جمعہ، 21 اگست، 2015

جنت البقیع کا تاریخی پس منظر: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

جنت البقیع کا تاریخی پس منظر
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
جنت البقیع کی مظلومیت کسی فرد بشر پر نہاں نہیں ہے بالخصوص ہر شیعہ بچہ اس بات سے آگاہ ہے کہ جنت البقیع میں رسول خداۖ کی پارۂ تن جناب فاطمہ زہرا کی قبر اطہر ہے اور آپ کی پائنتی چار ائمہ معصومین آرام فرما رہے ہیں جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:(١)امام حسن(دوسرے امام) (٢)امام زین العابدین(چوتھے امام) (٣)امام محمد باقر(پانچویں امام) (٤)امام جعفر صادق(چھٹے امام) یہ مقدس مقام وہابیوں کے شکنجہ میں آگیااور ان کے دستہای نجس کے ذریعہ منہدم ہوا، ہجری سال کے اعتبار سے یہ سانحہ٨شوال المکرم ١٣٤٤ہجری میں پیش آیا اور عیسوی اعتبارسے اس وقت جنوی کا مہینہ١٩٢٦عیسوی تھا۔ اس وقت وہابیوں کا سرغنہ ''عبدالعزیز بن مسعود'' تھا جو آل محمد ۖاور شیعیان آل محمدۖکی بابت نہایت متعصب تھا، اس کو یہ گوارا نہیں ہوا کہ اس مقدس مقام پر یہ ہستیاں آرام فرماتی رہیں اور ان کے شیعہ ان کی زیارت کو آتے رہیں، اس ملعون نے یہ بھی نہیں سوچا کہ بروز محشر رسول اسلامۖ کے سامنے کیا منھ لیکر جائے گا کہ ان کی پارۂ تن اور ان کی آنکھوں کے نور کے مزارات مقدسہ کو منہدم کردیا؟ گنبد تو بہت دور کی بات ہے، ان ہستیوں کے مزارات پر ایک سایہ بان بھی نہیں رہنے دیا!۔ یہاں تک کہ جو ضریح ان کی قبورمطہرہ پرنصب تھی اس کو بھی منہدم کردیا۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس مردود نے حضوراکرم ۖ کے والدین''جناب عبد اللہ اور جناب آمنہ '' کی قبروں کو بھی منہدم کردیا۔ ہجرت کے بعد یہ سب سے پہلا قبرستان تھا جو مدینہ میں مسلمانوں کا واحد قبرستان تھاجو آنحضرتۖ کے حکم کے تحت بنایا گیاتھا(مستدرک حاکم: ج١١،ص١٩٣)؛ مدینہ میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے وہاں کے لوگ اپنے مردوں کو ''بنی حرام'' اور ''بنی سالم'' نامی قبرستانوں میں دفن کرتے تھے اور بعض لوگ اپنے ہی گھروں میں دفن کردیا کرتے تھے(تاریخ حرم ائمہ بقیع:ص٦١)؛ دراصل عربی زبان میں ''بقیع'' کے معنی کانٹے دار درخت اورجھاڑجھنکاڑ کے ہیں، چونکہ یہ قبرستان بننے سے پہلے اس مقام پر جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے دار درختوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا، یہ محض ایک جنگل بیابان تھا۔ اس قبرستان کے منہدم کرنے سے وہابیوں کا مقصد زیارتگاہوں کا خاتمہ کرنا تھا، یہی سبب تھا کہ جنت البقیع کے علاوہ دوسرے قبرستان بھی منہدم کئے گئے یہاں تک کہ قبروں کے تکیے تک بھی ہٹا دیئے گئے، اس سازش میں انگریزی جاسوس ''ہمفرہ'' کا بہت بڑا کردار تھا، اگر ہمفرہ کی تفصیلات سے آگاہی درکار ہو تو ''خاطرات مستر ہمفر''نامی کتاب کا مطالعہ کریں۔ شیخ محمد عبد الوہاب کی منصوبہ بندی کچھ اس انداز سے تھی: (١)تمام مسلمانوں پر کفر کی تہمت لگانا اور ان کی جان اور ان کے اموال کو مباح قرار دینا (٢)بیت اللہ الحرام خانۂ کعبہ کومنہدم کرنا (٣)حکمِ خلیفہ کی مخالفت کرنا (٤)مکہ،مدینہ اوردیگر شہروں میں مقدس مقامات کے گنبد اور ان کی ضریحوں کو مسمارکرنا (٥)اسلامی مملکتوں میں دہشتگردی عام کرنا (٦)تحریف شدہ قرآن کی نشرواشاعت کرنا۔ جنت البقیع وہ واحد قبرستان ہے جس میںایک ہی جگہ چار ائمہ معصومین محوخواب ہیں(سفرنامہ مرزامحمد حسین فراہانی: ص٢٣٨)؛ ابن جبیراندلسی ١١٤٥ہجری کے سفرسے واپسی پر لکھتا ہے: ''مدینہ منورہ میںجنت البقیع نامی قبرستان کا روضہ بھی دیگر روضوں کی مانند گنبد،ضریح، روپورش، قندیل اورفانوس وغیرہ سے مزین ہے، اس قبرستان کی قبریں زمین سے بلند ہیں؛ اس روضہ کی ضریح کی تزئین، فنون عالم کا منھ بولتا شاہکار ہے؛ اس ضریح پر ایسے ایسے نقش ونگار ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں ''(رحلہ ابن جبیر: ص١٧٣)؛ محمدلبیب مصری١٣٢٧ہجری کے سفرکا منظرکچھ اس انداز سے رقم کرتا ہے: ''امام حسن کی ضریح مبارک، گنبد کے نیچے ہے؛ یہ ضریح دھات سے بنی ہوئی ہے؛ اس پر فارسی زبان کے اشعار کندہ ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اشعارعجمی شیعوں کی جانب سے رقم کئے گئے ہیں''۔ ان لوگوں کے پیش کئے ہوئے مناظر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدس مقام پر بہت زیادہ رونق تھی لیکن دشمن کی آنکھوں میں وہ نور اس طرح چبھنے لگا کہ اس کو منہدم کئے بغیر اس کے کلیجہ میں ٹھڈک نہیں پڑی۔ آج کا منظر دیکھتے ہیں تو بے تحاشہ آنسوئوں کی برسات ہونے لگتی ہے کیونکہ کسی امام کا حرم ایسا نہیں جیسا ان چار اماموں کا حرم ہے، ویران پڑا ہوا ہے، حد تو یہ ہے کہ وہابی کارندے اس مقام پر شیعوں کو دل کھول کر رونے بھی نہیں دیتے گویا بالکل کربلا کا منظر درپیش ہوتا ہے کہ اگر کوئی بچہ رونا چاہتا تھا تو اس کے طمانچے اور تازیانے لگائے جاتے تھے۔ پہلے تو قبرستان بقیع مختصر سے خطہ میں تھا لیکن ترقیات زمانہ کے ساتھ اس میں توسیع ہوئی اور دوسری جانب سے مسجدنبویۖ کو بھی توسیع دی گئی لہٰذا مسجدنبوی ۖاور جنت البقیع کے درمیان کا فاصلہ ختم ہوگیا اور حال حاضر میں یہ قبرستان مسجد نبوی ۖ کے صحن میں آچکا ہے۔ اس قبرستان میں سب سے پہلے حضوراکرمۖ کے جلیل القدر صحابی ''عثمان بن مظعون''٢ہجری میں دفن ہوئے(الاستیعاب: ابن عبد البر،ج١، ص٣٢٤۔ الاصابة: ابن حجر، ج٢، ص٢٤٠)؛ اس کے بعد جب بھی کسی مسلمان کی وفات ہوتی تھی اور اس کے دفن کا مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو حضوراکرمۖ فرماتے تھے: اس کو عثمان بن مظعون کے پاس دفن کردو(مستدرک حاکم۔ معجم کبیر طبرانی)؛ اسی طرح یہ قبرستان بہت وسیع ہوگیا اور تاریخی کتابوں کے اعتبار سے اس قبرستان میں دس ہزار سے زیادہ صحابہ کرام مدفون ہیں اور ان کے علاوہ تابعین، علماء اور صلحاء کی قبریں بھی بے شمار ہیں۔ جب خلیفۂ سوم ''عثمان ابن عفان'' کی وفات ہوئی تو حالات زمانہ ناسازگار تھے جس کے سبب ان کو جنت البقیع میں دفن نہیں ہونے دیا گیا اور خود انھیں کے خریدے ہوئے باغ ''حش کوکب'' میں دفن کیاگیا، جب معاویہ بن ابوسفیان کے ہاتھوں میں خلافت کی باگ ڈور آئی تو انھوں نے حش کوکب کی دیواریں توڑ ڈالیں اور اس باغ کو جنت البقیع سے ملادیا(تاکہ باہر والے بھی اندر جائیں، لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ حضوراکرم ۖنے اس بات کا سدّ باب اسی وقت کردیاتھا جب آپ کی زوجہ چادر تطہیر میں آنا چاہتی تھیں، آپ ۖنے فرمایا: ''اِنَّکِ عَلَیٰ  الْخَیْرِ'' بے شک تم خیر پر ہو لیکن چادر میں نہیں آسکتیں؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ باہر والوں کو اندر آنے کی اجازت نہیں ہے، چاہے آپ کتنا ہی اندر لاتے رہیں، باہر والا ہے تو باہر ہی رہے گا) یہ اس قبرستان کی پہلی توسیع تھی۔ ١٣٩٠ہجری میں اس قبرستان کو پختہ بنادیا گیا اور اس میں رفت وآمد کے راستوں کو بھی پختہ بنادیا گیا۔ بقیع کی فضیلت میں حضرت عائشہ کا قول ہے: ''جس رات میری باری ہوتی تھی تو رسول اسلامۖ رات کے آخری حصہ میں قبرستان بقیع میں جاتے تھے اور وہاں موجود لوگوں سے خطاب کرتے تھے: اے مومنین کرام! تم پر ہمارا سلام، تم تو سکون سے سوگئے اور بہترین مقام پر ہواوراگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی اس مقام پر آئیںگے ''(صحیح مسلم:ج١، ح٢٢٤٨)؛ حضوراکرمۖ نے اس عمل سے یہ سمجھانا چاہا ہے کہ اس مقام پر عظیم ہستیاں دفن ہیں، اس قبرستان کو معمولی مت سمجھنا! لیکن افسوس کہ اس قبرستان کے ساتھ کیسا سلوک کیاگیا!!!۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ مقدس بارگاہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں بلکہ اس میں وہ ہستیاں بھی مدفون ہیں جو اہلسنت کے نزدیک معتبر اور قابل احترام ہیں مثلاً: ازواج رسولۖ(امھات المومنین)، پیغمبرۖ کے چچا ''عباس'' آپ ۖکے والدین اور دس ہزار سے زیادہ آنحضرتۖ کے اصحاب وانصار، لیکن اس کے باوجود بھی امت مسلمہ خاموشی کا روزہ رکھے بیٹھی ہے اور وہابیت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے! آخرایسا کیوں؟ کیا ہمیں بروز محشر رسول اسلامۖ کے سامنے نہیں جانا ہے؟ جب رسول اسلامۖ یہ سوال کریں گے کہ جس قبرستان کا میں اتنا زیادہ احترام کرتا تھا، تم نے اس کے بارے میں کیا کیا؟ تو ہم کیا جواب دیں گے؟ کیا عربی ریال نے منھ بند کردیئے ہیں؟ کیا ہماری جیب اور ہمارا پیٹ اتنا زیادہ بھرچکا ہے کہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجائیں؟ جی نہیں! ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہابیت کے خلاف زبان کھولے، گاندھی جی کے بندر بننے سے کچھ ملنے والا نہیں ہے، اگر ائمہ اطہار کے احترام میں نہیں تو کم سے کم ان صحابہ کے احترام میں ہی سہی جن کو تاج سر بنائے ہوئے ہیں، زبان تو کھولیں؛ کیا صرف زبانی دعوے سے حق محبت ادا ہوجائے گا کہ ہم فلاں صحابی سے محبت کرتے ہیں، فلاں صحابی کو دوست رکھتے ہیں، فلاں صحابی قابل احترام ہیں؟ ایسا تو کچھ نہیں ہے، محبت ہے تو اس کا اظہار بھی ضروری ہے؛ چاہے وہ اظہار کسی بھی طریقہ سے ہو، زبان سے ہو یا قلم سے یا عمل سے، غرض یہ کہ محبت کی ہے تو اس کا اظہار ہونا چاہئے؛ صرف رسول اکرمۖ کی آنکھوں کے سرمہ کی تعریف اور آنحضرت ۖکی زلفوں کی مدح وثنا فائدہ نہیں دے گی بلکہ ان کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کے متعلقین سے بھی محبت کی جائے کیونکہ محبت کا ایک تقاضہ یہ بھی ہوتا ہے کہ محبوب سے متعلق اشیاء سے بھی محبت کی جائے۔ کیا حضور اکرمۖ اپنے اصحاب وانصار سے محبت نہیں کرتے تھے؟ ایسا تو کوئی کم عقل انسان ہی دعویٰ کرسکتا ہے!۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ آپۖ اپنے اصحاب سے محبت نہ کرتے ہوں! ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم حضوراکرمۖ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں تو اس بے پناہ محبت کا سب سے اہم تقاضہ یہ ہے کہ ان کے متعلقین سے بھی محبت کی جائے اور ان سے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کے ویران مزاروں کو آباد کرنے کی سعی کی جائے اور سکّوں کی کھنک ہمیں گمراہ نہ کرے!۔ اگر تمام امت مسلمہ ایک پلیٹ فارم پر آجائے تو صرف سعودی وہابیوں میں اتنی جرأت کہاں کہ پوری امت مسلمہ کا مقابلہ کرسکیں! اگر ہمارے درمیان اتحاد کی فضا قائم ہوجائے تو ہمارا دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ جب وہ تمام امت مسلمہ کی طاقت کو دیکھے گا تو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گا اورہم اصحاب کرام کے مزارات کی تعمیرمیں کامیابی حاصل کرسکیں گے اور جنت البقیع نامی قبرستان دوبارہ ویسے ہی آباد ہوجائے گا جیسے کہ گذشتہ زمانہ کی تاریخ گواہی دے رہی ہے، وہی رونق واپس آجائے گی جو سالوں پہلے موجود تھی لیکن اس کی بنیادی شرط امت مسلمہ کے دررمیان اتحادواتفاق کی فضا کا قائم ہونا ہے۔کیونکہ اتحاد کی طاقت نے ہرزمانے میںاپنا لوہامنوایا ہے، دنیا میں اتحادسے بڑی کوئی طاقت نہیں، قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اتحاد کی دعوت دی ہے جس میں سے سب سے آشکار نمونہ یہ آیت ہے:''اے صاحبان ایمان! خداوندعالم کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اورمتفرق نہ ہوجائو''۔ خداوندعالم کی جانب سے اتحادکی دعوت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ اتحادویکجہتی ایسی عظیم طاقت ہے جس کے سامنے ہرقسم کی طاقت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے چاہے وہ کتنی ہی سوپرپاور کیوں نہ ہو!۔ آخرکلام میں بارگاہ ایزدی میں دعاگو ہوں کہ پروردگارعالم! امت مسلمہ کو اتنی توفیق دے کہ تمام امت متحد ہوجائے اور اپنے دشمن سے مقابلہ کرکے جنت البقیع کو آزاد کرالے تاکہ بروز حشر رسول اسلامۖ اور اصحاب رسولۖ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ ''آمین'' ۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ''۔
منابع وماخذ: (١)صحیح: مسلم (٢)صحیح: بخاری (٣)سنن: ابن ماجہ (٤)مستدرک: حاکم (٥)سنن: ترمذی (٦)معجم کبیر: طبرانی (٧)الاستیعاب: ابن عبد البر (٨)الاصابة: ابن حجر ۔         

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords