جمعہ، 21 اگست، 2015

کربلا، انسانیت ساز آئینہ: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

 کربلا، انسانیت ساز آئینہ
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

آئینہ کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ جب انسان، اس کے مقابل آتا ہے تو یہ انسان کے تمام عیوب و نقائص کو دکھا دیاتا ہے کہ اس کے چہرہ پر کیا کیا خرابی ہے؟

مثلاََ تمھاری پیشانی پر سیاہی لگی ہے اسے صاف کرو، ناک پر مٹی لگی ہے اسے صاف کرو،  گھر سے نکلنے کو تیار ہو لیکن بال سنوارے ہی نہیں وغیرہ وغیرہ ۔
اور آئینہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ جھوٹ نہیں بولتا بلکہ ہمیشہ سچ بو لتا ہے،  جیسا چہرہ ہو تا ہے ویسا ہی بتاتا ہے کوئی تبدیلی نہیں کرتا۔
آئینہ کی یہ صفت انسان کے ضمیر کو جھنجوڑتی ہے کہ اے  ''اشرف المخلوقات''  میں بے شعور و بے زبان و بے جان ہوکر بھی سچ بولتا ہوں لیکن تو جھوٹ کے نرغہ میں گھرا ہوا ہے،  اپنا دفاع کر اور اس لشکر کو شکست دے کر صدق و صفا اور سچائی کی صفوں میں آجا چونکہ سچ کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے اور جھوٹ ہر میدان میں منھ کی کھاتا ہے۔
یہ دنیاوی آئینہ ہے جو انسان کے عیوب،  خود اسی پر آشکار کرتا ہے،  اب آئیئے دینی آئینہ دیکھتے ہیں:۔
رسول اسلام  ۖ فرماتے ہیں:  ''المومن مر أ ة المومن'' (تحف العقول) یعنی :مومن ،  مومن کا آئینہ ہو تا ہے۔
آئینہ کی صفات کے مد نظر جب اس حدیث پر غور کرتے ہیں تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مومن وہی ہے جو اپنے مومن بھائی کے عیوب کو اس پر آشکار کرے نہ یہ کہ اسے بتانے کے بجائے دوسرے لوگوں پر عیاں کرے یعنی ایک مومن جب دوسرے مومن سے ملا قات کرے تو جتنے عیوب اس میں پائے جاتے ہیں ان کی طرف متوجہ کرنا چاہیئے چونکہہ ایک بھائی کا حق دوسرے بھائی پر یہ ہے کہ کثافتوں سے باہر نکال کر لے آئے،  اگر ہم ایسا کام نہیں کرتے ہیں تو تو اپنے وظیفہ میں کوتا ہی کی ہے اور خدا کے یہاں جواب دہ ہوںگے اور وہ مومن جس کو ہم نے اس کے عیوب کی طرف متوجہ نہیں کیا،  محشر میں ہمارا دامنگئیر ہوگا۔
لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ روز محشر اپنے دامن کو محفوظ رکھیں۔
ہمیں کربلا سے درس لینا چاہیئے چونکہ کربلا ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس نے انسانی زندگی کے کسی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا۔
امام حسین ـ  کربلا کی جانب سفر فرما رہے ہیں، سرزمین  ''شراف''  پر پہونچکر قیام پذیر ہوتے ہیں،  سحرکے ہنگام جب یہاں سے حرکت کرتے ہیں تو دشمنوں کا لشکر آپ  کے مقابل آجاتا ہے جس کا سپہ سالار  ''حر ابن یزید ریاحی''  ہے یہ لشکر آپ کے مقابلہ میں سفر کرتارہتا ہے۔
سرزمین  ''حسم''  پر پہونچکر خیام حسینی نصب ہوئے ادھرحر نے بھی اپنے لشکر کو حکم دیا کہ تھڑے فاصلہ پر خیام نصب کئے جائیں،  امام  کی نگاہوں نے دیکھا کہ شدت تشنگی سے حر کے لشکر کی حالت خراب ہے، امام  نے حکمم دیا کہ تمام لشکر کو پامنی پلائو یہاں تک کہ جانوروں کو بھی پانی پلایا گیا۔
امام  کے اس اخلاق نے حر کے قلب میں شمع ایمان روشن کردی یا اپنے موضوع کے تحت یوں کہا جائے کہ جب حر،  ''حسینی آئینہ''  کے سامنے آگیا تو اسے اپنے تمام عیوب نظر آگئے اور اس اکا اثر یہ ہوا کہ جب نماز کا وقت آیا اور امام  نے سوال کیا کہ تم اپنے لشکریوں کے ساتھ نماز پڑھوگے؟ تو حر نے جواب دیا نہیں بلکہ ہم آپ کی اقتدا میں نماز جماعت بجا لائیں گے،  حر نے امام  کی اقتدا میں نماز ادا کی لیکن ادھر سے ابن زیاد کا ایلچی پہونچا کہ حر،  حسین پر سختی کرو تو جیسے ہی امام حسین ـ آگے بڑھنا چاہتے ہیں حر، لجام فرس پر ہاتھ ڈلدیتا ہے ،  فرزند رسول ،  میں حکم حاکم سے مجبور ہوں ، امام حسین ـ فرماتے ہیں:''ثکلتک امک ماذا ترید منا؟،،  اے حر،  تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے آخر تیررا کیا ارادہ ہے ہم سے کیا چاہتا ہے؟تو حر نے جواب دیا ،  اے فرزند رسول اگر کوئی اور انسان یہ جملہ کہتا تو میں بھی اسے انھیں الفاظ میں جواب دیاتا لیکن آپ کے سامنے مجبور ہوں،  حر کا یہ جملہ بتا رہا ہے کہ امام حسین ـ نے جو اس کے دل میں شمع ایمان روشن کی تھی وہ ابھی تک روشن ہے لیکن دوسری طرف اسے دولت و ثروت کا لالچ گل کرنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے ۔
جب یہ دونوں لشکر سر زمین  ''بیضہ''  پر پہونچے تو امام حسین ـ  نے لشکر حر سے خطاب کیاکہ تم جو خط اور قاصد میری جانب روانہ لئے تھے ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تم لوگ میری بیعت کروگے اور مجھے نرغۂ اعدا میں بے یارو مدد گار نہیں چھوڑوگے،  اگر تم اپنے وعدہ میں سچے ہو تو ابھی بھی انسان بن سکتے ہو، اپنے ارادہ سے باز آجائو، حسین تمھیں انسانیت کی معراج پر پہونچا دیگا ، اور اگر تم انان نہیں بننا چایتے تو یہ کوئی نہی بات نہیں ہے چونکہ تم نے میرے نانا، میرے بابا اور میرے بھائی کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا یہاں تک کہ میرے سفیر (مسلم ابن عقیل ) کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا،  یادرکھو !جو عہد شکنی کرتا ہے ،وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے(مقتل مقرم: ص  ٢٩٥ ۔  تاریخ طبری:ج٧ص٣٠٠۔کامل ابن اثیر:ج٣ ص٢٨٠۔لھوف ابن طاؤس:ص١٤٢۔ابو مخنف: ص١٤٧)
امام حسین  کے اخلاق و کردار اور راستہ کی تقریروں نے حر کے دل کو ایسا نرم کردیا تھا کہ شب عاشور حر کے دل کو ایک پل بھی سکون نہ مل سکا اور سپیدی سحر نمودور ہوتے ہی امام حسینـ کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور تنہا نہیں آیا بلکہ اپمنے ہمراہ اپنے بیٹے ،بھائی اور غلام کو بھی لیکر آیا یعنی امام حسین ـ نے چار حیوانوں کو انسا ن بنا دیا۔
مال و دولت اور جاہ و حشمت کے لالچ کی ہوائیں جو حر کے دل میں روشن ''شمع ایمان''  کو بجھانا چاہتی تھیں وہ ناکام ہو کر رہ گئیں چونکہ ''اخلاق حسینی ''  فانوس بن کر اس شمع کی حفاظت کر رہا تھا۔
حر نے امام حسین ـ کو اپان آئینہ بنیا تھا اسے لئے اسے اپنے تمام عیوب نظر آگئے اور جب عیوب نظر آگئے تو جلدی سے پیش تر ان کو اپنی ذات سے دور کردیا اور ابھی تک جو حر تھا وہ اب حر نہیں رہا بلکہ حر ـ بن گیا۔(احسن المقال:ج١  ص٤١٨۔ نفس المہموم :ص١١٤)
پالنے والے ہمیں بھی کربلا والوں کے نقش قدم پر گامزن فرما تاکہ اپنے عیوب کو دور کرکے فخر کے ساتھ سربلند ہو کر خود حسینی کہہ سکیں (آمین)            
       والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
ضیاء الافاضل سید غافر حسن رضوی چھولسی

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords