور سورۂ فلق، دونوں سوروں کو ملاکر، معوذتین سے تعبیر کیاجاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم شیطان سے خداوندعالم کی پناہ طلب کرتے ہیں؛ چونکہ یہ دونوں سورے اسی موضوع سے مخصوص ہیں لہٰذا ان کو معوذتین کا نام دے دیا گیا۔ قرآن کریم کا سب سے مختصر سورہ،سورۂ کوثر ہے کیونکہ اس سورہ میں صرف تین آیتیں ہیں اور یہ سورہ متکبرین فصحاء پر اتنا بھاری پڑا کہ وہ منھ کی کھاکے رہ گئے اور جب اس سورہ کا جواب مانگا گیا تو اس میں ایک مصرعہ کا اوربھی اضافہ کردیا کہ ''ماھذا بکلام البشر''یہ کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ اس سے تو خالق بشر کی جھلک آرہی ہے۔ قرآن کریم کا سب سے بڑا سورہ''سورۂ بقرہ''ہے، اس سورہ کی ابتدا ''الم''سے ہوتی ہے یعنی سورۂ الحمد کے بعد شروع ہوتا ہے اور تیسرے پارہ میں پہونچکر ختم ہوتا ہے، اس کی کل آیات٢٨٦ ہیں؛ قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت بھی اسی سورہ میں ہے جوعثمان طہٰ کی اشاعت کے اعتبار سے پورے ایک صفحہ میں تمام ہوتی ہے، اس آیت کا نمبر٢٨٢ ہے۔ سورۂ یٰس کو قلب قرآن(قرآن کادل)کہا جاتاہے،یہاں ایک سوال سراٹھاسکتا ہے کہ دل تو جاندار اشیاء سے مخصوص ہے اور کتاب خدا بے جان ہے تو اس کو دل کی کیا ضرورت؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ بظاہر قرآن بے جان نظرآتا ہے لیکن یہ ایسی مقدس کتاب ہے کہ ہرزمانے کے لوگوں سے مخاطب ہے اور خطاب کرنے والی شئے بے جان نہیں ہوتی۔ سورۂ رحمن کو عروس القرآن(قرآن کی دلہن)کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسی سجاوٹ اور خوبصورتی اس سورہ میں پائی جاتی ہے وہ کسی دوسرے سورہ میں نہیں پائی جاتی لہٰذا اس کو قرآن کی دلہن کا نام دیا گیا۔ سورۂ یوسف کو احسن القصص(قصوں میں بہترین قصّہ) کے نام سے پہچانا جاتا ہے، یوں تو قرآن کریم میں بہت سی داستانیں بیان ہوئی ہیں لیکن جو چاشنی اس سورہ میں پائی جاتی ہے اورجس قدر لطف سے بھرپور جناب یوسف کی داستان ہے، اتنی دلکش کوئی داستان نہیں ہے۔ پورے قرآن میں سب سے چھوٹی آیت سورہ رحمن کی آیت نمبر٦٤(مُدْھَامَّتَانْ)ہے، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یٰس، الم، ص،ق،ن وغیرہ بھی تو آیتیں ہیں، پھر سب سے چھوٹی آیت وہ کیسے ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو آیت نہیں کہا جاتا بلکہ ان کو حروف مقطعات کے نام سے جانا جاتا ہے۔قرآن کریم میں پینے والی اشیاء میں سے سب سے بہترین چیز''دودھ'' کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ سورۂ محمدکی آیت نمبر١٥ میں ارشاد ہوتاہے: ''...جنت میں دودھ کی نہریں جاری ہیں...''۔ کھانے والی اشیاء میں سب سے بہترین غذا''شہد'' کوقراردیا گیا ہے اور اس کو بہترین غذا سے تعبیرکیاگیاہے، اسی سورہ(سورۂ محمد١٥) میں جہاں دودھ کی نہروں کا تذکرہ ہوا ہے وہیں شہد کی نہروں کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔قرآن کریم کے مطابق سب سے بہترین شب،شبِ قدر ہے، سورۂ قدرمیں اس شب کوہزارراتوں سے افضل قرار دیاگیا ہے اسی لئے اس شب کے مخصوص اعمال بیان ہوئے ہیں۔قرآن کریم میں سب سے بہترین مہینہ، ماہ رمضان المبارک کو قراردیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ خداوندعالم نے اپنی پاک وپاکیزہ کتاب قرآن کریم کو اس مبارک مہینہ کی شب قدر میں نازل فرمایا۔ قرآن کریم میں سب سے بڑے جانور(ہاتھی)کے نام پربھی سورہ ہے جس کو سورۂ فیل کہتے ہیں، اس سورہ میں قدرت خدا کی جلوہ نمائی ہے، خداوندعالم نے چھوٹے چھوٹے پرندوں(ابابیل) کے ذریعہ ابرہہ کے لشکر کی نابودی کا تذکرہ کیاہے کیونکہ ابرہہ ہاتھی کا لشکر لیکر خانۂ کعبہ کو مسمار کرنے آیا تھا اور اس کو خدا کی جانب سے ایساجواب ملا کہ خاکسترہوکر رہ گیا۔اس مبارک کتاب میں سب سے چھوٹے جانور(چیونٹی)کے نام پربھی سورہ ہے جس کو سورہ نمل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس سورہ میں جناب سلیمان پیغمبرکاتذکرہ ہے، اس سورہ کو چیونٹی کے نام سے یوں موسوم کیا گیا کیونکہ اس سورہ میں جناب سلیمان کی اس گفتگو کا تذکرہ ہے جو آپ نے چیونٹی سے کی تھی۔ اس مبارک کتاب میں ادنیٰ سے جانور''مچھر'' کا بھی ذکر ہے جو نمرود کے لئے عذاب بن کر رہ گیا اور اس کو شب وروز جوتے کھلوائے۔ سورہ ٔتوحید کو قرآن کریم کا ایک سوّم حصہ کہاجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ روایات کے مطابق اگر کسی نے تین بار سورۂ توحید کی تلاوت کی اس کو پورے قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب حاصل ہوگا۔ پورے قرآن میں پانچ سورے ''الحمدللہ''سے شروع ہوتے ہیں:(١)سورہ ٔحمد(٢)سورۂ انعام(٣)سورۂ کہف(٤)سورۂ سبا(٥)سورۂ فاطر۔ قرآن میں تین سورے صرف ایک لفظ کے ذریعہ شروع ہوتے ہیں:(١)سورۂ صاد(ص)(٢)سورۂ قاف(ق)(٣)سورۂ نون (نون)۔ قرآن کریم میں چار سوروں کی ابتدا لفظ''انّا''کے ذریعہ ہوتی ہے: (١)سورۂ فتح (٢)سورۂ نوح (٣)سورۂ قدر (٤)سورۂ کوثر۔ سورۂ صف کی آیات کی تعداد١٤ہے یعنی ان کی تعدادمعصومین کی تعدادکے مطابق ہے۔ قرآن کریم کے١١٤ سوروں میں سے ٨٦سورے مکّی ہیں اور٢٨سورے مدنی ہیں،البتہ کچھ سورے ایسے ہیں جو مکی بھی ہیں مدنی بھی ہیں جن میں سے ایک سورہ سورۂ حمد ہے جو دوبار نازل ہوا، ایک بار مکہ میں اور ایک بار مدینہ میں اسی وجہ سے اس کو سبع مثانی کہا گیا۔ اس مقدس کتاب میں ایک سورہ ایسا بھی ہے جو حضوراکرمۖ کے خاندان کے نام پر ہے، اس سورہ کا نام سورۂ قریش ہے۔ سورۂ مجادلہ ہی وہ واحد سورہ ہے جس کی ہر آیت میں لفظ''اللہ''کا ذکرہوا ہے،البتہ سورۂ حج میںلفظ ''اللہ'' صرف پانچ بار آیا ہے۔ قرآن کریم میں صرف ایک سورہ ایسا ہے جو جنگ کے نام سے موسوم ہے اور اس سورہ کا نام ''سورۂ احزاب''ہے۔ قرآن کریم میں ایک سورہ خدا کے پیارے حبیب پیغمبراسلامۖ کے نام سے موسوم ہے جس کو سورۂ محمد کہاجاتا ہے۔ اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ قرآن کریم میں علم نجوم سے متعلق کوئی گفتگو نہیں ہوئی تو سورۂ نجم اور سورۂ شمس بڑھ کر آواز دیں گے کہ ہم موجود ہیں۔ اگر دھات کا تذکرہ ہوگا تو سورۂ حدید نظرآئے گا۔ قرآن کریم کے ٢٩سورے حروف مقطعات سے شروع ہوتے ہیں۔ اس مقدس کتاب کے دوسورے تبارک الذی سے شروع ہوتے ہیں:(١)سورۂ ملک(٢)سورۂ فرقان۔ مکّی سورے صرف ١٣سال کے عرصہ میں نازل ہوئے ہیں اور مدنی سوروں کے نزول کی مدت ١٠سال ہے۔ سورۂ توحید کی ہر آیت لفظ''دال''پر ختم ہوتی ہے۔ سورۂ کوثر کی ہر آیت لفظ ''رائ''پر ختم ہوتی ہے۔ پورے قرآن میں خداکے پیارے حبیب کا اسم گرامی(احمد) صرف ایک جگہ سورۂ صف کی آیت نمبر٦ میں آیا ہے جب کہ آپۖ کا اسم گرامی(محمد) چار جگہ استعمال ہوا ہے:(١)سورۂ آل عمران١٤٤ (٢)سورۂ احزاب٤٠ (٣)سورۂ محمد٢ (٤)سورۂ فتح١٩۔سورۂ فجر کو سورۂ امام حسین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جناب آدم کا نام قرآن میں ٢٥بار آیا ہے۔ جناب نوح کا نام٤٣بار استعمال ہوا ہے۔ جناب ابراہیم کا نام ٦٣بار آیا ہے ۔ جناب یعقوب کا نام١٦بار آیا ہے۔جناب موسیٰ کا نام ١٣١باراستعمال ہوا ہے۔ فرعون کا نام ٦٧بارآیا ہے۔ جناب یوسف کا نام٢٦بار استعمال ہوا ہے۔ جناب لوط کا نام ٢٧بار آیا ہے۔ جناب ہود کا نام ١٠بار آیا ہے۔ جناب ہارون کا نام٢٠بار استعمال ہوا ہے۔ جناب یونس کانام ٤بار آیا ہے۔ جناب ایوب کا نام ٤بار آیا ہے۔ جناب اسحاق کا نام ١٦بار استعمال ہوا ہے۔جناب سلیمان کا نام ١٦بار آیا ہے۔ جناب اسماعیل کا نام١٢بار آیا ہے۔قرآن کریم میں تین شہروں کا ذکرہے: (١)مکہ(٢)مدینہ(٣)بابل۔ قرآن میں ملک مصر کا نام ٥بار آیا ہے۔ قرآن میں لفظ ''اَلصَّلَاةْ''  ٦٣بار آیا ہے، جس کے معنی ہوتے ہیں نماز یا دعا،اور مجموعی طور پر نماز کاذکر ٩٠بار ہے۔ قرآن کریم میں٢٧انبیاء الٰہی کے اسماء آئے ہیں جن کوقیدتحریرمیں لانے سے مضمون کا اختصارمانع ہے۔ قرآن مجید میں لفظ ''اللہ'' ٢٦٩٩بار اور لفظ ''امام'' ١٢بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ''الحمد''٢٣بار آیا ہے اور حمد کو اضافات کے ساتھ دیکھا جائے تو ٢٩بار استعمال ہوا ہے۔قرآن میں دعا کی تاکید٤مقامات پرآئی ہے: (١)سورۂ بقرہ١٨٦،(٢)سورۂ غافر٦٠،(٣)سورۂ نمل٦٢،(٤)سورۂ فرقان٧٧۔ نماز کی تاکید٩بار اور روزہ کی تاکید٣مرتبہ آئی ہے۔ حج کا تذکرہ ٤١مرتبہ ہے۔ پورے قرآن میں لفظ ''سلام''٣٣مرتبہ آیا ہے البتہ لفظ''سلاماً''٨بار آیا ہے؛ اگر ان دونوں کو ایک جگہ ملاکر حساب کیا جائے تو ٣١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔پورے قرآن میں لفظ ''اسلام''٦مرتبہ آیاہے البتہ اگر اضافت کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں ٢بار کا اور اضافہ ہوجائے گا یعنی کل ٨بار۔ مُسْلِمَیْنِ، صرف ایک بارسورۂ بقرہ آیت نمبر١٢٨ میں آیا ہے۔ مُسْلِمُوْنَ، ١٥مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ مُسْلِمِیْنَ، ٢١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔مُسْلِمَة، صرف ایک بار سورۂ بقرہ آیت نمبر١٢٨۔ پورے قرآن میں لفظ''مُسْلِمَات'' صرف ٢بارآیا ہے:(١)سورۂ احزاب٣٥ (٢)سورۂ تحریم٥۔قرآن پاک کے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر٦١میں ٣سبزیوں کا تذکرہ ہوا ہے: (١)ککڑی یاکھیرا(٢)لہسن(٣)پیاز؛ اگرچہ بعض لوگ چارسبزیوں کے قائل ہیں اور وہ چوتھی سبزی(ساگ)بتاتے ہیں جب کہ اس آیت میں لفظ''بَقَلِہَا''  استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے''سبزیاں''  اور سبزی میں ہرقسم کی سبزی آجائے گی چاہے وہ ساگ ہو یا آلو یا ٹماٹر وغیرہ ۔ پورے قرآن میں صرف ایک دال کا تذکرہ ہوا ہے جس کو''مسور کی دال''کے نام سے جانا جاتاہے، اس کا تذکرہ بھی سورۂ بقرہ کی آیت نمبر٦١میں ہوا ہے۔ پورے قرآن میں چارمقامات پر واجب سجدے بیان ہوئے ہیں یعنی اگر وہ آیت پڑھ لی جائے تو سجدہ واجب ہوجاتا ہے، ان چار سوروں کو ''عزائم''کے نام سے یاد کیاجاتا ہے: (١)سورۂ سجدہ،آیت نمبر١٥؛(٢)سورۂ فصلت،آیت نمبر٣٧؛ (٣)سورۂ نجم،آیت نمبر٦٢؛ (٤)سورۂ علق،آیت نمبر١٩۔
پورے قرآن میں لفظ ''دین'' صرف ایک بار آیا ہے، البتہ اگر اس کے اضافات (مثلاً:دیناً،دینکم وغیرہ)کو پیش نظر رکھا جائے تو ٢٩بار استعمال ہوا ہے۔ پورے قرآن میں لفظ ''الدُّنیا''کل ١١١بار آیا ہے؛ ممکن ہے کہ سوال کیا جائے: دین کا ذکراتناکم اور دنیا کا تذکرہ اتنا زیادہ کیوں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ بنانے سے زیادہ بگاڑنے والی چیز پر توجہ دی جاتی ہے، کیونکہ دین اسلام انسان کو سیدھی راہ دکھاکر نیک انسان بناتا ہے اور دنیا اس کو گمراہ کرتی ہے لہٰذا دین کا تذکرہ کم ہوا اور دنیا کا تذکرہ زیادہ ہوا تاکہ بندگان الٰہی اس حقیقت کو سمجھ سکیں۔ قرآن کریم میں لفظ ''دعا''پورے اضافات کے ساتھ ١٩بار استعمال ہوا ہے، یہ تعداد صرف اسی لفظ کی ہے جودعا یا پکارنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، حالانکہ اس مادّہ سے دوسرے الفاظ دوسرے معانی میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ پورے قرآن میں لفظ ''دار''اپنے تمام اضافات کے ساتھ ٣١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں لفظ ''دہر''صرف٢مقامات پر آیا ہے: (١)سورۂ جاثیہ٢٤(٢)سورۂ انسان١۔ قرآن میں لفظ''دیار''اپنے اضافات کے ساتھ ١٧مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ پورے قرآن میں لفظ ''ذرّیّت''١٠بار آیا ہے لیکن اگر اس کے اضافات کو دیکھا جائے تو اضافات کے ساتھ ٢٠مرتبہ اورمقامات پربھی استعمال ہواہے یعنی اگر کل تعداد پر نظر کی جائے تو ٣٠مرتبہ آیا ہے۔ قرآن میں لفظ ''ذِکر''٤٩بارآیا ہے البتہ اگر اضافات کو دیکھا جائے تو بہت زیادہ استعمال ہوا ہے،اختصارکے پیش نظر غض بصر کرتے ہیں۔ لفظ ''انسان'' پورے قرآن میں٦٣بار آیا ہے، اگر اس کو یوں تعبیر کیا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ رسول اسلامۖ کی زندگی کے سال کی تعداد بھی یہی ہے اور لفظ انسان کی تعداد بھی یہی ہے یعنی آنحضرتۖ انسان کامل تھے۔ اگر لفظ ''اہل'' کو اس کے اضافات سے غض نظرکرتے ہوئے دیکھا جائے توپورے قرآن میں کل ٥٢باراستعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں صرف لفظ ''شہید'' ١٥بار استعمال ہوا ہے لیکن اس کے مشتقات سے غض نظرکرتے ہوئے۔ پورے قرآن میں لفظ''شیعہ''اپنے تمام مشتقات کے ساتھ کل ٩بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں لفظ ''سُنّت''، مشتقات سے غض بصر کرتے ہوئے کل ٩بار آیا ہے۔ جناب عیسیٰ کا نام پورے قرآن میں ٢٥بار آیا ہے۔ جناب یسع کا نام پورے قرآن میں صرف دو بار آیا ہے: (١)سورۂ انعام٨٦ (٢)سورۂ ص٤٨۔ لفظ ''یثرب''پورے قرآن میں صرف ایک بار آیاہے، سورۂ احزاب آیت١٣۔ لفظ ''یتیم''اپنے اضافات (یتامیٰ وغیرہ) کے ساتھ کل ٢٢مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں زکات کا تذکرہ ٣٢مقامات پر ہوا ہے جب کہ مادّۂ خمس اپنے مشتقات کے ساتھ صرف٨باراستعمال ہوا ہے۔ لفظ ''خیرات'' ١٠بار استعمال ہوا ہے۔  جناب زکریا کا نام قرآن میں صرف ٦بارآیا ہے۔ جناب مریم کا نام پورے قرآن میں ٣١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں جناب عمران کا نام صرف تین بار آیا ہے: (١)سورۂ آل عمران٣٣ (٢)سورۂ آل عمران٣٥ (٣)سورۂ تحریم١٢۔ مشتقات سے غض نظر کرتے ہوئے لفظ ''العِلم'' پورے قرآن میں ٧٩مرتبہ استعمال ہوا ہے، اگر مشتقات(علمہا،علمی، علمہم وغیرہ) کو دیکھا جائے تو اس تعداد میں ٢٣عدد کا اور اضافہ ہوجائے گایعنی کل ١٠٢مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ پورے قرآن میں صرف ایک کتے کا نام آیا ہے جو اصحاب کہف کا کتا تھا اور اس کو''قطمیر''کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قرآن میں ٤مسجدوں کے نام آئے ہیں: (١)مسجد حرام (٢)مسجد اقصیٰ (٣)مسجد قُبا (٤)مسجد ضرار۔ قرآن کریم میں٤پہاڑوں کے نام آئے ہیں: (١)کوہ طور (٢)کوہ جودی (٣)کوہ صفا (٤)کوہ مروہ۔ اس مقدس کتاب میں ٤دھاتوں کا تذکرہ ہوا ہے: (١)سونا (٢)چاندی (٣)تانبہ (٤)لوہا۔ اس پاک وپاکیزہ کتاب میں تین درختوں کے نام آئے ہیں: (١)کھجور (٢)زیتون (٣)بیری۔ قرآن کریم میں چار پرندوں کے نام آئے ہیں: (١)ہدہد (٢)ابابیل (٣)کوّا (٤)تیتر۔ قرآن کے مطابق: زمین کی ایک چوتھائی آبادی اس وقت ختم ہوگئی جب قابیل نے جناب ہابیل کا قتل کیا، کیونکہ اس وقت زمین پر صرف چار ہی لوگ تھے: (١)ابوالبشرحضرت آدم (٢)جناب حوا(جناب آدم کی بیوی)(٣)جناب ہابیل (٤)قابیل۔جناب آدم کا لقب ''ابو البشر''ہے کیونکہ آپ تمام لوگوں کے باپ ہیں۔ہابیل اور قابیل میں سے قاتل کون تھا؟ اگر یہ یاد رکھنے میں مشکل ہو تو لفظ''ق''کو یاد رکھیں، قاف سے قاتل،قاف سے قابیل۔ جناب آدم کے تیسرے بیٹے ''جناب شیث ھبة اللہ'' کا نام قرآن میں نہیں آیا، اسی طرح جناب آدم کی بیوی''جناب حوا'' کا نام بھی نہیں آیابلکہ صرف ان کا تذکرہ ہوا ہے۔ جناب یحییٰ کا نام قرآن کریم میں ٥بار آیا ہے۔ جناب ذالنون کا نام قرآن کریم میں٤بارآیا ہے۔ لفظ ''شیطان''پورے قرآن میں٧٠بار آیا ہے۔ لفظ ''شیاطین''١٨باراور لفظ ''ابلیس''١١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ جناب لقمان حکیم کا نام قرآن میں٢بار آیا ہے۔ قوم بنی اسرائیل کی جانب ٤١بار اشارہ ہوا ہے۔ وہ بت جن کے نام قرآن کریم میں آئے ہیں ان کی تعداد٦عدد ہے اور ان کے نام یہ ہیں: (١)عجل (٢)عزیٰ (٣)لات (٤)مناة (٥)ود (٦)یعوق۔ وہ ظالم وستمگرافراد جن کا قرآن نے تذکرہ کیا ہے ان کی تعداد٧عدد ہے اور ان کے نام کچھ اس طرح ہیں: (١)فرعون (٢)نمرود (٣)قارون (٤)سامری (٥)جالوت (٦)ابولہب (٧)ہامان۔ قرآن مجید کے وہ سورے جو جانوروں کے نام سے موسوم ہیں وہ ٥عدد ہیں اوران کے نام یہ ہیں: (١)بقرہ (٢)نمل (٣)نحل (٤)عنکبوت(٥)فیل۔ انبیاء الٰہی کے ناموں پر قرآن میں ٧سورے آئے ہیں: (١)سورۂ ابراہیم(٢)سورۂ یوسف (٣) سورۂ نوح (٤)سورۂ ہود (٥)سورۂ محمد(٦)سورۂ یونس (٧)سورۂ لقمان، البتہ جناب لقمان کا موضوع اختلافی ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں۔ خداکے پیارے حبیبۖ کے القاب سے موسوم قرآن میں ٤سورے ہیں: (١)سورۂ طہٰ(٢)سورۂ یٰس(٣)سورۂ مزمل (٤)سورۂ مدثر۔ پورے قرآن میں صرف ایک سورہ ایسا ہے جو کسی خاتون کے نام سے موسوم ہے اور اس سورہ کا نام ''سورۂ مریم''ہے۔ قرآن مجید کے تین سورے آسمانی اشیاء کے ناموں سے موسوم ہیں: (١)سورۂ نجم (٢)سورۂ قمر (٣)سورۂ شمس۔ قرآن کریم میں چھ قبیلوں کا تذکرہ ہوا ہے: (١)قریش (٢)عاد (٣)ثمود (٤)الأیکة (٥)مدین (٦)رسّ۔جبرئیل کا نام قرآن میں ٣بارآیا ہے۔ قرآن میں پانچ فرشتوں کے نام ذکر ہوئے ہیں: (١)جبرئیل (٢)ہاروت (٣)ماروت (٤)میکال (٥)مالک۔ قرآن کے مطابق وہ زمین جس پر صرف ایک بار سورج کی کرنیں پڑیں وہ دریائے نیل کی زمین ہے، یہ کرنیں اس وقت پڑیں جب بحکم خداوندی دریائے نیل کاپانی جناب موسیٰ کے عصا کے ذریعہ چند حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔ اصحاب کہف کی نیند٣٠٩سال تک رہی۔ قرآن میں تین چشموں کا تذکرہ ہوا ہے: (١)کوثر (٢)تسنیم (٣)سلسبیل۔ قرآن میں دو دریائوں کے نام آئے ہیں: (١)دریائے نیل (٢)دریائے فرات۔ جناب نوح کا وہ بیٹا جو عذاب الٰہی کا شکار بنا اس کا نام ''کنعان''تھا۔ سورۂ بقرہ کی آیت٤٣ میں نماز جماعت کی جانب اشارہ ہے۔ سورۂ حجر کی آیت ٢٢ میں قرآن کریم کا سب سے بڑا لفظ ''فأسقینٰکموہ''ہے ۔ فقط سورۂ مرسلات ہی وہ واحد سورہ ہے جو ایک ہی وقت میں ایک ساتھ مکمل طور پر نازل ہوا۔ سورۂ تکویر ایسا سورہ ہے جس کے حروف کی تعداد قرآنی سوروں کے برابریعنی١١٤ ہے۔ سورۂ نور کی آیت نمبر٣١ حجاب(پردہ) سے متعلق ہے۔ قرآن کے مطابق: دلوں کے اطمینان کا علاج،یاد خدا میں مضمرہے۔ قرآن کریم میںجناب موسیٰ کا نام دیگر پیغمبروں سے زیادہ استعمال ہواہے یعنی ان کا نام تمام پیغمبروں سے زیادہ آیا ہے۔ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٣ حضوراکرۖم پر نازل ہونے والی سب سے آخری آیت ہے جس میں جانشین رسول ۖکے انتخاب کا حکم ہے۔ سورۂ حمد ایسا سورہ ہے جس کے ١٠نام ہیں۔ سورۂ محمدایسا سورہ ہے کہ اگر اس کا پہلا حرف ہٹا دیاجائے تو دوسرے سورہ کا نام بن جاتاہے یعنی''حمد''۔ آیۂ قربیٰ(یا آیۂ مودت)، سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر٢٣ ہے، اس آیت میں خداوندمنان نے اپنے پیارے حبیبۖ کو خطاب کیا ہے کہ اے میرے رسولۖ! کہہ دیجئے کہ میں اجر رسالت کچھ نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ میرے قرابتداروں سے مودت اختیار کرو یعنی ہمارا فریضہ ہے کہ اجر رسالت ادا کریں اور اجر رسالت حضوراکرمۖ کے قرابتداروں سے محبت کو قرار دیا گیا ہے۔وضو کرنے کا طریقہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٦ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں مستحب سجدے گیارہ مقامات پر آئے ہیں: (١)سورۂ نحل٥٠ (٢)سورۂ اعراف٢٠٦ (٣)سورۂ رعد١٥ (٤)سورۂ اسرائ١٠٩ (٥)سورۂ مریم٥٨ (٦)سورۂ حج١٨ (٧)سورۂ حج٧٧ (٨)سورۂ فرقان٦٠ (٩)سورۂ نمل٢٦ (١٠)سورۂ ص٢٤ (١١)سورۂ انشقاق٢١۔ جناب دائود کا نام قرآن میں١٦بار آیا ہے۔ جناب ہارون کا نام قرآن میں ٢٠مرتبہ آیا ہے۔ جناب ادریس کا نام دوبار۔ جناب ذالکفل کا نام دوبار اور جناب شعیب کانام ١٠بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں پانچ پھلوں کے نام آئے ہیں: (١)خرما (٢)انجیر (٣)کیلا (٤)زیتون (٥)انار۔ لفظ ''ربّ''اپنے مشتقات کے ساتھ ١٢٤١ مرتبہ استعما ل ہوا ہے۔ لفظ ''بشر'' اضافات کے ساتھ ١١٨بارآیا ہے۔ لفظ ''حج''اضافات کے ساتھ ٤١مرتبہ آیا ہے۔ لفظ ''جہاد''چارمرتبہ استعمال ہوا ہے۔
اگر قرآن کریم کی تمام معلومات تحریر کی جائیں تو کئی جلدوں پر مشتمل کتاب تیار ہوجائے گی لہٰذا اختصار کو پیش نظررکھتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں، انشاء اللہ بقید حیات آئندہ اور بھی معلومات کا تذکرہ کیا جائے گا۔ چونکہ کتاب خداوندی کا دائرہ بہت وسیع ہے لہٰذا سمندر کو کوزہ میں نہیں سمویا جاسکت: جیساکہ میں نے اس جملہ کی کئی بار تکرار کی ہے کہ قرآن کریم ایسی مقدس اور انسانی افکار سے ماوراء کتاب ہے کہ جس کی تہہ تک پہونچنا طائرفکر کے بس میں نہیں ہے لہٰذا اس کے تمام حقائق کے بیان کا دعویٰ بلادلیل ہے، اس کے تمام حقائق تو صرف وہی بیان کرسکتے ہیں کہ جن کو علم کتاب کی دولت سے مالا مال کیاگیا ہے البتہ میں یہ وعدہ ضرور کرسکتا ہوں کہ بقید حیات انشاء اللہ اگر خداکی توفیق شامل حال رہی اور زندگی نے وفا کی تو آئندہ بھی اس موضوع پر قلم فرسائی کروں گا تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام تک قرآنی حقائق پہونچ سکیں اور وہ اس پرفیض خزینہ سے بے بہرہ نہ رہیں۔ آخرکلام میں بارگاہ رب العزت میں دعاگو ہوں کہ پروردگار عالم! ہم تمام(امت مسلمہ) کو قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرما اورہمیں اس زمرہ سے باہر نکال دے کہ روزمحشر قرآن کی جانب سے شکایت کا شکار قرار پائیں۔ ''آمین''۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ''۔

منابع و ما خذ: (١)قرآن کریم(٢)المعجم المفہرس للقرآن اکریم(٣)تفسیرقرطبی (٤)تفسیرالمیزان(٥)تفسیردرمنثور(٦)تفسیرنمونہ(٧)تفسیرکبیرفخرالدین رازی (٨)تفسیرعیاشی۔     

تعلیم کی اہمیت: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی


تعلیم کی اہمیت،آیات و روایات کے تناظر میں

ضیاء الافاضل مولانا سید غا فر رضوی

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس ترقی یافتہ دورمیں تعلیم نہایت ہی ضروری اوراہم امورمیں سے ہے،ہرزمانہ کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں لیکن علم ایسی شئے ہے جس کا متقاضی ہر زمانہ رہا ہے؛ یہ بات الگ ہے کہ گزشتہ زمانوں میں بغیرتعلیم کے بھی گزربسرہوجاتی تھی اور تھوڑا سا پڑھاہوا انسان بھی بڑا افسربن جایاکرتاتھا لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ معیار تعلیم بھی ترقی کررہا ہے اور اس دور میں پڑھائی کی کمی معاشرہ کے لئے ناسورسے کم نہیں ہے۔کیونکہ گزشتہ زمانوں میں دورحاضرجیسی ترقیوں کا فقدان تھااوراونٹ،بیل گاڑی، گھوڑے وغیرہ پر سفرکیاجاتا تھا اورایک سبب یہ تھا کہ کچھ لوگوں کے حالات نے تعلیم میں دلچسپی نہیں لینے دی اسی باعث علم کی اہمیت کودرک نہ کرسکے، لیکن دورحاضراس لاعلمی کا سخت مخالف ہے اور ببانگ دہل پکاررہا ہے کہ بغیرتعلیم کے کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ اگرکوئی دولت علم سے مالامال نہیں ہے توگاڑی کے نمبربھی نہیں پڑھ سکتاجس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ منزل سے محروم رہ جائے گا۔ کیا کسی کویہ گوارہ ہے کہ وہ منزل مقصودتک رسائی حاصل نہ کرپائے؟ ہرگزنہیں! ہرشخص اپنی مطلوبہ منزل تک پہونچنے کا خواہاں ہے ،لہٰذا اگرہمیں منزل مقصود درکار ہے تو علم کادامن تھامنا ہوگاکیونکہ بغیرتعلیم کے منزل مقصودتک رسائی ممکن نہیں!۔خداوندعالم سورۂ جمعہ کی دوسری آیت میں اپنے رسول{ص }کی شان میں ارشادفرماتا ہے: (ہم نے انھیں ''اپنے رسول{ص } کو''کتاب وحکمت کی تعلیم دی)۔ اس آیۂ مبارکہ کے تناظرمیں حبیب خدا {ص }کی جانب جہالت کی نسبت دینا قرآنی مفاہیم سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ رسول خدا {ص }کی جانب جہالت کی نسبت دیناتاریخ اسلام کا بہت بڑا المیہ ہے، کیونکہ جہالت کی نسبت دینے والے خودجاہل ہیں،اگرجاہل نہ ہوتے تواحکام خداوندی کو درک کرنے کی صلاحیت ہوتی،مذکورہ بالا آیۂ کریمہ کے تحت آنحضرت {ص }کی جانب جہالت کی نسبت دینافرمان الٰہی کی مخالفت ہے، اورفرمان الٰہی سے سرپیچی انسان کو کفرکے زمرہ میں قراردیتی ہے لہٰذا یہ اعتقاد لازم ہے کہ جوتمام کائنات کوہدایت دینے کی خاطربھیجا گیاہووہ جاہل نہیں ہوسکتاکیونکہ خداوندعالم پوری کائنات کی باگ ڈور کسی جاہل کے سپردنہیں کرسکتا اور اس کا مشاہدہ خود دورحاضرمیں بھی بخوبی کیاجاسکتا ہے کہ کسی کم علم کو کسی بھی عہدہ سے سرفراز نہیں کیاجاتا!۔اس بحث سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ خداکا رسول{ص } عالم تھا اورخدانے ہمیں اپنے رسول کی سیرت پرگامزن ہونے کاحکم دیا ہے اورچونکہ حبیب خدا{ص } عالم تھے لہٰذا آنحضرت کی سیرت پرعمل پیراہوتے ہوئے اورحکم خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے ہرمسلمان کا فریضۂ عینی ہے کہ دولت علم وکمال سے مالامال ہو۔ چونکہ علم ایک فضیلت ہے اور فضیلت کے ہمیشہ دشمن رہے ہیں لہٰذا علم کے دشمن بھی بہت زیادہ ہیں، تاریخ آدم وعالم شاہد ہے کہ ہمیشہ اس فضیلت کے مدمقابل دشمنی کی دیواریں کھڑی رہیں، خداوندعالم نے جناب آدم کو گوہرعلم سے نوازا تو ان کے مقابل شیطان کی جہالت نے جنم لیا۔ خدانے موسیٰ کلیم اللہ کو زیورعلم سے مزین فرمایاتوان کے مدمقابل فرعون جیسا ظالم وجابراورشاطرمزاج کھڑا نظرآیا۔ خدانے جناب ابراہیم خلیل اللہ کو اس دولت سے مالا مال کیا تو نمرود جیسا سفاک سامنے آگیا اور خلیل خدا کو نذرآتش کردیا لیکن خدانے اپنی قدرت کا جلوہ کچھ ایسے دکھایا کہ آتش نمرود کو گلزاربنادیااورجہالت کویہ سمجھادیاکہ جہالت چاہے کتنی ہی بڑی ہو لیکن علم کے مقابلہ میں ناچیز ہے کیونکہ علم ایک فضیلت ہے اور ہم کبھی بھی کسی فضیلت کوسرنگوں نہیں ہونے دیں گے، اگر علم اورجہالت کامقابلہ ہوگا توہمیشہ علم ہی فتحیاب ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ امام حسین زیورعلم سے آراستہ وپیراستہ تھے تو ان کے مقابل یزید جیسا جاہل کھڑاہوگیالیکن نتیجہ میں شکست سے دوچارہوناپڑا۔علم دشمن افراداس ترقی یافتہ دور میں بھی یہی چاہتے ہیں کہ جہالت کابول بالا ہواورچراغ علم کو گل کردیا جائے! لیکن خداوندعالم کا ارادہ ہے کہ'' علم کا ہمیشہ رہے بول بالا اور جہالت کامنھ ہوجائے کالا''اگرخداوندعالم علم دوست نہ ہوتا تو اپنے انبیاء واولیاء کو دولت علم سے مالامال نہ کرتااورآیات و روایات میں جہالت کی مخالفت کاوجودنہ ہوتا۔ مولائے کائنات علی علیہ السلام کاارشاد ہے: ''طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَة عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ'' یعنی علم دین کا حصول ہرمسلمان پرفرض ہے، اس حدیث شریف میں کسی قسم کی قیدوبندنہیں ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنی خواتین کو بھی جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی نورانی وادیوں کا مسافر بنائو کیونکہ امت مسلمہ کی ہرفردپرعلم کا حصول فرض کیا گیا ہے۔یہ بدگمانی اپنے ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ جہالت کے سبب بخش دیئے جائیں گے کہ پروردگار!ہمیں علم نہیں تھااس وجہ سے فلاں حکم کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔جہالت کی معافی نہیں ہے اس لئے کہ خداوندعالم اوراس کے انبیاء و اوصیاء نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور انسان کے ہربہانہ کا سدّباب کردیا ہے۔ ایک مقام پر مولائے کائنات علی علیہ السلام کا ارشاد ہے: ''اُطْلُبُوْا الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلیٰ اللَّحَدِ''یعنی گہوارہ سے قبرتک علم حاصل کرو، اس حدیث شریف سے تعلیم کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے ،تعلیم پراتنا زوردیا گیا ہے کہ نادان بچہ جو گہوارہ میں ہے اس کو بھی تعلیم دو اور جو انسان قبر کی آغوش میں سو رہا ہے اس کو بھی تعلیم دو، بچہ کے کانوں میں اذان واقامت کاحکم گہوارہ کی تعلیم ہے اور قبرمیں لٹاکرتلقین پڑھنامردہ کو تعلیم دیناکہلاتاہے۔ ایک مقام پر مولائے متقیان علی علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں: ''اُطْلُبُ اْلعِلْمَ وَلَوْکَانَ بِالسِّیْنِ''یعنی علم حاصل کروچاہے چین جانا پڑے، اس حدیث شریف کی کئی تفسیریں کی گئی ہیں، ایک تفسیر یہ ہے کہ چین سے مراد دوری ہے یعنی اگر علم کے حصول میں بہت دور جانا پڑے تب بھی علم حاصل کرو؛ ایک تفسیر یہ ہوئی ہے کہ اس دور میں چین علوم وفنون کا مرکز تھا لہٰذا یہ کہاگیا کہ چاہے چین ہی جانا پڑے لیکن علم حاصل کرو؛ اس حدیث سے علم کی فضیلت بحسن وخوبی آشکارہوجاتی ہے۔ ایک مقام پر مولا علی فرماتے ہیں: ''اگرشیعہ جوانوں میں مجھے کوئی ایسامل گیاجس کے پاس دینی معلومات نہ ہوں تومیں اسے سزا دوں گا''(١)؛ اس قول مبارک کے پیش نظر،سزاسے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ طریقہ ہے''تعلیم کا حصول''۔ایک مرتبہ مولائے کائنات کی خدمت میں دس افرادحاضرہوئے جنھوں نے ایک ہی سوال کیا لیکن جواب الگ الگ طلب کئے، ان دس افراد کا سوال یہ تھا: ''علم افضل ہے یا مال؟'' پہلے نے سوال کیا تو مولا نے جواب دیا: ''علم افضل ہے،اس لئے کہ مال ختم ہوجاتاہے لیکن علم کاخاتمہ نہیں ہوتا ''دوسرے کے سوال پرآپ نے جواب دیا: ''علم بہتر ہے،اس لئے کہ مال ہامان وقارون کی میراث ہے اورعلم انبیاء الٰہی کی میراث ہے'' تیسرے نے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا: ''علم افضل ہے،کیونکہ مال کی چوری کا امکان ہے لیکن علم ایسی شئے ہے جوچوری نہیں کی جاسکتی'' چوتھے انسان نے سوال کیا تو حضرت نے جواب دیا: ''علم افضل ہے،کیونکہ مال کی حفاظت تم خود کرتے ہولیکن علم تمہاری حفاظت کرتا ہے '' پانچویں انسان کے جواب میں آپ نے فرمایا: ''علم افضل ہے، کیونکہ صاحبان اقتداروثروت کے دشمن زیادہ ہوتے ہیں لیکن صاحبان علم کے دوستوں کی کثرت ہوتی ہے'' آپ نے چھٹے انسان کو جواب دیا: ''علم افضل ہے، کیونکہ مالدار انسان بخل کا مریض ہوجاتا ہے لیکن صاحب علم کوکرامت عطاہوتی ہے یعنی مالدارکنجوس ہوتا ہے اورعالم کریم ہوتا ہے '' حضرت نے ساتویں شخص کوجواب دیا: ''علم افضل ہے،کیونکہ بروز قیامت مالدارسے حساب وکتاب ہوگالیکن صاحب علم سے اس کے علم کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہوگا '' آٹھویں شخص نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : ''علم افضل ہے، کیونکہ مال زمانہ کے ساتھ ساتھ پرانا ہوجاتاہے لیکن علم کسی زمانہ کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ یہ ہرزمانہ میں تروتازہ اورنیا رہتا ہے '' حضرت نے نویں انسان کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ''علم افضل ہے، کیونکہ مال سے انسان کا دل سیاہ وتاریک ہوجاتا ہے لیکن علم سے دل میں نورپیداہوتاہے'' آخری اور دسویں شخص کے جواب میں آپ نے ارشادفرمایا: ''علم افضل ہے، کیونکہ مالدار فرعون کی مانندخدائی کا دعویٰ کربیٹھتا ہے لیکن صاحب علم عجزو انکساری کا اظہارکرتاہے کہ اے میرے معبود! میں تیری عبادت کا حق ادانہیں کرپایا! '' اس کے بعد حضرت نے فرمایا: ''قسم ہے وحدہ لاشریک کی،اگرتم قیامت تک یہی سوال کرتے رہوگے تومیں تمہیں الگ الگ جواب دیتا رہوں گا'' اس فقرہ سے سمجھ میں آتا ہے کہ علم ایسا لامتناہی سمندرہے کہ جس کی حدودمعین نہیں، یہ بھی تو علم کا ایک منھ بولتا شاہکار ہے کہ مولا ایک ہی سوال کے دس جواب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگرقیامت تک یہی سوال کرتے رہوگے تومیں الگ الگ جواب دیتا رہوں گا!۔ اگران دس جوابوں کی تشریح کی جائے تو بحث بہت طولانی ہوجائے گی لہٰذا اس سے غض نظرکرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، علامہ زمخشری اپنی کتاب''اربعین جاراللہ''میں رقمطراز ہیں: ''یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضوراکرم نے مولا علی کی شان میں یہ حدیث ارشادفرمائی تھی: اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِیّ بَابُھَا''یعنی میں شہرعلم ہوںاورعلی اس کا دروازہ ہے، جب خوارج نے یہ فضیلت سنی تو ان کے حلق سے نیچے نہیں اتری اور ان کے دس اکابر علماء آگے بڑھے اورکہا: ''اگرآپ ایک ہی سوال کے دس جواب دے دیں گے تو ہم یقین کر لیں گے کہ آپ شہرعلم کے درہیں''لیکن جب دل سیاہ ہوجائے تواس پر کسی قسم کی وعظ ونصیحت اور کسی بھی نمونہ کا اثرنہیں ہوتا، ان کے دل ٹہڑے ہوچکے تھے لہٰذا ان کے دلوں پر دس جواب سننے کے بعد بھی کوئی اثرنہیں ہوا۔علم کی فضیلت کسی بھی صاحب عقل پرمخفی نہیں ہے،اس لئے کہ یہی وہ گرانبہا گوہر ہے جس کے ذریعہ حیوان وانسان میں جدائی ہوتی ہے لہٰذا ایک جاہل انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ جو خصلتیں انسان میں پائی جاتی ہیں وہ تمام اوصاف جانور میں بھی پائے جاتے ہیں،انسان وحیوان کے درمیان طرّۂ امتیاز فقط علم ہی ہے۔ احکام الٰہی پر عمل پیرا نہ ہونے والوں کی مذمت میں ارشاد ہوتا ہے: (یہ توجانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر)اس لئے کہ جانورعقل کی نعمت سے محروم ہوتا ہے لیکن یہ انسان ہے کہ اسے دولت عقل سے بھی نوازا لیکن یہ پھربھی جہالت کا دلدادہ رہااورتعلیم کے حصول میں آگے نہ بڑھ سکا کہ اس کے ذریعہ احکام الٰہی کو عملی جامہ پہناسکے!۔علم کی اہمیت کے پیش نظررسول خدا نے ارشاد فرمایا: ''علم اسلام کی زندگی کاسہارا ہے،جس نے تھوڑاسا علم حاصل کیااس کوخداکی جانب سے پورا اجرعطاہوگا؛جس نے علم حاصل کیا اوراس پرعمل بھی کیاتوخداوندعالم اسے ایسی شئے کا علم دے گاجووہ نہیں جانتا''(٢)؛ اس حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ اگرہم جاہل رہ گئے توکسی بھی طرح دین کو سہارا نہیں دے سکتے کیونکہ علم ہی دین اسلام کا سہاراہے، اسلام کاسہاراصاحب علم ہی بن سکتا ہے،لہٰذا دین اسلام کو پائیداربنانے کے لئے امت مسلمہ کی ہرفردپرواجب ہے کہ میدان علم کی جانب گامزن ہو۔ایک مقام پررسول خدا کاارشاد ہے: ''علم ہرنیکی کی بنیاد ہے اورجہالت ہرشرکی بنیادہے'' (٣)؛ یعنی علم وہ گرانبہاسرمایہ ہے جومعاشرہ میں پرچم امن واتحادلہراتاہے اور جہالت اس بلا کا نام ہے جو ہمارے سماج کو تباہی کے گھاٹ اتاردیتی ہے؛ اگرکسی معاشرہ میں فسادات کابول بالاہوتوسمجھ لیجئے کہ اس سماج پرجہالت کاراج ہے ، اگرکوئی عالم فسادات برپاکرتا نظر آئے تو وہ عالم نہیں بلکہ جاہل ہے جو شیطان کی پیروی کرتے ہوئے عالم کے لباس میں جلوہ نماہواہے ۔حضوراکرم کاارشادہے: ''علم ایساخزانہ ہے کہ جس کی کنجی سوال ہے''اگرکسی کے پاس علم ہے تو اس سے سوال کریں کیونکہ سوال سے چارلوگوں کو فائدہ ہوتا ہے:(الف)سوال کرنے والے کو(ب)جواب دینے والے کو (ج)سامعین کو(د)ان کے احباب ورفقاء کو(٤)؛ آخرکون انسان ایسا ہوگا جو اپنے فائدہ کی فکرمیں نہ ہو؟ ہرانسان یہی چاہتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طریقہ سے فائدہ حاصل ہوجائے! اگرہم فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ایسا فائدہ حاصل کریں کہ اس میں دوسرے دینی بھائی بھی شامل ہوجائیں!۔ایک مقام پررسول اسلام ارشادفرماتے ہیں: ''علم ہرعیب کوچھپالیتا ہے اورجہالت ہرعیب کو آشکارکردیتی ہے''یعنی علم کے ذریعہ ہزار عیوب کو بھی چھپایا جاسکتا ہے لیکن جہالت عیوب کو ظاہرکردیتی ہے،اسی لئے کہاگیاہے کہ'' پہلے تولوپھربولو''تول کربولناصاحبان علم کی میراث ہے اور بول کرسوچنا جہالت کی علامت ہے،اگرہم آغوش جہالت کے پروردہ ہوں گے تو عیوب کا چھپانا محال ہے، اگرہمیں اپنے عیوب کو چھپانا ہے تو میدان علم میں قدم رکھنا ہوگا تاکہ ہم جہالت کی تاریکیوں کو نورعلم کے زیرسایہ ایسی کھائی میں دھکیل دیں کہ وہ دوبارہ اپنا سر نہ اٹھاپائے، جہان انسانیت کاتقاضاہے کہ علم حاصل کیاجائے تاکہ دشمن کے حملہ سے پہلے ہی اس کے دفاع کی مکمل آمادگی ہوسکے،دشمن کا منھ توڑ جواب علم کے ذریعہ ہی ممکن ہے، اس دورمیں مسلمانوں پر چاروں طرف سے دشمن کی یلغارہے لہٰذاہرمسلمان کا فریضہ ہے کہ علم کو اہمیت دے،اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے نوازے اوردشمن کے لئے لشکرتیارکرے تاکہ علم دشمن افراد کو سبق سکھایاجاسکے، آخر میں بارگاہ ایزدی میں دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار!ہمارے قلوب کو نورعلم سے منورفرمااورجہالت کی تاریکیوں کوہمارے وجود سے دورکردے۔'' آمین''۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ ''۔      

حوالہ جات:(١)المحاسن: ج١، ص٢٢٨۔ (٢)نہج الفصاحة:باب العلم۔ (٣)جامع الاحادیث: باب علم۔ (٤)تحف العقول: باب فضیلت علم۔         

مھاتما گاندھی، بھترین رھبر آزادی: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی


مہاتما گاندھی، بہترین رہبر آزادی

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی ''چھولسی''

اجمالی تعارف: رھبرآزادی ھند، بابائے قوم''مہاتما گاندھی'' کا پورا نام ''موہن داس کرمچند گاندھی'' تھا؛آپ ٢اکتوبر١٨٦٩.ء کو گجرات کے ایک ساحلی شھر میں پیدا ھوئے۔ان کے والد ''کرمچند گاندھی'' تھے جوھندو مودھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اورانکی والدہ کا نام ''پتلی بائی'' تھا جو ھندو پرنامی ویشنو فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ انکے دادا کا نام ''اتمچند گاندھی'' تھا جو '' اتا گاندھی'' سے بھی مشھور تھے۔مہاتما گاندھی، ھندوستان کے سیاسی اور روحانی رہنما اور تحریک آزادی کے اھم ترین کردار تھے۔ انھوں نے صدق و صفا کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ان کا یھی رویہ یعنی صدق و صفا (ستیہ گرہ) ھنددستان کی آزاد کی وجہ بنا۔ اور ساری دنیا کے لئے حقوق انسانی اور آزادی کیلئے روح رواں ثابت ھوا۔ ھندوستان میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو جی کہا جاتا ھے۔ انہیں ھند سرکار کی جانب سے ''بابائے قوم''کے لقب سے نوازا گیا۔ گاندھی جی کا یوم پیدائش (گاندھی جینتی)پورے ھندوستان میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ھے اور دنیا بھر میں یوم امن کے طور پر منایا جاتا ھے۔یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ اچھائی کے دشمنوں کی کمی نہیں ھوتی لہٰذا اس رھبرآزادی کے متعدددشمن پیدا ھوگئے جن میں سے تاریخ نے ایک نام ھندوایزم سے تعلق رکھنے والے شدت پسندانسان''ناتھو رام گوڈسے'' بھی بیان کیا ھے، اس کے دل میں گاندھی جی کی دشمنی پرورش پارھی تھی اور جب اس چنگاری نے شعلہ کی شکل اختیارکی تو اس نے ٣٠جنوری ١٩٤٨.ء کو گاندھی جی کے سینہ پر گولی مارکرانھیںشہیدکردیا۔
کارکردگی:گاندھی جی نے جنوبی افریقہ میں وکالت کی تعلیم حاصل کی اوراسی دوران رھائشی ھندوستانی فرقہ کے شھری حقوق کے لئے جدوجہد کی۔ھندوستان واپسی کے بعد ١٩١٥.ء میں کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ تعصب کے خلاف شدیداحتجاج کیا۔١٩٢١.ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد ملک سے غربت کم کرنے ، خواتین کے حقوق کو بڑھانے، مذھبی تعصب کے خاتمہ اور معاشی خود انحصاری کا درس پڑھانے کی مھم کی قیادت کی۔ مشھور عدم تعاون تحریک کی قیادت کی جو کہ ١٩٣٠.ء میں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں ٤٠٠کلومیٹر (٢٤٠میل)لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ھوئی۔ ١٩٤٢.ء میں بھارت چھوڑو سول نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کے مطالبہ کے ساتھ کیا۔ سالٹ سے متأثر ھو کر، انھوں نے سبزخور سماج کی رکنیت اختیار کی۔ اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے لئے منتخب ھو گئے جھاں انھوں نے ایک مقامی باب کی بنیاد رکھی۔ وہ جن سبزخور لوگوں سے ملے ان میں سے کچھ تھیوسوفکل سوسائٹی کے رکن تھے جس کا قیام ١٨٧٥.ء میں عالمی بھائی چارگی کو مضبوط کرنے اور بودھ مشٹ اور ھندو مشٹ ادب کے مطالعہ کے لئے وقف کیا گیا تھا۔انھوں نے گاندھی جی کو انکے ساتھ بھگوت گیتا اصل اور ترجمہ دونوں چیزیں پڑھنے کی بابت ترغیب دلائی۔ گاندھی جی کو پہلے تو مذاہب میں کوئی خاص دلچسپی نہیںتھی لیکن اس کے بعدوہ مذھب میں دلچسپی لینے لگے اور ھندو مذھب اور عیسائی مذھب دونوں کتابوں کو پڑھنے لگے۔آپ کو١٠جون ١٨١٠.ء میں   انگلینڈ اور ویلز بار بلایا گیااور ١٢جون ١٨٩٢.ء کو لندن سے واپس لوٹ آئے۔
جذبۂ نجات قوم: چونکہ گاندھی جی آزاد طبیعت انسان تھے اوراپنے ملک ،اپنے وطن اوراپنی قوم کے ھرفرد کو بھی آزادی کا حامی ومحامی دیکھنا چاہتے تھے اور آپ یہ بھی جانتے تھے کہ آزادی کی بنیاد صدق و صفاپر رکھی جائے تو راہ نجات تک رسائی آسان ھوجائے گی لہٰذاآپ نے سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے ایسا ہی چاہتے تھے۔وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے تاکہ اپنی سادگی کے ذریعہ قوم کی انگشت نمائی کا سدّ باب کرسکیں ۔ وہ آشرم میں رھتے، کپڑے کے طور پر روایتی ھندوستانی دھوتی اور شال کا استعمال کرتے، جس کو وہ خودہی چرخے کے ذریعہ بنتے تھے اور اپنے اس عمل سے یہ درس دیتے تھے کہ رھبرقوم کو آرام طلب نہیں بلکہ زحمت کش ھونا چاہئے۔ وہ سادہ اور سبز کھانا کھاتے، وہ روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لئے لمبے اپواس(روزے)رکھتے تھے۔
 ازدواجی زندگی: ابھی گاندھی جی صرف ١٣برس کے ہی ھوئے تھے کہ مئی ١٨٨٣.ء میں ان کے والدین نے ان کی شادی ١٤سالہ دوشیزہ'' کستوربا ماکھنجی'' سے کر دی جن کو   ''کستوربا'' بھی کہاجاتا تھا بلکہ بہت سے بزرگ افراد پیار سے ''با''کہتے تھے۔١٨٨٥.ء میں ان کے یہاں پہلی اولاد پیدا ھوئی لیکن وہ صرف کچھ دن ہی زندہ رھی اور اسی سال کے آغاز میں گاندھی جی کے والد کرمچند گاندھی بھی چل بسے۔کستوربا سے گاندھی جی کے چار بیٹے ھوئے جن کے نام:''ھری لال، منی لال، رام داس اور دیوداس '' تھے ۔
آزادی کا طریقۂ کار: گاندھی جی کے سرمیں یہ سودا سمایا ھواتھاکہ جب تک فرنگیوں کے تسلّط سے اپنے ملک اور اپنی قوم کو نجات نہیں دلائیںگے تب تک سکون کی سانس نہیں لیں گے اور فرنگیوں کا ھندوستان چھوڑنا ایک ناممکن امر نظرآرھا تھالہٰذا انھوں نے اپنی شاطرمزاجی کا استعمال کرتے ھوئے سوچا کہ ھم ان کے ہتھیار کو انھیں کے خلاف استعمال کریں گے لہٰذا یھی سوچ کر اپنی شادی کی انیسویں سالگرہ سے کچھ ماہ قبل ٤ستمبر١٨٨٨.ء میں لندن کے لئے عازم سفر ھوئے اور برطانیہ یونیورسٹی کالج آف لندن میں داخلہ لیا۔ شاھی دارالحکومت لندن میں ان کی زندگی اپنی ماں کی تعلیمات پر عمل پیرا ھوتے ھوئے گوشت ، شراب اور تنگ نظریہ سے پرھیز کرتے گزری۔گاندھی جی ان چیزوں کے کھانے کے بجائے بھوکا رھنے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ ان کے مذھب نے ان چیزوں کا استعمال حرام قرار دیا تھا؛ گاندھی جی نے اپنے اس عمل سے یہ سمجھایا ھے کہ اگر کوئی قوم کی رھبری کے خواب دیکھتا ھے تو سب سے پہلے اسے اپنے مذھب کی پسند اور ناپسند کا خیال کرنا پڑے گا، رھبریت کے لئے دین پرستی ضروری ھے، اگرکوئی شخص اپنے دین ومذھب کی پیروی کئے بغیر رھبری کاخواب دیکھتا رھے تو اسے منزل مقصود نہیں مل سکتی۔
تحریک آزادی:جب برطانوی سامراج نے جنوبی افریقہ میں مقامی بوئر باشندوں پر جنگ مسلط کی تو مہاتما گاندھی نے استعماری فوجوں کو ھندوستانیوں کی بھرتی کا یقین ان الفاظ میں دلایا:''اس حقیر پیشکش کا مقصد یہ یقین دلانے کی کوشش ھے کہ جنوبی افریقہ کی ملکہ کے دوسری رعایا کے دوش بدوش، ھندوستانی بھی میدان جنگ میں اپنی بادشاہت کی خدمت بجا لانے کے لئے تیار ہیں۔ اس پیشکش کا مقصد ھندوستانیوں کی وفاداری کا بیعانہ ھے''۔١٩٠٦.ء میں ، زولو جنوبی افریقہ میں نئی انتخابی چنگی کے لاگو کرنے کے بعد دو انگریز افسروں کو مار ڈالا گیا۔ بدلے میں انگریزوں نے زولو کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔گاندھی جی نے ھندوستانیوں کو بھرتی کرنے کے لئے برطانوی حکام کی حوصلہ افزائی کی۔ان کا کہنا تھا کہ اپنی شھریت کے دعووں کو قانونی جامہ پہنانے کے لئے ھندوستانیوں کو جنگی کوششوں میں تعاون کرنا چاہئے۔تاھم انگریزوں نے اپنی فوج میں ھندوستانیوں کو عھدے دینے سے انکار کر دیا تھااس کے باوجود انھوں نے گاندھی جی کی اس تجویز کو مان لیا کہ ھندوستانی زخمی انگریز فوجیوں کو علاج کے لئے اسٹیچرپر لاسکتے ہیں اور علاج کر سکتے ہیں۔ اس کی باگ ڈور گاندھی جی نے تھامی۔ ٢١جولائی ١٩٠٦.ء میں گاندھی جی نے انڈین اوپنین (Indian Opinion)میں لکھا کہ ''نیٹال حکومت کے کہنے پر، مقامی لوگوں کے خلاف جنگ کے لئے ٢٣ھندی باشندوں کی ایک کور کا قیام تجرباتی طور پر کیا گیا ھے''۔گاندھی جی نے انڈین اوپینین کے مقالوں کے ذریعہ جنوبی افریقہ میں ھندی لوگوں سے اس جنگ میں شامل ھونے کے لئے درخواست کی اور کہا: ''اگر حکومت صرف یھی محسوس کرتی ھے کہ فورس بیکار ھو رھی ھے تو اس وقت وہ اس کا استعمال کریں گے اور اصل لڑائی کے لئے ھندوستانیوں کو ٹریننگ دے کر اس کا موقع دیں گے''۔ گاندھی جی کی رائے میں ١٩٠٦.ء کا ڈرافٹ آرڈیننس ھندوستانیوں کی حالت مقامی شھری سے نیچے لانے جیسا تھا۔اس لئے انھوں نے ستیہ گرہ کے طرز پر ھندوستانیوں سے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا۔ان کا انداز تخاطب کچھ ایسا تھا:''یہاں تک کہ نصف برادری ھم سے کم جدید ہیں، انھوں نے بھی حکومت کی مخالفت کی ھے،پاس اصول ان پر بھی لاگو ھوتا ھے لیکن وہ پاس نہیں دکھاتے ہیں''۔١٩٢٧.ء میں گاندھی جی نے اس واقعہ کا ذکر یوں کیا: ''بوئر جنگ نے مجھے اتنا نہیں ڈرایا،جیسا کہ زولو''بغاوت''نے ڈرایا۔ کیوں کہ یہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ انسانیت کا شکار تھا، ایسا صرف میرا ہی خیال نہیں بلکہ ان انگریز وں کا بھی خیال ھے جن سے مجھے ملاقات کا موقع ملا''۔جب گاندھی جی١٩١٥.ء میں افریقہ سے واپس آئے تو تحریک آزادی کی بنیاد ڈال دی ۔اپریل ١٩١٨.ء میں پہلی عالمی جنگ کے آخری حصہ میں، وایسرائے نے دہلی میں جنگ کی کانفرنس میں گاندھی جی کو مدعو کیاکہ شاید سلطنت کے لئے اپنی حمایت ظاھر کریں اورھندوستان کی آزادی کے لئے ان کے معاملے میں مدد کی جائے۔ گاندھی جی نے جنگ کی کوششوں کے لئے فعال طور پر ھندوستانیوں کی بھرتی سے اتفاق کیا۔ ١٩٠٦.ء کی زولو جنگ اور١٩١٤.ء کی عالمی جنگ کے برعکس جب انھوں نے ایمبولینس کور کے لئے رضا کار بھرتی کئے تھے، اس وقت گاندھی جی نے جنگجو رضاکاروں کی بھرتی کی کوشش کی۔ جون ١٩١٨.ء کے ایک کتابچہ''بھرتی کے لئے اپیل''میں گاندھی جی نے لکھا: ''اس طرح کے حالات میں ھمیں اپنے آپ کا دفاع کرنے کی صلاحیت ھونی چاہئے جو ہتھیار اٹھانے اور انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت ھے اور اگر ھم ہتھیار کا استعمال کرنا سیکھنا چاہتے ہیں تو فوج میں شامل ھونا ھمارا فرض ھے''۔ حالانہ کے انھوں نے وائسرائے کے ذاتی سکریٹری کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ ''وہ ذاتی طور پر کسی کا قتل یا زخمی نہیں کرسکتے خواہ وہ دوست ھو یا دشمن''۔ گاندھی جی کی جنگی بھرتی مھم انکے عدم تشدد کی استقامت پر سوالیہ نشان لگاتی ھے جیسا کہ انکے اپنے دوست ''کو چارلی اینڈریوز'' نے قبول کیا ھے:''ذاتی طور پر میں انکے اس طرز عمل کو نہیں سمجھ پایااور یہ ایک ایسانکتہ ھے جھاں میں خود کو دردناک اختلاف میں پاتا ھوں''۔ گاندھی جی کے ذاتی سیکرٹری نے بھی تسلیم کیا کہ :''عدم تشدد اور ان کی بھرتی کی مھم کا سوال ھمیشہ موضوع بحث رھاھے''۔گاندھی جی نے انگریزی افسروں کی زبانی متعدد بار سنا تھا کہ ''پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو'' لہٰذا انھوں نے ان کی اس سیاست کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور جو انگریزی قافلہ برسوں سے ھندوستان میں ڈیرہ جمائے بیٹھا تھا اسے منھ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا، حالانکہ انھیں لندن میں ٹرین سے باھر بھی پھینک دیا گیا لیکن انھوں نے وہ زخم ہنستے ھوئے برداشت کئے کیونکہ ان کی نظر میں ان کا ہدف اھم تھا؛ آپ کو انگریزی قید خانہ کا مزہ بھی چکھنا پڑا اور ھندی زندان میں بھی مقید ھونا پڑا لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہیں کی کیونکہ انھوں نے امام حسین علیہ السلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا تھا یھی سبب ھے کہ انھوں نے انقلاب ھند کو امام حسین علیہ السلام کا مرھون منت قرار دیا ھے، وہ اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں: ''میں نے انقلاب کا درس امام حسین علیہ السلام سے لیا ھے، انھوں نے صرف بہتر افراد کے ساتھ ایسا انقلاب بپاکیا کہ یزید نام کو گالی بنادیا، میں بھی اپنے انقلاب میں بہتر وفاداروں کو لے کر آگے بڑھوں گا اور ھندوستان کو فرنگیوں کے چنگل سے نجات دلائوںگا '' گاندھی جی کا بیان اس بات کی عکاسی کررھا ھے کہ انھوں نے ھندوستان اور اس کی عوام کو انگریزی فوجیوں اورفرنگی حکومت سے نجات ضرور دلائی ھے لیکن اس نجات میں حقیقی رھبر آزادی ''امام حسین علیہ السلام '' کی ذات گرامی ھے، مہاتماگاندھی نے امام حسین علیہ السلام  کی پیروی کرتے ھوئے پورے ملک کو آزاد کرلیا توکیا ھم خود اپنی ذات کو اپنے نفس کے زندان سے آزاد نہیں کرسکتے! انقلاب لانے کے لئے حسین علیہ السلامی جذبہ اورگاندھی مزاج درکار ھے ورنہ آزادی کا تصور بیکار ھے۔ پالنے والے ھمیں توفیق دے کہ ھم اپنے نفس کے چنگل سے نجات پاسکیں اور راہ راست پر گامزن ھوسکیں۔''آمین''۔
منابع و ماخذ: (١)Stanley Wolpert: Gandhi's Passion, The Life and Legacy of Mahatma Gandhi, Oxford University Press
(٢)^ Fischer, Louis (1954). Gandhi:His life and message for the world. Mentor^ Tendulkar, D. G. (1951). Mahatma volume 1.۔ْ
(٣) Delhi: Ministry of Information and Broadcasting, Government of India.

(٤) بشارت حسین علیہ السلام قزلباش (28 اگست 2009). "How Gandhi collaborated with the Raj". دی نیشن. Retrieved 19 February 2011

غدیر، اھلسنت کی نگاہ میں: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی



غدیر، اہل سنت کی نگاہ میں

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

کوئی بھی حقیقت ہو،لاکھ پردے ڈالنے کے با وجودبھی نہیں چھپتی،چاہے وہ حقیقت ،شب تار میں رو نما ہوئی ہو،چہ جائیکہ وہ حقیقت جو سورج کی روشنی میں وجود میں آئی ہو۔
ایسی ہی ایک حقیقت ''غدیر''ہے جو کہ تاریکی شب میں نہیں بلکہ آفتاب کو گواہ بناتے ہوئے وجود میں آئی ،وہ بھی کسی بند قہوہ خانہ میں نہیں بلکہ کھلے میدان میں (جہاں دور دور تک سایہ نہیں تھا)عرب کی گرمی،تمازت آفتاب ،ایسے موقع پر جب حاجیوں کا قافلہ غدیر خم نامی جگہ پر پہونچا تو سرور کائناتۖ نے حکم دیاکہ قافلہ کو روکا جائے،تمام روایتوں کے مدنظر ،اس کاروان میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی تعداد تھی۔
اتنی آشکار حقیقت کے بعد ،کون ایسا جسور انسان ہے جو اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے ،اگر کوئی نا سمجھ پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کرے تو کیا پردہ ڈال سکتا ہے؟یہ ممکن ہی نہیں ہے چونکہ ایک تو آفتاب کی کرنیں، دوسرے میدان،تیسرے ایک لاکھ سے زیادہ جمّ غفیر،اس حقیقت پر پردہ ڈالا ہی نہیں جا سکتا ،یہی سبب ہے کہ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتابلکہ بلا تفریق مذہب و ملت ،ہر انسان اقرار کرنے پر مجبور ہے۔
غدیر خم پہونچنے کے بعد جبرئیل امین یہ آیت لیکر نازل ہوئے...یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس(مائدہ:٦٧)یعنی اے میرے رسول ۖ وہ پیغام پہونچادو جو تم پر نازل کیا جا چکا ہے اور اگر تم نے یہ کام انجام نہ دیا تو گویا کوئی بھی کار رسالت انجام نہیں دیا(اور اے حبیب اگر تمھیں دشمنوں سے خوف ہے تو یاد رکھو)اللہ تمھیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا(حبیب السیر:ج:١  ص:٤١١)
حضور ۖ کے حکم کے مطابق پالان شتر کا منبر بنایا گیا ،حضورۖ  منبر پر تشریف لے گئے اور ایک طولانی خطبہ ارشاد فرمایا،اس خطبہ میں آپۖ نے فرمایا:میں تم لوگوں سے پہلے حوض کوثر پر پہونچوں گا او ر تم مجھ سے وہیں ملاقات کروگے،دیکھو....میرے بعد میری چھوڑی ہوئی دو میراثوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو؟مجمع میں سے کسی ایک شخص نے سوال کیا یا رسول اللہ وہ دو گرانقدر چیزیں کونسی ہیں؟
حضورۖ نے فرمایا:ایک کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سراتمھارے ہاتھوں میں،پس اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو تا کہ گمراہ نہ ہو۔
اور دوسری چیز میری عترت (اہلبیت) ہیں اور خدا وند عالم نے مجھے خبردی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر مجھ سے آملیں ،ان سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجائو گے ،اس کے بعد علی  کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر اتنا بلند کیا اتنا بلند کیا کہ سفیدی بغل نمایاں ہوگئی ،اس کے بعد فرمایا :اے لوگو!مومنین کے نفسوں پر خود ان سے زیادہ تسلط کا حق کس کو ہے؟سب نے کہا خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں تو حضورۖ نے فرمایا:خدا،میرا مولا ہے اور میں تمام مومنوں کا مولا اور سرپرست ہوں اور مومنوں پر ان سے زیادہ تسلط رکھتا ہوں پس''من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ''جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی سرپرست اور مولا ہیں(کنز العمال:ج١٣  ص١٠٤  ح٣٦٣٤٠  و  ص١٣٣         ح:٣٦٤٢٠)
اور اس جملہ کی تین مرتبہ تکرار کی تاکہ جس نے پہلی بار نہ سنا ہو وہ دوسری بار میں سن لے اگر کوئی دوسری بار بھی نہیں سن پایا تو تیسری مرتبہ سن لے ،چونکہ تین مرتبہ سننے کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے سنا ہی نہیں،ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کے سننے کے باوجود بھی ان سنی کردی۔
اس جملہ کے بعد حضورۖ نے بارگاہ ایزدی میں دست دعا بلند کئے ،خدایا!تو ہر اس شخص کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور ہر اس شخص سے دشمنی کر جو علی کا دشمن ہو(کنزالعمال:ج:١٣  ص:١٣٨)
خدایا !تو اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے اور جو علی کو تنہا چھوڑ دے تو تو بھی اسے بے یارو مددگارچھوڑدے(فرائدالسمطین:ج:١ص:٧٣)پروردگار!حق کو علی کے ہمراہ رکھ چاہے علی کہیں بھی رہے(سیرۂ حلبی:ج٣  ص٣٣٦     و  مجمع الزوائد:ج٩    ص١٠٤)
اس کے بعد لوگوں سے خطاب کیا ،اے لوگو!میرا یہ پیغام ان لوگوں تک بھی پہونچادینا جو اس بزم میں نہیں آسکے(معجم کبیرطبرانی:ج٥  ص١٦٦  و  نزل الابرار:ص٥١)
ادھر حضورۖ  خطبہ تمام ہوا اور ادھر جبرئیل دوبارہ آ پہونچے اور اب یہ پیغام لیکر آئے...الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا یعنی آج ہم نے تمھارا دین کامل کردیا تم پر نعمتیں تمام کردیں اور اللہ تمھارے دین اسلام سے راضی ہو گیا(مناقب ابن مغازلی:ص١٩۔فرائد السمطین:ج١      ص٧٣)


مبارکبادی کا سلسلہ:۔
روضة الصفا کے مورخ واقعہ غدیر کو تحریر کرنے کے بعد ،رقمطراز ہیں:۔حضور اکرمۖ خطبہ کے بعد ایک خیمہ میں تشریف فرما ہوئے اور علی  کو دوسرے خیمہ میں بٹھایا گیا ،حضورۖ نے حکم دیا کہ تمام لوگ علی کے پاس جائیں اور انھیں مبارک باد ی دیں ،تمام لوگوں نے مبارک باد دی ، جب سب لوگ فارغ ہوگئے تو امھات المومنین(مومنوں کی مائیں)یعنی ازواج رسول نے مبارکباد پیش کی(تاریخ روضة الصفا:ج:١ ص:٧٣)
حبیب السیر کے مورخ کچھ اس طرح گویا ہیں:۔تمام اصحاب نے مبارک بادی پیش کی ،انھیں میں سے جناب عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ اس ناداز میں مبارکبادی پیش کی....بخ بخ یابن ابی طالب اصبحت مولای ومولیٰ کل مومن و مومنة...یعنی مبارک ہو مبارک ہو اے ابو طالب کے لعل کہ آپ میرے اور کل مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے(تاریخ حبیب السیر:ج:١  ص:٥٤١  و  غدیر از دید گاہ اہل سنت :ص:٢٦)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس جملہ کوبہت سے راویوں نے نقل کیا ہے انھیں میں سے ....ابن عباس،ابو ھریرہ،براء بن عازب،زید بن ارقم،سعد بن ابی وقاص،ابو سعید خدری،انس ابن مالک وغیرہ ہیں۔
روز غدیر،روز عید ہے:۔
چونکہ غدیر کے روز وہ دین کامل ہوا جو خدا وند عالم کا پسندیدہ دین ہے ،اسی دن نعمتوں کا اتمام ہوا اور جہاں اسلام کے لئے اس سے زیادہ خوشی کا موقع کیا ہو سکتا ہے کہ دین سالام کامل ہو گیا لہٰذا رسول اکرمۖ نے بذات خود روز غدیر کو روز عید شمار کیا اور مسلمانوں سے فر مایا: ھنئونی ھنئونی ان اللہ تعالیٰ خصنی بالنبوة و خص اھل بیتی بالامامةیعنی اے لوگو! مجھے مبارکبادی دو مبارکی دو کہ خدا وند عالم نے مجھ کونبوت سے مخصوص کر دیا اور میرے اہل بیت کو امامت سے مخصوص کردیا(الغدیر:ج١   ص:٢٧٤)
ابو ریحان بیرونی اپنی کتاب ''الآثار الباقیہ''میں رقمطراز ہیں کہ ذی الحجہ کی اٹھارھویں تاریخ کو ''عید غدیر خم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،غدیر وہ جگہ ہے جہاں حضور اکرمۖ حج آخر کی واپسی پر قیام پذیر ہوئے اور پالان شترکا منبر بنا یا گیا ،حضور ۖ اس منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولاہیں(ترجمہ الآثار الباقیہ:ص:٤٦٠)
ابن طلحہ شافعی اپنی کتاب ''مطالب السئوول ''میں تحریر کرتے ہیں :۔روز غدیر، روز عید شمار کیا گیا طونکہ یہ وہ وقت تھا کہ رسول خدا نے ان(علی )کو منصوب کیا اور تمام لوگوں میں سے انھیں کو یہ شرافت حاصل ہوئی (مطالب السئوول:ص:١٦)
اسی طرح دیگر دانشمندوں نے بھی غدیر کی فضیلت میں اظہار نظر کیا ہے ،اختصار کے مد نظر اسی پر اکتفا کی جا تی ہے ،بس خلاصہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اتحاد بین المسلمین کو دیکھنا چاہیں تو واقعۂ غدیرکو دیکھیں چونکہ اس واقعہ سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔
والسلام: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر حسن رضوی چھولسی''ہندی''
    


ذات علوی، عالمی پیمانہ پر: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی



حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی عالمی پیمانہ پر

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی چھولسی

ذات علوی کبھی کسی دور میں محتاج تعارف نہیں رہی ،جو بھی علی  کو دیکھتا تھا بے اختیار آپ کا مدح سرا ہو جاتا تھا اور آپ  کا قصیدہ پڑھنے لگتا تھا یہاں تک کہ آپ کا قصیدہ آپ  کے دشمنوں نے بھی پڑھا اور آج بھی پڑھ رہے ہیں ،چونکہ آپ  جیسا خدا کا بندہ آج تک کسی نے نہیں دیکھا اور نہ ہی اس دنیا میں کوئی آپ  کی مثال ہو سکتا ہے ،کہیں تو دشمن کو معاف کرتے نظر آتے ہیں ،کہیں کاسۂ شیر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں ، آخردنیا اس شخص کا جواب لائے بھی تو کیسے لائے جس نے اپنے قاتل کو قیدی دیکھنا گوارہ نہیں کیا اور اس کے سامنے ایسا اخلاق پیش کیا کہ دنیائے انسانیت انگشت بدنداں ہے،اسی لئے جو بھی آپ کی شخصیت کو دیکھتا ہے ،وہی آپ سے متأثر ہوکر آپ کی تعریف کرنے لگتا ہے ۔
(چاہے وہ کسی بھی نژاد کا انسان ہو)انسانیت کے ناطہ علی کی تعریف کرتا نظر آتا ہے، چونکہ علی  کے سوا دنیائے انسانیت نے انسان کامل نہیں دیکھا۔
اب ہم عالمی پیمانہ پر علی  کے فضائل بیان کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دنیا کے دانشمندوں کی نظروں میں حضرت علی علیہ السلام کی کیا قدرو منزلت ہے؟

(شیعہ علماء اور دانشمندوں کی نظر میں)
١۔ دنیائے اسلام کے مشہور و معروف فلسفی''خواجہ نصیر الدین طوسی''فرماتے ہیں:۔حضرت علی تمام لوگوں سے کہیں زیادہ عالم و دانا تھے ، آپ زبر دست دور اندیشی کے مالک تھے اور ہمیشہ پیغمبرۖکے ساتھ رہا کرتے تھے،سب سے زیادہ عفو و بخشش کرنے والے تھے،حضور اکرمۖ کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ متقی ،عابد و فاضل تھے ،آپ  کا ایمان سب سے قوی تھا ،آپ کی رائے سب سے محکم تھی،قرآن کی حفاظت اور اس کے نفاذ میں سب سے زیادہ توجہ دیتے تھے ،آپ کی دوستی اور محبت واجب ہے اور مقام و منزلت کے اعتبار سے آپ رسول اکرم ۖ کے برابر ہیں،آپ  جودو سخا اورفیاضی کے سر چشمہ تھے اسی لئے تمام دانشوروں نے اپنے علم کو آپ سے ملایا ہے(تجریرالاعتقاد،مبحث پنجم)
٢۔اخلاق و انسانیت کے بہترین نمونہ،حافظ و مفسر قرآن''علامہ سید رضی اعلیٰ اللہ مقامہ''فرماتے ہیں:۔میں نے جو نہج البلا غہ کو جمع کیا تو صرف اس مقصد کے پیش نظر تھا کہ کلام و بلاغت میں امیر المومنین کے مقام کو اجا گر کروں ،اگر چہ آپ بے شمار نیکیوں اور فضیلتوں کے مالک تھے اور کمال کے آخری درجہ پر فائز تھے (نہج البلاغہ،مقدمہ)
٣۔علم و فن کے عظیم عالم اور عالم اسلام کی ایک نادر شخصیت ''شیخ بہا ء الدین عاملی''رقمطراز ہیں:۔علی ایسے جواں مرد تھے کہ آپ کی عظمت کے بارے میں جو کچھ بھی چاہو کہہ سکتے ہو ،بس وہ نہ کہو جو عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں کہا ہے ،آپ وہی تھے جنھیں پیغمبر اسلام ۖ نے حکم خدا کے تحت روز غدیر لوگوں کی امامت اور قیادت کے لئے معین فرمایا اور اس کی تاکید بھی کی ،آپ معززترین مخلوق اور مقدس ترین انسان تھے ،آپ حسب و نسب کے اعتبار سے پاکیزہ ترین تھے ،خاندان قریش کے دامن میں آپ نے پر ورش پائی ،آپ  کشتی نوح  کا راز، آتش کلیم کی شعاع اور تخت سلیمان کا بھید تھے(الغدیر:ج١١  ص:٢٤٨)
٤۔اسلامی دنیا کے عظیم ترین فلسفی و طبیب،علم منطق کے مجدّد''شیخ ابو علی سینا''فرماتے ہیں:۔''علی بین الناس کاالمعقول بین المحسوس''  یعنی علی  کی مثال انسانوں میں ویسے ہی تھی جیسے محسوس کے درمیان ایک معقول کی(حاشیہ شفا،معراج نامہ ابن سینا)
میرے خیال سے شیعوں کے نظریات یہی کافی ہیں ،میرا یہ ارادہ ہے کہ اہل سنت علما ء کے نظریات زیادہ بیان کئے جائیںاسی لئے...........

(اہل سنت علماء و دانشمندوں کے نظریات)
١۔شافعی مذہب کے امام''محمد بن ادریس شافعی''علی کے فضائل اس طرح بیان کرتے ہیں:۔
عَلِیّ     حُبّہ            جُنّة                           اِمَامُ النّاسِ   وَ  الجِنَّة
وصیُّ المُصطَفَیٰ       حَقّاََ                         قَسِیمُ النَّارِ   وَ  الجَنَّة
یعنی علی کی دوستی آتش دوزخ سے سپر ہے ،آپ جن و انس کے امام ہیں ،آپ محمد مصطفی ۖ کے حقیقی وصی و جانشین ہیں اور دوزخ و جنت کو تقسیم کرنے والے ہیں(دیوان شافعی،چاپ مصر،ص:٣٢)
٢۔ حنبلی مذہب کے امام''احمد بن حنبل شیبا نی''رقم طراز ہیں:۔علی  ابن ابی طالب  میں جتنے فضائل تھے اور کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ،رسول کے کسی بھی صحابی کے لئے اتنے فضائل نقل نہیں ہوئے(المراجعات:ص٢٨١،چاپ سوم)
٣۔اہل سنت کے شہرۂ آفاق عالم ،ادیب ،صاحب تفسیر کشاف''زمخشری صاحب''علی  کی مدحت ان الفاظ میں کرتے نظر آتے ہیں:۔میں ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس کے فضائل سے دشمنوں نے حسد و کینہ اور دشمنی کی وجہ سے انکار کیا اور ان کے دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے فضائل پر پردہ ڈالا،پھر بھی ان کے فضائل اتنے زیادہ پھیلے ہوئے ہیں کہ مشرق و مغرب کو گھیرے ہوئے ہیں(زندگانی امیر المومنین:ص٥)
٤۔اہل سنت کے مشہور و معروف تاریخ داں اور شہرۂ عالم شرح نہج البلاغہ کے شارح''جناب ابن ابی الحدید معتزلی''کچھہ اس طرح علی کے ثنا خواں ہیں:۔عالم بالا و فضائے ملکوت، وہی تربت پاک ہے جس نے آپ کے مقدس بدن کو آغوش میں لیا ہے ،اگر آپ  کے وجود میں آثار حدوث واضح نہ ہوتے تو میں یہ کہتا کہ آپ جسموں کو روح بخشنے والے اور زندہ موجودات کی جان لینے والے ہیں ،اگر طبیعی موت آپ کے وجود پر اثر انداز نہ ہوتی تو میں یہ کہتا کہ:آپ سب کو روزی دینے والے ہیںاورآپ ہی سب کو بخشنے والے ہیں (یہ آپ کی مرضی ہے کہ کسی کو زیادہ بخشیں اور کسی کو کم)بس میں تو یہی جانتا ہوں کہ اب اس میں کوئی چارۂ کار نہیں کہ آپ کے فرزند ''مہدی''تشریف لائیں اور تمام کائنات پر دین و عدل و انصاف کا پرچم لہرائیں ،میں اس دن کی تمنا اور آرزو میں ہوں کہ جب خالص و خالص عدل و انصاف کی حکومت قائم ہوگی(القصائد الشیخ العلوتات،ص:٤٣،طبع بیروت)
٥۔تفسیر مفاتیح الغیب کے مفسر،اشارات ابن سینا کے شارح،اور با کمال دانشور''جناب فخر رازی''علی  کا قصیدہ اس طرح پڑھتے نظر آتے ہیں:۔جو کوئی دین کے معاملے میں علی  ابن ابی طالب  کو اپنا امام تسلیم کرے ،بے شک وہ کامیاب ہے ،کیونکہ رسول اکرمۖ نے فرمایا ہے: خدا حق کو علی کے گرد گھمانا (جدھر علی جائیں ادھر ہی حق کو موڑ دینا)(تفسیر کبیر،فخر رازی،ج:١  ص:١١١، الغدیر،ج:٣   ص:١٧٩)
٦۔حنفی مذہب کے فقیہ ،حافظ اور مشہور خطیب''خطیب خوارزمی''علی کی مدحت اس طرح کرتے ہیں:۔کیا ابو تراب جیسا اور کوئی جوانمرد ہے؟کیا ان جیسا مقدس امام روئے زمین پر وجود رکھتا ہے؟جب کبھی میری آنکھوں میں درد ہوتا ہے تو اس کی شفا کے لئے وہ خاک'' تو تیا'' بنتی ہے جس پر آپ  کے قدم مبارک پڑے ہوں ۔
علی ، وہ ہیں جو راتوں کو محراب عبادت میںگریہ و زاری کرتے تھے اور دن ہنستے ہوئے میدان کارزار میں گم ہوجاتے تھے ،ان کے ہاتھ بیت المال کے درہم و دینار سے خالی تھے ۔
آپ وہی بت شکن تھے جنھوں نے دوش پیمبرۖ پر قدم رکھے ،تو گویا تمام لوگ چھلکے کی مانند ہیں اور ہمارے مولا علی مغزاور گودہ کی مثل ہیں (الغدیر،ج: ٤،ص:٣٨٥)
٧۔مصرکی فکری تحریک کے ایک علمبردار''شیخ محمد عبدہ''مولائے کائنات کی توصیف ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔....جب میں نہج البلاغہ کی چند عبارتوں کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کر رہا تھا ،تو میری نظروں کے سامنے ایسے مناظر آ جاتے تھے جو فصاحت و بلاغت کی طاقت کی کامیابی کے زندہ گواہ تھے ،اس میدان کارزار کا سورما ،جس نے اس کامیابی کے پرچم کو لہرا یا تھا ''امیر المومنین  ''کی ذات گرامی تھی۔
میں جب بھی اس کتاب کے مطالعہ کے دوران ایک فصل سے دوسری فصل تک پہونچتا تھا تو محسوس کرتا تھا کہ کلام و بیان کے پردے تبدیل ہو رہے ہیں ،کبھی خود کو ایسی دنیا میں پاتا تھا کہ جہاں معانی کی بلند و بالا ارواح عبارتوں کے تابناک زیورات سے مزین ،انھیں آباد کئے ہوئے ہیں ، اور کبھی یہ پاتا تھا کہ ایک نورانی عقل ،جو جسم و مادیات سے ،کسی قسم کی مشابہت نہیں رکھتی،عالم الوہیت جدا ہوکر ،انسانی روح سے پیوست ہو گئی ہے اور اسے طبیعت کے پردوں سے نکال کر ،عالم ملکوت میں پہونچاکرتخلیق کی شعاعوں کے عالم شہود سے ملحق کر رہی ہے (مقدمہ ، شرح نہج البلاغہ،عبدہ)
٨۔ایک مشہور ومعروف مصری عالم''محمد فرید وجدی''ذات علوی کے کچھ یوں ثنا گر ہیں:۔حضرت علی کی ذات گرامی میں ایسے صفات جمع تھے جو دوسرے خلفاء میں نہیں تھے ،آپ علم کی انتہا،بلند شجاعت اور درخشاں فصاحت کے مالک تھے ،یہ صفات آپ کی اخلاقی نیکیوں اور ذاتی شرافتوں کے ساتھ گھل مل چکے تھے،ایسی مثالیں انسان کامل کے علاوہ،کسی اور میں نہیں پائی جاتی ہیں(دائرة المعارف ، ج : ٦ ، ص :٩ ٥ ٦ )
٩۔ادبیات کے ایک مصری پروفیسر''نائل مرصفی''وصی رسول کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:۔خدا وند عالم نے ،نہج البلاغہ کو ایسی واضح دلیل قرار دیا ہے ،جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ بے شک علی نور،فلسفہ،علم ،رہنمائی اور قرآن کے اعجازو فصاحت کا ایک زندہ ٔ جاوید نمونہ ہیں علی کی اس کتاب میںاتنے قابل قدرو عاقلانہ اقوال ،صحیح سیاست کے قواعد،واضح نصیحتیںاور دلیلیں موجود ہیں کہ عظیم حکمائ،بے نظیر فلاسفہ، اور نامور خدا شناس بھی ایسا کام نہیں کر سکے ہیں،علی  اس کتاب میں علم ،سیاست اور دین کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے ہیں اور ان تمام مسائل میں ایک غیر معمولی ممتاز شخصیت کے حامل نظر آتے ہیں۔
اس کتاب کو علمی لحاظ سے پہچاننے کے بعد ،اگر آپ اس کے ادبی مقام و منزلت کو بھی پہچاننا چاہتے ہیں تو اس سلسلہ میں اتنا کہنا کا فی ہے کہ یہ بات ایک زبردست قلم کار ،بلیغ خطیب،اور عظیم شاعر کی قدرت و توانائی سے خارج ہے کہ وہ کما حقہ اس کی توصیف کر سکے،اور ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ آپ کی یہ کتاب ،تہذیب و تمدن کی زیبائی اور صحرا نشینوں کی فطری فصاحت کا سنگم ہے اور حق کی تنہا منزل مقصود ،جسے پانے کے بعد اطمینان کے ساتھ ،اس نے اپنا مسکن بنا لیا ،وہ آپ ہی کا کلام ہے(ما ھو نھج البلاغہ،علامہ شہرستانی،ص:٥)
١٠۔مصر کی ایک نامور علمی اور سماجی شخصیت''عباس بن محمود عقا د''علی کی توصیف ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔انسانی روح کے ہر گوشہ و کنار کا علی  ابن ابی طالب  کی زندگی سے واسطہ ہے ،کیونکہ تاریخ کی تمام عظیم شخصیتوں اور بہادروں کی زندگی میں صرف آپ کی زندگی ہے جو عالم انسانیت کو ہر پہلو سے اپنے بلیغ کلام کے ذریعہ مخاطب قرار دیتی ہے اور قوی ترین محبتیں ،نصیحت حاصل کرنے کے اسباب اور افکار و اندیشے جو پوری تاریخ بشریت میں ممکن ہے انسانی روح کو شعلہ ور کر سکیں ،آپ کی حیات کے صفحات میں موجود ہے ۔
فرزند ابو طالب  کی زندگی مہر و محبت اور شرف و منزلت سے بھر پور جزبات و احساسات سے سر شار ہے ،کیونکہ آپ خود بھی شہید ہیں اور شہیدوں کے باپ بھی ہیں ۔علی اور ان کی تاریخ سلسلۂ شہادت اور فتح وکامرانی کے طولانی میدانوں پر مشتمل ہے جو اس کے متلاشیوں کے لئے یکے بعد دیگرے نمایاں ہوتے جاتے ہیں کبھی عمر رسیدہ افراد کی شکل میں،جن کے چہروں پر بڑھاپے کاوقار اور سنجید گی نمایاںہے اور بے باک تلواروں نے ان کے جلال میں اضافہ کر دیا ہے اور کبھی جوانوں کی شکل میں جن کے ساتھ زمانہ نے جلدبازی کی اور ابھی وہ جوانی کی بہار میں تھے کہ ان کے اور ان کی زندگی کے درمیان حائل ہو گیا اور کبھی پانی پر بھی پابندی لگائی گئی اور تشنہ لبی کی حالت میں موت کے گھاٹ پر قدم رکھا اور نزدیک ہے کہ ان کی شہادت کے ساتھ ان کے خون سے طبیعت کے مظاہر لالہ گوں ہو جائیں(عبقریة الامام،ص:٣)

(غیر مسلم دانشوروں کے نظریات )
١۔مجلہ '' الھلال ''مصرکے مدیر اور زبردست تاریخ دان و اہل قلم''جرجی زیدان''داماد رسولۖ کی تعریف اس انداز سے کرتے ہیں:۔
کیا علی پیغمبرۖ کے چچیرے بھائی نہیں تھے؟کیا آپ متقی و پرہیز گار عالم اور عادل نہیں تھے ؟کیا وہ وہی با اخلاص و با غیرت شخص نہیں تھے جن کی شجاعت اور غیرت کی بدولت اسلام اور مسلمانوں نے عزت پائی؟(١٧،رمضان،ص:١١٦)
٢۔ایک مشہور و معروف انگلش فلسفی''ٹامس کارلایل''امیر کائنات کی خدمت میں کچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:۔جہاں تک علی  کا تعلق ہے تو اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ ہم ان سے الفت و محبت کریں کیونکہ وہ بلند پایہ اور عظیم انسان تھے،ان کے سر چشمۂ ضمیر سے نیکی اور مہرو محبت کے سیلاب پھوٹتے تھے ،ان کے دلوں سے شعلے بھڑکتے تھے،وہ غضبناک شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے ،لیکن ان کی شجاعت ،مہربانی ،محبت ،عنایت،کرم اورنرم دلی سے آمیختہ تھی۔
وہ کوفہ میں اچانک فریب اور دھوکہ کے تحت مارے گئے اوراس جرم کا سبب آپ کی شدت عدل و انصاف بنی کیونکہ وہ ہر ایک کو اپنا جیسا عا دل سمجھتے تھے ،جب ان کے قاتل کے بارے میں گفتگو چلی تو آپ نے اپنے بیٹوں سے فرمایا :اگر میں زندہ بچ گیا تو خود جانتا ہوں کہ کیا کروں گا اور اگر وفات پا گیا تو یہ امر تمھارے سپرد ہے ،اگر قصاص لینا چاہو تو ،تلوارکی ایک ضربت سے سزا دینا اور اگر بخش دوگے تو یہ بات تقویٰ کے قریب ہے (صوت العدالة،ج:٥     ص:١٢٢٩)
٣۔ایک عیسائی مفکر اور زبر دست مصنف''جبران خلیل جبران''علی کی مدح و ثنا اس طرح کرتے ہیں:۔میرے عقیدہ کے مطابق ،فرزند ابو طالب دنیائے عرب کے وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے تمام دنیا کی روح سے رابطہ قائم کیا اور اس کے ساتھ ہم نشین ہو ئے اور راتوں کو اس کے ہمدرد و ہمراز بنے ،آپ پہلے شخص تھے جن کے لبوں نے اس روح کے نغموں کی موسیقی کو ایسے لوگوں کے کانوں تک پہونچایا جو اس سے پہلے ایسے نغمے نہ سن پائے تھے ۔
اس بنا پر وہ آپ کے روشن بیانات کی راہوں اور اپنی سابقہ تاریکیوں کے درمیان سرگرداں ہوئے ، لہٰذا جو کوئی ان نغموں کا شیدا اور فریفتہ ہوا ،اس کی فرفتگی مطابق فطرت ہے اور جس نے ان سے دشمنی مول لی وہ ،جاہلیت کی اولاد میں سے ہے ۔
علی اپنی عظمت پر قربان ہوکر اس دنیا سے اس حالت میں گئے کہ نماز سے آپ کے لبہائے مبارک اور شوق پروردگارسے آپ کا دل لبریز تھا ، دنیائے عرب ،علی کے حقیقی مقام اور قدرو منزلت کو نہ پہچان سکی ، لیکن آپ  کی ہمسائیگی میں فارس کے کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے موتی اور کنکریوں میں فرق ظاہر کردیا ،علی نے ابھی پیغام کو مکمل طور پر دنیا تک نہیں پہونچایا تھا کہ عالم ملکوت کی طرف کوچ کر گئے ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ اس سے قبل کہ آپ اس عالم خاکی سے آنکھ بند کریں خوشی و مسرت کا تبسم آپ کے رخ پر نمودارتھا۔
علی کی موت،روشن ضمیر انبیاء کی موت جیسی تھی ،وہی انبیاء جو ایک شہر کی طرف مبعوث ہوتے تھے یا ایک ایسے زمانہ کے لوگوں میں زندگی بسر کرتے تھے جو ان کے لائق نہیںتھے،اور بے وطنی و تنہائی سے دچارہوجاتے تھے(صوت العدالة،ج:٥ ص:١٢٢٢)
  ٤۔ روس کے ایک تاریخ دان و مشرق شناس اور لینن گراڈ سرکاری یو نیورسٹی کے پرو فیسر''ایلیا پا ولویچ پطرو شفکی''علی  کے فضائل میں اس طرح زبان کھولتے ہیں:۔علی محمد ۖکے تربیت یافتہ اور شدت کے ساتھ رسول اکرمۖ اور اسلام کے وفادار تھے ،علی شوق اور عشق کی حد تک دین کے پابند تھے، صادق اور سچے تھے،اخلاقی امور میں بہت باریک بینی سے کام لیتے تھے،بہادر بھی تھے،اولیاء کے تمام صفات آپ کی ذات گرامی میں جمع تھے(علی و نبوة،ص:١٥٨،طبع مصر)
اختصار کے مد نظر اسی پر اکتفا کی جاتی ہے انشاء اللہ ''بقید حیات،، آئندہ بقیہ حضرات کے نظریات کو پیش کیا جائے گا،ہم اس بات سے اپنے مقالہ کو منزل اختتام تک پہانچاتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا ہے کہ اس طرح کی زندگی گذارو کہ ہر انسان تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے۔
خدا یا ہمیں بھی نقش علوی پر گامزن فرما(آمین)
والسلام:۔سید غافر حسن رضوی چھولسی(ہندی)

                                                                             قم المقدسہ (ایران)
 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords