جمعہ، 21 اگست، 2015

ماہ خدا میں کتاب خدا کی معلومات: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

ماہِ خدا میں کتابِ خدا کی معلومات

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

یوں تو آیات وروایات کے پیش نظر تعلیم اورمعلومات (Knowledge. General Knowledge)پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے لیکن ہرعام کے ساتھ ایک خاص بھی ہوتا ہے لہٰذا تعلیم کا حصول تو عام ہے لیکن کتاب خدا کی تعلیم اور اس سے متعلق معلومات ایسی خصوصیات کی حامل ہیں کہ جو خصوصیات کسی بھی تعلیم کو حاصل نہیں ہیں۔ ماہ رمضان المبارک میں قرآنی معلومات اس لئے بھی نہایت ضروری ہے کہ اس مقدس کتاب کا نزول اسی ماہ مبارک میں قرار پایاہے۔ قرآن کریم کے کچھ تقاضے ہیں کہ جن کو امت مسلمہ کی ہر فرد کو عملی جامہ پہنانا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ قرآن کریم کی اس شکایت کے زمرہ میں قرار پائیں: ''پروردگار! اس قوم نے مجھے فراموشی کی نذر کردیا'' یوں تو سالوں سال اس مبارک کتاب پر دھول جمتی رہتی ہے اور اگر وقت نکل پایاتو اس کی صفائی کرکے دوبارہ بالائے طاق رکھ دیا۔ کم سے کم اس مہینہ کی برکتوں کے ذریعہ ہی سہی،اس مقدس کتاب کی تلاوت اور اس کی تعلیمات پر غور کیا جائے، ان اشیاء پر غوروخوض کیا جائے جو اس مبارک کتاب میں بیان ہوئی ہیں۔ چونکہ اس کتاب کا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا کا ہرخشک وتر اس میں موجود ہے لہٰذا ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ اس کتاب میں غوروخوض کریںاورہرچیز کوعمیق نگاہ سے دیکھیں، اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ اپنی قوم کو قرآنی اشیاء سے آگاہ کیا جائے لہٰذایہ کوشش رہے گی کہ ایک مضمون کے ذریعہ لوگوں تک کافی معلومات پہونچ جائے۔
قرآنی معلومات:قرآن کریم کے کل سوروں کی تعداد١١٤ہے اور پورے قرآن کو ٣٠ پاروں میںتقسیم کیا گیا ہے۔پورے قرآن میں ایک سوچودہ بار ہی بسم اللہ آئی ہے باوجود اس کے کہ ایک سورہ(سورۂ برائت۔سورۂ توبہ) بسم اللہ سے خالی ہے! پھر کیسے ١١٤بار آئی؟ سورۂ نمل میں دوبار بسم اللہ آئی ہے، ایک تو آغاز میں اور ایک اس وقت جب جناب سلیمان پیغمبرنے ملک سبا کی ملکہ(بلقیس) کو خط لکھا توآپ نے اپنے خط کا آغاز اللہ کے نام سے کیاتھا۔ سورۂ الحمد کا دوسرا نام، سبع مثانی بھی ہے؛ اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں سات آیتیں ہیں اور یہ سورہ دوبار نازل ہوا ہے اسی لحاظ سے اس کو سبع مثانی کا نام دیا گیا کیونکہ عربی زبان میں سبع کا مطلب ہوتا ہے''سات'' اور مثانی کا مطلب ہوتا ہے ''دوبار''؛ اس سورہ کو امّ القرآن یعنی قرآن کی ماں سے بھی تعبیر کیاگیاہے۔ سورۂ قل ھواللہ کو سورۂ توحید بھی کہاجاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اس سورہ کی تمام آیات خداوندعالم کی وحدانیت کا منھ بولتا شاہکار ہیں۔سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٥٥ کو آیۂ ولایت کہاجاتا ہے کیونکہ اس آیت میں خداوندمنان نے ولایت خداورسولۖ اور ایسے صاحبان ایمان کی ولایت کا ذکر فرمایا ہے جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں۔ سورۂ احزاب کی آیت نمبر٣٣ کو آیۂ تطہیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس آیت کے آخری حصہ میں خداوند عالم نے اہلبیت اطہار کی طہارت کی ذمہ داری لی ہے۔ سورۂ احزاب کی آیت نمبر٥٦ کو آیۂ صلوات کا نام سے تعبیرکیا جاتا ہے کیونکہ اس آیت میں خداوندعالم فرماتا ہے: ''بے شک خداوندعالم اور اس کے ملائکہ نبی پاکۖ پر درودبھیجتے ہیں، اے صاحبان ایمان! تم بھی ان پر درودوسلام بھیجو''۔ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر٦١ کو آیۂ مباہلہ کا نام دیاگیا ہے کیونکہ اس آیت میں خداوندعالم نے اپنے پیارے حبیبۖ کا وہ قول نقل فرمایا ہے جس میں آپۖ نے نصاریٰ نجران سے یہ کہاتھا کہ تم اپنے بیٹوں کو لائوہم اپنے بیٹوں کو لائیں، تم اپنی عورتوں کو لائوہم اپنی خواتین کو لائیں، تم اپنے نفسوں کو لائوہم اپنے نفسوں کو لائیں اور پھر مباہلہ کرتے ہوئے جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر٢٠٧، یہ آیت شب ہجرت میں نازل ہوئی،یہ آیت اس مطلب کی عکاسی کرتی ہے کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مرضی رب کے عوض اپنے نفس کو بیچ دیتے ہیں اورخداوندعالم اپنے بندوں کی بابت نہایت مہربان ہے۔ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٣ کو آیۂ اکمال دین اور اتمام النعمة کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس آیت کے آخری حصہ میں خداوندعالم نے دین اسلام کو اکمال واتمام کی سند کچھ اس انداز سے دی ہے: ''...آج تمہارے دین سے کفار مایوس ہوگئے لہٰذا کسی قسم کے خوف کی ضرورت نہیں ہے؛ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور میں تمہارے لئے اسلام نامی دین سے راضی ہوگیا...''۔ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٦٧ کو آیۂ تبلیغ (آیۂ بلّغ)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں خداوندعالم اپنے حبیبۖ سے ارشاد فرماتاہے: ''اے رسولۖ! وہ پیغام پہونچادیجئے جو آپ پر پہلے سے ہی نازل کیاجاچکاہے اور اگر وہ پیغام نہیں پہونچایاتو گویا کوئی کار رسالت انجام نہیں دیا اورخداوندعالم آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا،بے شک خدا کفارکی ہدایت نہیں کرتا''۔ یوں تو مولائے کائنات کی شان میں تین سو سے زیادہ آیات نازل ہوئی ہیں لیکن وہ آیات جن پر فریقین(شیعہ وسنی) کا اتفاق ہے ان کی تعداد٢٥ہے۔ فریقین کے اتفاق کے مطابق قرآن مجید کی٤آیتیں ولایت مولائے کائنات کو ثابت کرتی ہیں: (١)سورۂ نسائ٥٩(آیۂ اطاعت)؛ (٢)سورۂ مائدہ٥٥(آیۂ ولایت)؛ (٣)سورۂ مائدہ٦٧(آیۂ بلّغ یا آیۂ تبلیغ)؛ (٤)سورۂ توبہ١١٩(آیۂ صداقت یا آیۂ صادقین) جس میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے: ''اے صاحبان ایمان! تقویٰ اختیار کرو اور صادقین کے ساتھ ہوجائو ''۔ سورۂ ناس اور سورۂ فلق، دونوں سوروں کو ملاکر، معوذتین سے تعبیر کیاجاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم شیطان سے خداوندعالم کی پناہ طلب کرتے ہیں؛ چونکہ یہ دونوں سورے اسی موضوع سے مخصوص ہیں لہٰذا ان کو معوذتین کا نام دے دیا گیا۔ قرآن کریم کا سب سے مختصر سورہ،سورۂ کوثر ہے کیونکہ اس سورہ میں صرف تین آیتیں ہیں اور یہ سورہ متکبرین فصحاء پر اتنا بھاری پڑا کہ وہ منھ کی کھاکے رہ گئے اور جب اس سورہ کا جواب مانگا گیا تو اس میں ایک مصرعہ کا اوربھی اضافہ کردیا کہ ''ماھذا بکلام البشر''یہ کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ اس سے تو خالق بشر کی جھلک آرہی ہے۔ قرآن کریم کا سب سے بڑا سورہ''سورۂ بقرہ''ہے، اس سورہ کی ابتدا ''الم''سے ہوتی ہے یعنی سورۂ الحمد کے بعد شروع ہوتا ہے اور تیسرے پارہ میں پہونچکر ختم ہوتا ہے، اس کی کل آیات٢٨٦ ہیں؛ قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت بھی اسی سورہ میں ہے جوعثمان طہٰ کی اشاعت کے اعتبار سے پورے ایک صفحہ میں تمام ہوتی ہے، اس آیت کا نمبر٢٨٢ ہے۔ سورۂ یٰس کو قلب قرآن(قرآن کادل)کہا جاتاہے،یہاں ایک سوال سراٹھاسکتا ہے کہ دل تو جاندار اشیاء سے مخصوص ہے اور کتاب خدا بے جان ہے تو اس کو دل کی کیا ضرورت؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ بظاہر قرآن بے جان نظرآتا ہے لیکن یہ ایسی مقدس کتاب ہے کہ ہرزمانے کے لوگوں سے مخاطب ہے اور خطاب کرنے والی شئے بے جان نہیں ہوتی۔ سورۂ رحمن کو عروس القرآن(قرآن کی دلہن)کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسی سجاوٹ اور خوبصورتی اس سورہ میں پائی جاتی ہے وہ کسی دوسرے سورہ میں نہیں پائی جاتی لہٰذا اس کو قرآن کی دلہن کا نام دیا گیا۔ سورۂ یوسف کو احسن القصص(قصوں میں بہترین قصّہ) کے نام سے پہچانا جاتا ہے، یوں تو قرآن کریم میں بہت سی داستانیں بیان ہوئی ہیں لیکن جو چاشنی اس سورہ میں پائی جاتی ہے اورجس قدر لطف سے بھرپور جناب یوسف کی داستان ہے، اتنی دلکش کوئی داستان نہیں ہے۔ پورے قرآن میں سب سے چھوٹی آیت سورہ رحمن کی آیت نمبر٦٤(مُدْھَامَّتَانْ)ہے، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یٰس، الم، ص،ق،ن وغیرہ بھی تو آیتیں ہیں، پھر سب سے چھوٹی آیت وہ کیسے ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو آیت نہیں کہا جاتا بلکہ ان کو حروف مقطعات کے نام سے جانا جاتا ہے۔قرآن کریم میں پینے والی اشیاء میں سے سب سے بہترین چیز''دودھ'' کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ سورۂ محمدکی آیت نمبر١٥ میں ارشاد ہوتاہے: ''...جنت میں دودھ کی نہریں جاری ہیں...''۔ کھانے والی اشیاء میں سب سے بہترین غذا''شہد'' کوقراردیا گیا ہے اور اس کو بہترین غذا سے تعبیرکیاگیاہے، اسی سورہ(سورۂ محمد١٥) میں جہاں دودھ کی نہروں کا تذکرہ ہوا ہے وہیں شہد کی نہروں کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔قرآن کریم کے مطابق سب سے بہترین شب،شبِ قدر ہے، سورۂ قدرمیں اس شب کوہزارراتوں سے افضل قرار دیاگیا ہے اسی لئے اس شب کے مخصوص اعمال بیان ہوئے ہیں۔قرآن کریم میں سب سے بہترین مہینہ، ماہ رمضان المبارک کو قراردیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ خداوندعالم نے اپنی پاک وپاکیزہ کتاب قرآن کریم کو اس مبارک مہینہ کی شب قدر میں نازل فرمایا۔ قرآن کریم میں سب سے بڑے جانور(ہاتھی)کے نام پربھی سورہ ہے جس کو سورۂ فیل کہتے ہیں، اس سورہ میں قدرت خدا کی جلوہ نمائی ہے، خداوندعالم نے چھوٹے چھوٹے پرندوں(ابابیل) کے ذریعہ ابرہہ کے لشکر کی نابودی کا تذکرہ کیاہے کیونکہ ابرہہ ہاتھی کا لشکر لیکر خانۂ کعبہ کو مسمار کرنے آیا تھا اور اس کو خدا کی جانب سے ایساجواب ملا کہ خاکسترہوکر رہ گیا۔اس مبارک کتاب میں سب سے چھوٹے جانور(چیونٹی)کے نام پربھی سورہ ہے جس کو سورہ نمل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس سورہ میں جناب سلیمان پیغمبرکاتذکرہ ہے، اس سورہ کو چیونٹی کے نام سے یوں موسوم کیا گیا کیونکہ اس سورہ میں جناب سلیمان کی اس گفتگو کا تذکرہ ہے جو آپ نے چیونٹی سے کی تھی۔ اس مبارک کتاب میں ادنیٰ سے جانور''مچھر'' کا بھی ذکر ہے جو نمرود کے لئے عذاب بن کر رہ گیا اور اس کو شب وروز جوتے کھلوائے۔ سورہ ٔتوحید کو قرآن کریم کا ایک سوّم حصہ کہاجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ روایات کے مطابق اگر کسی نے تین بار سورۂ توحید کی تلاوت کی اس کو پورے قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب حاصل ہوگا۔ پورے قرآن میں پانچ سورے ''الحمدللہ''سے شروع ہوتے ہیں:(١)سورہ ٔحمد(٢)سورۂ انعام(٣)سورۂ کہف(٤)سورۂ سبا(٥)سورۂ فاطر۔ قرآن میں تین سورے صرف ایک لفظ کے ذریعہ شروع ہوتے ہیں:(١)سورۂ صاد(ص)(٢)سورۂ قاف(ق)(٣)سورۂ نون (نون)۔ قرآن کریم میں چار سوروں کی ابتدا لفظ''انّا''کے ذریعہ ہوتی ہے: (١)سورۂ فتح (٢)سورۂ نوح (٣)سورۂ قدر (٤)سورۂ کوثر۔ سورۂ صف کی آیات کی تعداد١٤ہے یعنی ان کی تعدادمعصومین کی تعدادکے مطابق ہے۔ قرآن کریم کے١١٤ سوروں میں سے ٨٦سورے مکّی ہیں اور٢٨سورے مدنی ہیں،البتہ کچھ سورے ایسے ہیں جو مکی بھی ہیں مدنی بھی ہیں جن میں سے ایک سورہ سورۂ حمد ہے جو دوبار نازل ہوا، ایک بار مکہ میں اور ایک بار مدینہ میں اسی وجہ سے اس کو سبع مثانی کہا گیا۔ اس مقدس کتاب میں ایک سورہ ایسا بھی ہے جو حضوراکرمۖ کے خاندان کے نام پر ہے، اس سورہ کا نام سورۂ قریش ہے۔ سورۂ مجادلہ ہی وہ واحد سورہ ہے جس کی ہر آیت میں لفظ''اللہ''کا ذکرہوا ہے،البتہ سورۂ حج میںلفظ ''اللہ'' صرف پانچ بار آیا ہے۔ قرآن کریم میں صرف ایک سورہ ایسا ہے جو جنگ کے نام سے موسوم ہے اور اس سورہ کا نام ''سورۂ احزاب''ہے۔ قرآن کریم میں ایک سورہ خدا کے پیارے حبیب پیغمبراسلامۖ کے نام سے موسوم ہے جس کو سورۂ محمد کہاجاتا ہے۔ اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ قرآن کریم میں علم نجوم سے متعلق کوئی گفتگو نہیں ہوئی تو سورۂ نجم اور سورۂ شمس بڑھ کر آواز دیں گے کہ ہم موجود ہیں۔ اگر دھات کا تذکرہ ہوگا تو سورۂ حدید نظرآئے گا۔ قرآن کریم کے ٢٩سورے حروف مقطعات سے شروع ہوتے ہیں۔ اس مقدس کتاب کے دوسورے تبارک الذی سے شروع ہوتے ہیں:(١)سورۂ ملک(٢)سورۂ فرقان۔ مکّی سورے صرف ١٣سال کے عرصہ میں نازل ہوئے ہیں اور مدنی سوروں کے نزول کی مدت ١٠سال ہے۔ سورۂ توحید کی ہر آیت لفظ''دال''پر ختم ہوتی ہے۔ سورۂ کوثر کی ہر آیت لفظ ''رائ''پر ختم ہوتی ہے۔ پورے قرآن میں خداکے پیارے حبیب کا اسم گرامی(احمد) صرف ایک جگہ سورۂ صف کی آیت نمبر٦ میں آیا ہے جب کہ آپۖ کا اسم گرامی(محمد) چار جگہ استعمال ہوا ہے:(١)سورۂ آل عمران١٤٤ (٢)سورۂ احزاب٤٠ (٣)سورۂ محمد٢ (٤)سورۂ فتح١٩۔سورۂ فجر کو سورۂ امام حسین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جناب آدم کا نام قرآن میں ٢٥بار آیا ہے۔ جناب نوح کا نام٤٣بار استعمال ہوا ہے۔ جناب ابراہیم کا نام ٦٣بار آیا ہے ۔ جناب یعقوب کا نام١٦بار آیا ہے۔جناب موسیٰ کا نام ١٣١باراستعمال ہوا ہے۔ فرعون کا نام ٦٧بارآیا ہے۔ جناب یوسف کا نام٢٦بار استعمال ہوا ہے۔ جناب لوط کا نام ٢٧بار آیا ہے۔ جناب ہود کا نام ١٠بار آیا ہے۔ جناب ہارون کا نام٢٠بار استعمال ہوا ہے۔ جناب یونس کانام ٤بار آیا ہے۔ جناب ایوب کا نام ٤بار آیا ہے۔ جناب اسحاق کا نام ١٦بار استعمال ہوا ہے۔جناب سلیمان کا نام ١٦بار آیا ہے۔ جناب اسماعیل کا نام١٢بار آیا ہے۔قرآن کریم میں تین شہروں کا ذکرہے: (١)مکہ(٢)مدینہ(٣)بابل۔ قرآن میں ملک مصر کا نام ٥بار آیا ہے۔ قرآن میں لفظ ''اَلصَّلَاةْ''  ٦٣بار آیا ہے، جس کے معنی ہوتے ہیں نماز یا دعا،اور مجموعی طور پر نماز کاذکر ٩٠بار ہے۔ قرآن کریم میں٢٧انبیاء الٰہی کے اسماء آئے ہیں جن کوقیدتحریرمیں لانے سے مضمون کا اختصارمانع ہے۔ قرآن مجید میں لفظ ''اللہ'' ٢٦٩٩بار اور لفظ ''امام'' ١٢بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ''الحمد''٢٣بار آیا ہے اور حمد کو اضافات کے ساتھ دیکھا جائے تو ٢٩بار استعمال ہوا ہے۔قرآن میں دعا کی تاکید٤مقامات پرآئی ہے: (١)سورۂ بقرہ١٨٦،(٢)سورۂ غافر٦٠،(٣)سورۂ نمل٦٢،(٤)سورۂ فرقان٧٧۔ نماز کی تاکید٩بار اور روزہ کی تاکید٣مرتبہ آئی ہے۔ حج کا تذکرہ ٤١مرتبہ ہے۔ پورے قرآن میں لفظ ''سلام''٣٣مرتبہ آیا ہے البتہ لفظ''سلاماً''٨بار آیا ہے؛ اگر ان دونوں کو ایک جگہ ملاکر حساب کیا جائے تو ٣١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔پورے قرآن میں لفظ ''اسلام''٦مرتبہ آیاہے البتہ اگر اضافت کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں ٢بار کا اور اضافہ ہوجائے گا یعنی کل ٨بار۔ مُسْلِمَیْنِ، صرف ایک بارسورۂ بقرہ آیت نمبر١٢٨ میں آیا ہے۔ مُسْلِمُوْنَ، ١٥مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ مُسْلِمِیْنَ، ٢١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔مُسْلِمَة، صرف ایک بار سورۂ بقرہ آیت نمبر١٢٨۔ پورے قرآن میں لفظ''مُسْلِمَات'' صرف ٢بارآیا ہے:(١)سورۂ احزاب٣٥ (٢)سورۂ تحریم٥۔قرآن پاک کے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر٦١میں ٣سبزیوں کا تذکرہ ہوا ہے: (١)ککڑی یاکھیرا(٢)لہسن(٣)پیاز؛ اگرچہ بعض لوگ چارسبزیوں کے قائل ہیں اور وہ چوتھی سبزی(ساگ)بتاتے ہیں جب کہ اس آیت میں لفظ''بَقَلِہَا''  استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے''سبزیاں''  اور سبزی میں ہرقسم کی سبزی آجائے گی چاہے وہ ساگ ہو یا آلو یا ٹماٹر وغیرہ ۔ پورے قرآن میں صرف ایک دال کا تذکرہ ہوا ہے جس کو''مسور کی دال''کے نام سے جانا جاتاہے، اس کا تذکرہ بھی سورۂ بقرہ کی آیت نمبر٦١میں ہوا ہے۔ پورے قرآن میں چارمقامات پر واجب سجدے بیان ہوئے ہیں یعنی اگر وہ آیت پڑھ لی جائے تو سجدہ واجب ہوجاتا ہے، ان چار سوروں کو ''عزائم''کے نام سے یاد کیاجاتا ہے: (١)سورۂ سجدہ،آیت نمبر١٥؛(٢)سورۂ فصلت،آیت نمبر٣٧؛ (٣)سورۂ نجم،آیت نمبر٦٢؛ (٤)سورۂ علق،آیت نمبر١٩۔
پورے قرآن میں لفظ ''دین'' صرف ایک بار آیا ہے، البتہ اگر اس کے اضافات (مثلاً:دیناً،دینکم وغیرہ)کو پیش نظر رکھا جائے تو ٢٩بار استعمال ہوا ہے۔ پورے قرآن میں لفظ ''الدُّنیا''کل ١١١بار آیا ہے؛ ممکن ہے کہ سوال کیا جائے: دین کا ذکراتناکم اور دنیا کا تذکرہ اتنا زیادہ کیوں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ بنانے سے زیادہ بگاڑنے والی چیز پر توجہ دی جاتی ہے، کیونکہ دین اسلام انسان کو سیدھی راہ دکھاکر نیک انسان بناتا ہے اور دنیا اس کو گمراہ کرتی ہے لہٰذا دین کا تذکرہ کم ہوا اور دنیا کا تذکرہ زیادہ ہوا تاکہ بندگان الٰہی اس حقیقت کو سمجھ سکیں۔ قرآن کریم میں لفظ ''دعا''پورے اضافات کے ساتھ ١٩بار استعمال ہوا ہے، یہ تعداد صرف اسی لفظ کی ہے جودعا یا پکارنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، حالانکہ اس مادّہ سے دوسرے الفاظ دوسرے معانی میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ پورے قرآن میں لفظ ''دار''اپنے تمام اضافات کے ساتھ ٣١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں لفظ ''دہر''صرف٢مقامات پر آیا ہے: (١)سورۂ جاثیہ٢٤(٢)سورۂ انسان١۔ قرآن میں لفظ''دیار''اپنے اضافات کے ساتھ ١٧مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ پورے قرآن میں لفظ ''ذرّیّت''١٠بار آیا ہے لیکن اگر اس کے اضافات کو دیکھا جائے تو اضافات کے ساتھ ٢٠مرتبہ اورمقامات پربھی استعمال ہواہے یعنی اگر کل تعداد پر نظر کی جائے تو ٣٠مرتبہ آیا ہے۔ قرآن میں لفظ ''ذِکر''٤٩بارآیا ہے البتہ اگر اضافات کو دیکھا جائے تو بہت زیادہ استعمال ہوا ہے،اختصارکے پیش نظر غض بصر کرتے ہیں۔ لفظ ''انسان'' پورے قرآن میں٦٣بار آیا ہے، اگر اس کو یوں تعبیر کیا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ رسول اسلامۖ کی زندگی کے سال کی تعداد بھی یہی ہے اور لفظ انسان کی تعداد بھی یہی ہے یعنی آنحضرتۖ انسان کامل تھے۔ اگر لفظ ''اہل'' کو اس کے اضافات سے غض نظرکرتے ہوئے دیکھا جائے توپورے قرآن میں کل ٥٢باراستعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں صرف لفظ ''شہید'' ١٥بار استعمال ہوا ہے لیکن اس کے مشتقات سے غض نظرکرتے ہوئے۔ پورے قرآن میں لفظ''شیعہ''اپنے تمام مشتقات کے ساتھ کل ٩بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں لفظ ''سُنّت''، مشتقات سے غض بصر کرتے ہوئے کل ٩بار آیا ہے۔ جناب عیسیٰ کا نام پورے قرآن میں ٢٥بار آیا ہے۔ جناب یسع کا نام پورے قرآن میں صرف دو بار آیا ہے: (١)سورۂ انعام٨٦ (٢)سورۂ ص٤٨۔ لفظ ''یثرب''پورے قرآن میں صرف ایک بار آیاہے، سورۂ احزاب آیت١٣۔ لفظ ''یتیم''اپنے اضافات (یتامیٰ وغیرہ) کے ساتھ کل ٢٢مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں زکات کا تذکرہ ٣٢مقامات پر ہوا ہے جب کہ مادّۂ خمس اپنے مشتقات کے ساتھ صرف٨باراستعمال ہوا ہے۔ لفظ ''خیرات'' ١٠بار استعمال ہوا ہے۔  جناب زکریا کا نام قرآن میں صرف ٦بارآیا ہے۔ جناب مریم کا نام پورے قرآن میں ٣١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں جناب عمران کا نام صرف تین بار آیا ہے: (١)سورۂ آل عمران٣٣ (٢)سورۂ آل عمران٣٥ (٣)سورۂ تحریم١٢۔ مشتقات سے غض نظر کرتے ہوئے لفظ ''العِلم'' پورے قرآن میں ٧٩مرتبہ استعمال ہوا ہے، اگر مشتقات(علمہا،علمی، علمہم وغیرہ) کو دیکھا جائے تو اس تعداد میں ٢٣عدد کا اور اضافہ ہوجائے گایعنی کل ١٠٢مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ پورے قرآن میں صرف ایک کتے کا نام آیا ہے جو اصحاب کہف کا کتا تھا اور اس کو''قطمیر''کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قرآن میں ٤مسجدوں کے نام آئے ہیں: (١)مسجد حرام (٢)مسجد اقصیٰ (٣)مسجد قُبا (٤)مسجد ضرار۔ قرآن کریم میں٤پہاڑوں کے نام آئے ہیں: (١)کوہ طور (٢)کوہ جودی (٣)کوہ صفا (٤)کوہ مروہ۔ اس مقدس کتاب میں ٤دھاتوں کا تذکرہ ہوا ہے: (١)سونا (٢)چاندی (٣)تانبہ (٤)لوہا۔ اس پاک وپاکیزہ کتاب میں تین درختوں کے نام آئے ہیں: (١)کھجور (٢)زیتون (٣)بیری۔ قرآن کریم میں چار پرندوں کے نام آئے ہیں: (١)ہدہد (٢)ابابیل (٣)کوّا (٤)تیتر۔ قرآن کے مطابق: زمین کی ایک چوتھائی آبادی اس وقت ختم ہوگئی جب قابیل نے جناب ہابیل کا قتل کیا، کیونکہ اس وقت زمین پر صرف چار ہی لوگ تھے: (١)ابوالبشرحضرت آدم (٢)جناب حوا(جناب آدم کی بیوی)(٣)جناب ہابیل (٤)قابیل۔جناب آدم کا لقب ''ابو البشر''ہے کیونکہ آپ تمام لوگوں کے باپ ہیں۔ہابیل اور قابیل میں سے قاتل کون تھا؟ اگر یہ یاد رکھنے میں مشکل ہو تو لفظ''ق''کو یاد رکھیں، قاف سے قاتل،قاف سے قابیل۔ جناب آدم کے تیسرے بیٹے ''جناب شیث ھبة اللہ'' کا نام قرآن میں نہیں آیا، اسی طرح جناب آدم کی بیوی''جناب حوا'' کا نام بھی نہیں آیابلکہ صرف ان کا تذکرہ ہوا ہے۔ جناب یحییٰ کا نام قرآن کریم میں ٥بار آیا ہے۔ جناب ذالنون کا نام قرآن کریم میں٤بارآیا ہے۔ لفظ ''شیطان''پورے قرآن میں٧٠بار آیا ہے۔ لفظ ''شیاطین''١٨باراور لفظ ''ابلیس''١١مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ جناب لقمان حکیم کا نام قرآن میں٢بار آیا ہے۔ قوم بنی اسرائیل کی جانب ٤١بار اشارہ ہوا ہے۔ وہ بت جن کے نام قرآن کریم میں آئے ہیں ان کی تعداد٦عدد ہے اور ان کے نام یہ ہیں: (١)عجل (٢)عزیٰ (٣)لات (٤)مناة (٥)ود (٦)یعوق۔ وہ ظالم وستمگرافراد جن کا قرآن نے تذکرہ کیا ہے ان کی تعداد٧عدد ہے اور ان کے نام کچھ اس طرح ہیں: (١)فرعون (٢)نمرود (٣)قارون (٤)سامری (٥)جالوت (٦)ابولہب (٧)ہامان۔ قرآن مجید کے وہ سورے جو جانوروں کے نام سے موسوم ہیں وہ ٥عدد ہیں اوران کے نام یہ ہیں: (١)بقرہ (٢)نمل (٣)نحل (٤)عنکبوت(٥)فیل۔ انبیاء الٰہی کے ناموں پر قرآن میں ٧سورے آئے ہیں: (١)سورۂ ابراہیم(٢)سورۂ یوسف (٣) سورۂ نوح (٤)سورۂ ہود (٥)سورۂ محمد(٦)سورۂ یونس (٧)سورۂ لقمان، البتہ جناب لقمان کا موضوع اختلافی ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں۔ خداکے پیارے حبیبۖ کے القاب سے موسوم قرآن میں ٤سورے ہیں: (١)سورۂ طہٰ(٢)سورۂ یٰس(٣)سورۂ مزمل (٤)سورۂ مدثر۔ پورے قرآن میں صرف ایک سورہ ایسا ہے جو کسی خاتون کے نام سے موسوم ہے اور اس سورہ کا نام ''سورۂ مریم''ہے۔ قرآن مجید کے تین سورے آسمانی اشیاء کے ناموں سے موسوم ہیں: (١)سورۂ نجم (٢)سورۂ قمر (٣)سورۂ شمس۔ قرآن کریم میں چھ قبیلوں کا تذکرہ ہوا ہے: (١)قریش (٢)عاد (٣)ثمود (٤)الأیکة (٥)مدین (٦)رسّ۔جبرئیل کا نام قرآن میں ٣بارآیا ہے۔ قرآن میں پانچ فرشتوں کے نام ذکر ہوئے ہیں: (١)جبرئیل (٢)ہاروت (٣)ماروت (٤)میکال (٥)مالک۔ قرآن کے مطابق وہ زمین جس پر صرف ایک بار سورج کی کرنیں پڑیں وہ دریائے نیل کی زمین ہے، یہ کرنیں اس وقت پڑیں جب بحکم خداوندی دریائے نیل کاپانی جناب موسیٰ کے عصا کے ذریعہ چند حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔ اصحاب کہف کی نیند٣٠٩سال تک رہی۔ قرآن میں تین چشموں کا تذکرہ ہوا ہے: (١)کوثر (٢)تسنیم (٣)سلسبیل۔ قرآن میں دو دریائوں کے نام آئے ہیں: (١)دریائے نیل (٢)دریائے فرات۔ جناب نوح کا وہ بیٹا جو عذاب الٰہی کا شکار بنا اس کا نام ''کنعان''تھا۔ سورۂ بقرہ کی آیت٤٣ میں نماز جماعت کی جانب اشارہ ہے۔ سورۂ حجر کی آیت ٢٢ میں قرآن کریم کا سب سے بڑا لفظ ''فأسقینٰکموہ''ہے ۔ فقط سورۂ مرسلات ہی وہ واحد سورہ ہے جو ایک ہی وقت میں ایک ساتھ مکمل طور پر نازل ہوا۔ سورۂ تکویر ایسا سورہ ہے جس کے حروف کی تعداد قرآنی سوروں کے برابریعنی١١٤ ہے۔ سورۂ نور کی آیت نمبر٣١ حجاب(پردہ) سے متعلق ہے۔ قرآن کے مطابق: دلوں کے اطمینان کا علاج،یاد خدا میں مضمرہے۔ قرآن کریم میںجناب موسیٰ کا نام دیگر پیغمبروں سے زیادہ استعمال ہواہے یعنی ان کا نام تمام پیغمبروں سے زیادہ آیا ہے۔ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٣ حضوراکرۖم پر نازل ہونے والی سب سے آخری آیت ہے جس میں جانشین رسول ۖکے انتخاب کا حکم ہے۔ سورۂ حمد ایسا سورہ ہے جس کے ١٠نام ہیں۔ سورۂ محمدایسا سورہ ہے کہ اگر اس کا پہلا حرف ہٹا دیاجائے تو دوسرے سورہ کا نام بن جاتاہے یعنی''حمد''۔ آیۂ قربیٰ(یا آیۂ مودت)، سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر٢٣ ہے، اس آیت میں خداوندمنان نے اپنے پیارے حبیبۖ کو خطاب کیا ہے کہ اے میرے رسولۖ! کہہ دیجئے کہ میں اجر رسالت کچھ نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ میرے قرابتداروں سے مودت اختیار کرو یعنی ہمارا فریضہ ہے کہ اجر رسالت ادا کریں اور اجر رسالت حضوراکرمۖ کے قرابتداروں سے محبت کو قرار دیا گیا ہے۔وضو کرنے کا طریقہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٦ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں مستحب سجدے گیارہ مقامات پر آئے ہیں: (١)سورۂ نحل٥٠ (٢)سورۂ اعراف٢٠٦ (٣)سورۂ رعد١٥ (٤)سورۂ اسرائ١٠٩ (٥)سورۂ مریم٥٨ (٦)سورۂ حج١٨ (٧)سورۂ حج٧٧ (٨)سورۂ فرقان٦٠ (٩)سورۂ نمل٢٦ (١٠)سورۂ ص٢٤ (١١)سورۂ انشقاق٢١۔ جناب دائود کا نام قرآن میں١٦بار آیا ہے۔ جناب ہارون کا نام قرآن میں ٢٠مرتبہ آیا ہے۔ جناب ادریس کا نام دوبار۔ جناب ذالکفل کا نام دوبار اور جناب شعیب کانام ١٠بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں پانچ پھلوں کے نام آئے ہیں: (١)خرما (٢)انجیر (٣)کیلا (٤)زیتون (٥)انار۔ لفظ ''ربّ''اپنے مشتقات کے ساتھ ١٢٤١ مرتبہ استعما ل ہوا ہے۔ لفظ ''بشر'' اضافات کے ساتھ ١١٨بارآیا ہے۔ لفظ ''حج''اضافات کے ساتھ ٤١مرتبہ آیا ہے۔ لفظ ''جہاد''چارمرتبہ استعمال ہوا ہے۔
اگر قرآن کریم کی تمام معلومات تحریر کی جائیں تو کئی جلدوں پر مشتمل کتاب تیار ہوجائے گی لہٰذا اختصار کو پیش نظررکھتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں، انشاء اللہ بقید حیات آئندہ اور بھی معلومات کا تذکرہ کیا جائے گا۔ چونکہ کتاب خداوندی کا دائرہ بہت وسیع ہے لہٰذا سمندر کو کوزہ میں نہیں سمویا جاسکت: جیساکہ میں نے اس جملہ کی کئی بار تکرار کی ہے کہ قرآن کریم ایسی مقدس اور انسانی افکار سے ماوراء کتاب ہے کہ جس کی تہہ تک پہونچنا طائرفکر کے بس میں نہیں ہے لہٰذا اس کے تمام حقائق کے بیان کا دعویٰ بلادلیل ہے، اس کے تمام حقائق تو صرف وہی بیان کرسکتے ہیں کہ جن کو علم کتاب کی دولت سے مالا مال کیاگیا ہے البتہ میں یہ وعدہ ضرور کرسکتا ہوں کہ بقید حیات انشاء اللہ اگر خداکی توفیق شامل حال رہی اور زندگی نے وفا کی تو آئندہ بھی اس موضوع پر قلم فرسائی کروں گا تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام تک قرآنی حقائق پہونچ سکیں اور وہ اس پرفیض خزینہ سے بے بہرہ نہ رہیں۔ آخرکلام میں بارگاہ رب العزت میں دعاگو ہوں کہ پروردگار عالم! ہم تمام(امت مسلمہ) کو قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرما اورہمیں اس زمرہ سے باہر نکال دے کہ روزمحشر قرآن کی جانب سے شکایت کا شکار قرار پائیں۔ ''آمین''۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ''۔

منابع و ما خذ: (١)قرآن کریم(٢)المعجم المفہرس للقرآن اکریم(٣)تفسیرقرطبی (٤)تفسیرالمیزان(٥)تفسیردرمنثور(٦)تفسیرنمونہ(٧)تفسیرکبیرفخرالدین رازی (٨)تفسیرعیاشی۔     

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords