جمعہ، 21 اگست، 2015

اوصاف الٰھی، نھج البلاغہ کی روشنی میں: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

 اوصاف الٰھی، نھج البلاغہ کی روشنی میں
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

اوصاف:عربی گرامر کے اعتبار سے وصف کی جمع ہے جس کے معنی ہوتے ہیں  ''کسی شخصیت میں پائی جانے والی خاصیتیں''  یعنی انسان میں جو بھی خصوصیتیں پائی جاتی ہیں ان کو اوصاف کہا جاتا ہے اور ایک خاصیت کو وصف یا صفت کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ اس ہستی کی صفات کا تذکرہ کیا جائے تو آخر کس طرح؟ جس کے شربت دیدار سے آدم سے لیکر آج تک کسی نے بھی اپنی چشم ظاہری کو سیر نہیں کیا۔
ہم جیسے انسانوں کی عقل ناقص کی اتنی زیادہ پرواز کہاں کہ ذات باری تعالیٰ کی صفات پر رقمطرازی کرسکیں یا زبان کھول سکیں اس کام کے لئے تو اسی ہستی کا سہارا لینا پڑے گا جو یہ کہتا نظر آئے کہ یہ آسمان زمین میرے سامنے خلق ہوئے ....... اور جس کی شان میں بڑے بڑے دانشمند حضرات یہ قصیدہ پڑھتے نظرآئے کہ یہ(نہج البلاغہ) یا خالق بشر کا کلام ہے یا اس بشر کا کلام ہے کہ دنیا کی خلقت کے وقت وہ بشر باقاعدہ طور پر نظارہ کر رہا تھا۔
تو آئیئے اسی ذات بابرکت کو اپنا وسیلہ بناتے ہوئے خدا وند عالم کی صفات کا تذکرہ کیا جائے جو نہج البلاغہ جیسی فصیح وبلیغ کتاب کا خالق ہے یعنی امیر کائنات حضرت علی ابن ابی طالب ٭ کو وسیلہ بناتے ہوئے اوصاف الٰہی کو نہج البلاغہ کی روشنی میں بیان کیا جائے۔
نوٹ:۔نہج البلاغہ کے تمام حوالہ جات علامہ مفتی جعفر حسین صاحب قبلہ اعلیٰ اللہ مقامہ کے ترجمہ کے مطابق ہیںبعض مقامات پر اختصار کے مد نظر عربی عبارت کو مختصر اور اشارتاََ ذکر کررہا ہوں۔

توحید''یعنی وہ وحدہ لاشریک ہے''
''لم یولدسبحانہ فیکون فی العزة مشارکا ولم یلد فیکون مورثا ھالکا''(١)
اس کا کوئی باپ نہیں ، جو عزت و بزرگی میں اس کا شریک ہو اور نہ ہی اس کے کوئی بیٹا ہے کہ وہ اسے چھوڑکر دنیا سے رخصت ہو جائے اور بیٹا اس کا وارث ہو جائے۔
مولا نے ان فقروں سے یہ سمجھایا ہے کہ رشتہ داری اور ناطہ داری، دنیا سے مخصوص ہے، اگر خدا وند عالم کا باپ ہوتا تو خدا پر واجب ہوتا کہ اس کی تعظیم کرے ، جس کے نتیجہ میں خدا کا باپ خدا سے زیادہ عزت دار ہوتا اور یہ حکمت کے خلاف تھا چونکہ خدا وہ ہے کہ تمام عزتوں کی بازگشت اسی کی جانب ہوتی ہے (فأنّ العزّةللّٰہ جمیعا)(٢)
بے شک تمام عزتیں خدا وند عالم کے لئے ہیں ۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر خدا کسی کا بیٹا ہوتا تو پھر مسیحیوں (عیسائیوں)کو جواب کیسے دیا جاتا ، اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ جناب عیسیٰ  ـ خدا کے بیٹے نہیں ہیں تو وہ یہی کہتے کہ جب خدا کسی کا بیٹا ہوسکتا ہے تو پھر خدا کے یہاں بیٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا کا بھی باپ ہے تو پھر ماں کی بھی ضرورت ہے (چونکہ ابھی تک بغیر باپ کے ہونے والا بیٹا سنا گیا  ہے جوکہ جناب عیسیٰ  ـ ہیں لیکن بغیر ماں کے پیدا ہونے والا بچہ نہیں سنا گیا) اور ماں باپ .....وغیرہ یہ تمام صفتیں وہی آگئیں جو اس کے بندوں میں پائی جاتی ہیں، وہ ان سے بے نیاز ہے۔
اور خود خدا وندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے(لم یلد ولم یو لد ولم یکن لہ کفؤا احد)(٣)
یعنی :نہ تو اس کے کوئی بیٹا ہے اور نہ ہی وہ کسی کا بیٹا ہے اور اس کا کوئی بھی شریک نہیں ہے ۔
اگر اس کا شریک تصور کر لیا جائے تو شرک لازم آتا ہے اور انسان مشرک ہوجائے گا جس کی بخشش نا ممکن ہے، یعنی وہ اکیلا ہے اور تن تنہا ہے نہ تو اس کے یہاں بچے ہیں اور نہ ہی بیوی کا تصور کیا جا سکتا ہے، وہ واحد ہے، احد ہے، صمد ہے، سرمد ہے اور وحدہ لاشریک ہے۔
اپنے بڑے لاڈلے امام حسن  ـ کو وصیت کرتے ہو ئے فرماتے ہیں:
''واعلم یا بنی انہ لوکان لربک شریک.........ولم ینھک الا عن القبیح''(٤)
 اے میرے لال!  یقین کرو کہ اگر تمھارے پرور دگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے اور اس کی سلطنت وفرمانروائی کے بھی آثار دکھائی دیتے اور اس کے کچھ افعال وصفات بھی معلوم ہوتے مگر وہ ایک اکیلا اور تنہا ہے جیسا کہ اس نے خود بیان کیا ہے اس کے ملک میں کوئی بھی اس سے ٹکر نہیں لے سکتا، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، وہ بغیر کسی نقطۂ آغاز کے تمام چیزوں سے پہلے ہے اور بغیر انتہائی حد کے سب چیزوں کے بعدبھی ہے وہ ا س سے بلند وبالا ہے کہ اس کی ربوبیت کااثبات ،قلب یا نگاہ کے گھیرے میں آجائے، جب تم یہ جان چکے تو پھر عمل کرو اس نے تمھیں انھیں چیزوں کا حکم دیا ہے جو اچھی ہیں اور انھیں چیزوں سے منع کیا ہے جو بری ہیں۔
مولا کا امام حسن  ـ  کو وصیت کرنا، مقصد سے خالی نہیں ہے چونکہ مولا علی  ـ کے بعد امام حسن  ـ امام وقت تھے، امام وقت کو یہ ضرورت نہیں کہ اسے وعظ و نصیحت کی جائے۔
یہ تمام وعظ ونصیحت ہمارے لئے ہے تاکہ ہم کسی کو خدا وندعالم کا شریک قرار نہ دیں، چونکہ شرک ایسی بیماری ہے جو ایمان واخلاص کو نیست ونابود کرکے رکھ دیتی ہے، لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ خدا وند منان کو وحدہ لاشریک مانتے ہوئے اس کے آگے سر تسلیم خم کریں، اس کی اطاعت میں کوشاں رہیں اور اس کی معصیت کے ببول سے اپنے دامن ایمان کو تار تار ہونے سے محفوظ رکھیں۔ 

علم ،قدرت،خلقت
 ''قد علم السرائروخبر الضمائر لہ الاحاطة بکل شئی والغلبة لکل شئی والقوة علیٰ کل شئی''(٥)
یعنی ...وہ دل کی نیتوں اور باطنی بھیدوں سے واقف ہے وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر شئی پر چھایا ہوا ہے اور ہر چیز پر اس کا زور چلتا ہے۔
امیر المومنین  ـ اپنے اس مبارک کلام کے ذریعہ ، بشریت کو سمجھانا چارہے ہیں کہ دیکھو خبردار! کبھی بھی یہ فکر نہ ہونے پائے کہ معاذاللہ خداوند عالم کچھ نہیں جانتا، ظاہر کی تو بات چھوڑو وہ تو تمھارے قلوب کی دھڑکنوں سے بھی واقف ہے کہ دھڑکن کی رفتار کیا ہے اور کیسی ہے اور یہ دھڑکن کس کی خاطر اتنی تیز ہوئی یاکس کی خاطر دھیمی ہوئی ہے؟
اور قدرت کی اس منزل پر ہے کہ کہ کوئی بھی چیز اس کے دائرۂ قدرت واختیارسے خارج نہیں ہے بلکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
 ''الحمد للہ المتجلیٰ لخلقہ بخلقہ والظاھر لقلوبھم بحجتہ خلق الخلق من غیر رویة اذ کانت الرویات لا تلیق الا بذوی الضمائر ولیس بذی ضمیر فی نفسہ خرق علمہ باطن غیب السترات واحاط بغموض عقائد السرائر''(٦)
تمام تعریفوں کا حقدار وہی ہے جو اپنی مخلوقات کی وجہ سے مخلوقات کے سامنے عیاں ہے اورا پنی حجت وبرہان کے ذریعہ سے دلوں میں نمایاں ہے، اس نے بغیر سوچ وچار کے مخلوق کو خلق فرمایا، اس لئے کہ غوروفکر کی ضرورت اسے ہوتی ہے جو دل ودماغ رکھتا ہو اور اس کی ذات ان چیزوں سے بری ہے ، اس کا علم غیب کے پردوں میں سرایت کئے ہوئے ہے اور عقیدوں کی گہرائیوں کی تہہ تک اترا ہوا ہے۔
ان جملوں میں مولائے کائنات  ـ نے ذات باری تعالیٰ کی تین صفتوں کی جانب اشارہ فرمایا ہے:
(١) خلقت: اس نے اپنی مخلوقات کو خلق فرمایااور وہ اس کے سامنے بھی ہے یعنی اگر چشم بصیرت سے نظر کی جائے تو ہر سمت وہی جلوہ نمانظر آئے گا۔
(٢) علم: اس کے علم میں کوئی بھی دنیاوی یا اخروی حجاب حائل نہیں بلکہ اس کا علم تو غیب کے پردوں میں بھی سرایت کئے ہوئے ہے۔
(٣) قدرت: وہ ایسا قادر ہے کہ مخلوقات کو خلق کرنے میں کسی کے سہارے کا محتاج نہیں۔
ایک دوسری جگہ ہمارے مولا وآقا امیر کائنات حضرت علی ابن ابی طالب ٭ ارشاد فرماتے ہیں:
''یعلم عجیج الوحوش فی الفلوات ومعاصی العباد فی الخلوات واختلاف النینان فی البحار الغامرات وتلاطم الماء بالریاح العاصفات''(٧)
وہ بیابان میں چوپایوں کے نالے سنتا ہے، تنہائیوں میں بندوں کے گناہوں سے آگاہ ہے اور انتھاہ دریائوں میں مچھلیوں کی آمدو شد اور تند ہوائوں کے ٹکرائو سے پانی کے تھپیڑوں کو جانتاہے۔
دوسری جگہ خالق نہج بلاغت کے دہن مبارک سے در بیش بہا کی برسات کچھ اس نداز میں ہوئی:
''ان اللہ سبحانہ وتعالیٰ لا یخفی علیہ ماالعباد مقترفون فی لیالیھم ونھارھم لطف بہ خبرا واحاط بہ علما اعضائکم شھودہ وجوارحکم جنودہ وضمائرکم عیونہ وخلواتکم عیانہ''(٨)
خدا کے بندے جو بھی گناہ انجام دیتے ہیں، چاہے وہ شب تار کے حجاب میں ہو یا روز منور کی نور افشانی میں، خدا سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو جانتا ہے اور ہر چیز کے بارے میں علم رکھتا ہے ، اس کے سامنے خود تمھارے ہی اعضاء ، گواہ بن کر پیش ہوں گے اور تمھارے ہی ہاتھ پائوں اس کے لاولشکر ہیں اور تمھارے ہی قلب وضمیر اس کے جاسوس ہیں اور تمھاری تنہائیوں کے عشرت کدے اس کے سامنے ہیں۔
 مولا  ـ نے ان جملوں سے عالم بشریت کو یہ درس دیا ہے کہ خدا وند عالم کو ہرچیز کا علم ہے، وہ جانوروںکی زبان سے بھی واقف ہے اور ان کی فریاد پر ان کی داد رسی کو پہونچتا ہے۔
خبردار!  تنہائی میں بھی یہ سوچ کر گناہ نہ کر بیٹھنا کہ یہاں تو خدا ہے ہی نہیںآخر کیسے دیکھ پائے گا؟ نہیں وہ ہر جگہ موجود ہے، گوشۂ تنہائی میںکیا ہوا گناہ، لوگوں کی نظروں سے تو مخفی رہ سکتا ہے لیکن عالم کل سے پوشیدہ نہیں ہے، ارے جو سمندر میں تیرتی ہوئی مچھلیوں کی رفتار کو بھی جانتا ہو تو اس سے ہمارا گناہ کیسے پوشیدہ رہ سکتا ہے؟
یاد رہے کہ یہ ہمارے ہاتھ پیر بلکہ تمام اعضائ، ظاہری طور پر ہمارے ساتھ ہیںلیکن درحقیقت اسی کی امانت ہیںاور بطور جاسوس ہمارے پاس ہیں۔

وہ ایسا خالق ہے جو قابل دید نہیں
''الحمدللہ المعروف من غیر رُویَةوالخالق من غیر رَوِیَّة الذی لم یزل قائما دائما اذلا سماء ذات ابراج ولا حجب ذات ارتاج ولا لیل داج ولا بحر ساج ولا جبل ذو فجاج ولا فج ذو اعوجاج''(٩)
تمام حمد ہے اس پروردگار کے لئے جو نظر آئے بغیر جانا پہچانا جاتا ہے اور سوچ وچار کے بغیر خلق کرنے والا ہے ، وہ اس وقت بھی قائم ودائم تھا کہ جب نہ تو برجوںوالا آسمان تھا اور نہ ہی بلند دروازوں والے حجاب ، نہ تو اندھیری راتیں تھیں اور نہ ٹھہرا ہوا سمندر، نہ تو لمبے چوڑے پہاڑ تھے اور نہ ہی آڑی ترچھی پہاڑی راہیں۔
مولائے کائنات  ـ  فکر بشری کے مد نظر ، نادان انسانوں کو یہ سمجھانا چارہے ہیں کہ دیکھو یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر پیدا کرنے والا اور خالق، ان گنہگار آنکھوں کی دید کے قابل ہو اور اسے خلقت میں غوروفکر اور سوچ وچار کی ضرورت لاحق ہو، جس کا ایک آشکار نمونہ ذات خدا وندی ہے، وہ ہر چیزسے بے نیاز ہے چونکہ اگر کسی چیز کا محتاج ہوجائے تو وہ خدا نہیں کہلائے گا اور انسان وخدا کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔
اور اس کی ابدیت یہ ہے کہ یہ ذات اس وقت سے ہے کہ جس وقت نہ تو دنیا کا وجود تھااور نہ ہی دنیا کی اشیاء موجود تھیں۔



علی  ـاس خدا کی عبادت نہیں کرتے جسے دیکھا نہ ہو
''قد سألہ ذعلب الیمانی فقال ھل رایت ربک یا امیر المومنین؟ فقال أفأعبد ما لا اریٰ؟   
 ذعلب یمانی نے حضرت علی  ـ سے سوال کیا کہ یا امیر المومنین کیا آپ نے اپنے معبود کو دیکھا ہے تو حضرت  ـ نے فرمایا کیا میں اس معبود کی عبادت کرتا ہوں جسے میں نے دیکھا بھی نہیں ہے؟
''فقال کیف تراہ؟ قال  لا تراہ العیون بمشاھدة العیان ولٰکن تدرکہ القلوب بحقائق الایمان''(١٠)
ذعلب نے کہا کہ آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ (جب کہ وہ نظر نہیں آتا) تو آپ نے جواب دیاکہ اسے ظاہری آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں بلکہ وہ ایسی ہستی ہے جسے دل، ایمانی حقیقتوں سے پہچانتا ہے۔
اللہ اکبر... مولا فرمارہے ہیں کہ میں اس کی عبادت کر ہی نہیں سکتا، جسے میں نے دیکھا نہ ہو.....اگر ذعلب یمانی یہیں پر سکوت اختیار کر لیتے تو یہ جملہ تشنۂ بیان رہ جاتا اور نہ جانے اس چھوٹے سے فقرہ کی کتنی لمبی لمبی اور کیا کیا تفسیریں کی جاتیں، ذعلب نے سوال آگے بڑھاکر ہمارے اوپر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ خود مولا  نے ہی اس جملہ کی تفسیر فرمادی کہ دیکھو ذعلب!  تم خدا وند عالم کی ذات بابرکت کو ان آنکھوں سے نہیں دیکھ پائوگے بلکہ اس کی دید کے لئے چشم بصیرت درکار ہے، دل کی آنکھوںکو کھولوتو وہ تمھیں بھی نظر آجائے گا چونکہ وہ انسان کی شہ رگ حیات سے بھی زیادہ قریب ہے ۔

ذات با برکت
''فتبارک الذی لا یبلغہ بعد الھمم ولا ینالہ حدس الفطن الاول الذی لا غاےة لہ فینتھی والآخر لہ فینقضی''  (١١)
وہ ایسی با برکت ذات ہے کہ اس کی بلندیوں کو چھونا بلند پرواز ہمتوں کی رسائی سے بھی باہر ہے اور نہ ہی عقل وفہم کی قوتوں میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ اس کی ذات با برکت کو درک کر سکیں۔
وہ ایسا اوّل ہے کہ جس کے لئے نہ تو کوئی نقطۂ ابتدا ہے کہ وہ محدود ہو جائے اور نہ ہی اس کا کوئی آخر ہے کہ(وہاں پہونچ کر) ختم ہو جائے۔
مولا کے اس نورانی کلام سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ذات خدا وندی اس درجہ پر ہے کہ عقلاء عالم کی عقلوں سے ماوراء ہے، بڑے سے بڑا با ہمت اور قہرمان بھی اس تک پہونچنے سے معذور ہے ،وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا یعنی کل بھی تھا آج بھی ہے اور آنے والے کل میں بھی موجود رہے گا ، وہ ایسی ذات ہے کہ جس کی شان میں زوال کا تصور بھی محال ہے۔

ابدیت
''الحمد للّٰہ الاول فلا شیٔ قبلہ والآخر فلا شیٔ بعدہ والظاھر فلا شیٔ فوقہ والباطن فلا شیٔ دونہ''(١٢)
تما م حمدو ثنا اسی سے مخصوص ہے جو اوّل ہے اور اس سے پہلے کسی بھی شۓ کے وجود کا تصور نہیں اور ایسا آخر ہے کہ اس کے بعد کوئی نہیں ، وہ ایسا ظاہر ہے کہ کوئی بھی شۓ اس سے مافوق نہیںاور ایسا باطن ہے کہ کوئی بھی چیز اس سے قریب نہیں۔
مولا کے ان جملوں کا مفہوم بھی تقریباََ وہی ہے جو پہلے والے جملوں کا ہے یعنی خدا وند عالم کی ذات سے پہلے کسی کا وجود نہیں اور نہ ہی اس کے بعد کوئی وجود ہے وہی اوّل ہے وہی آخر ، وہی ظاہر ہے وہی باطن۔

خَلق اللہ
''الحمد للّٰہ خالق العباد..........................بمافی الارضین السفلیٰ''(١٣)
تمام حمد اس معبود کے لئے ہے جو بندوں کا پیدا کرنے والا، فرش زمین کا بچھانے والا، ندی نالوں کا بہانے والااور ٹیلوں کو سرسبزو شاداب بنانے والاہے۔
نہ تو اس کی ابدیت کی کوئی ابتدا اور نہ اس کی ازلیت کی کوئی انتہا، وہ ایسا اوّل ہے جو ہمیشہ سے ہے اور بغیر کسی مدت کی حد بندی کے ہمیشہ رہنے والا ہے، پیشانیاں اس کے آگے سجدے میں خم ہیںاور لب اس کی توحید کے معترف ہیں، اس نے تما م چیزوں کو ان کے پیدا کرنے کے وقت سے ہی جداگانہ صورتوں اور شکلوں میں محدود کردیا، وہ ایسی ذات ہے کہ اسے تصورات کے زندان میں محدود اور اعضاو جوارح کے ذریعہ متعین نہیں کر سکتے، اس کے لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب سے ہے اور نہ یہ کہہ کر اس کی مدت کو مقرر کیا جاسکتا ہے کہ وہ کب تک ہے، وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کس سے ظاہر ہوا، وہ باطن ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کس میں باطن ہے۔
وہ نہ تو دور سے نظر آنے والا کوئی ڈھانچہ ہے کہ مٹ جائے اور نہ ہی کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہو جائے، وہ چیزوں سے اس طرح قریب نہیں کہ ساتھ چھو جائے اور نہ وہ جسمانی طور پر ان سے دور ہوا ہے، کسی کا ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا، کسی لفظ کا دہرایا جانا، کسی بلندی کا دور سے جھکنااور کسی قدم کا آگے بڑھنا، اس سے پو شیدہ نہیںہے۔
وہ ہر مدت وانتہااور گنتی وشمارش سے پہلے ہے، اسے محدود کرنے والے جن اندازوں اور اطراف وجوانب کی حدوں میں بسنے کو اس کی طرف منسوب کر دیتے ہیں، وہ ان نسبتوں سے بہت بلند ہے، حدیں تو اس کی مخلوق کے لئے قائم کی گئی ہیں۔
کوئی شئے اس کے حکم سے سرتابی وسرپیچی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کو کسی کی اطاعت سے کوئی فائدہ پہونچتا ہے، اسے مرنے والوں کا ویسے ہی علم ہے جیسے زندہ لوگوں کا اور جس طرح آسمان کی چیزوں سے واقف ہے اسی طرح پست زمینوں کی چیزوں کو بھی پہچانتا ہے۔
مولا  ـ نے اس خطبہ میں خدا وند عالم کی بہت سی صفات حسنہ کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں سے علم، قدرت، ابدیت اور لا محدودیت سر فہرست ہیں۔
یعنی وہ ایسا عالم ہے کہ جس کے علم کی کوئی انتہا نہیں، کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی اس کے علم کو درک نہیں کر سکتا چونکہ ہر عالم کے علم کی بازگشت اسی کی جانب ہوتی ہے اور وہی عالم کن فیکون ہے، وہی عالم مطلق ہے، ہر چیز اس کے سامنے ہے، کوئی بھی شئے ایسی نہیں جو اسکے دائرۂ علم سے خارج ہو۔
وہ ایسا قادر ہے کہ اس کے سامنے جہان ہستی کے نامی گرامی پہلوان اور قہرمان، سرتسلیم خم کرتے ہیںچونکہ ان پہلوانوں کی قوت و طاقت کا منبع وماخذ وہی ہے، اسی نے انھیں ایسی قوت و طاقت سے نوازاہے کہ اس کے بلبوتہ پر بڑے سے بڑا کام پانی کی طرح آسان ورواں نظر آتا ہے۔

وہ ایسا ابدی وازلی ہے کہ ہر چیز سے پہلے تھا اور ہر چیز کے بعد بھی رہے گا، چونکہ وہ ہر چیز کا خالق ومالک اور معبود ہے، عالم ہست وبود میں جتنی اشیاء موجود ہیں، سب اسی کی مخلوق ہیں۔
وہ ایسا لا محدود ہے کہ کسی جگہ یا کسی زمانے میں مقید نہیں کیا جا سکتا چونکہ جگہ یا زمانہ محدود ہوتا ہے اور ایک جگہ یا ایک زمانے میں مقید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسری جگہ یا دوسرے زمانے میں موجود نہیں ہے اور ایسا ہونا بندہ کی صفت ہے معبود کی نہیں، اگر ہم اسے بھی محدود کردیں تو پھر عبدو معبود کا طرۂ امتیاز ختم ہوجا ئیگا کہ ہمارا خالق ومالک اورمعبود کون ہے جس کی عبادت و اطاعت میں زندگی بسر کی جائے؟

بے سہاروں کا سہارا
''کل شیٔ خاشع لہ وکل شیٔ قائم بہ غنیٰ کل فقیر وعز کل ذلیل وقوة کل ضعف ومفزع کل ملھوف من تکلم سمع نطقہ ومن سکت علم سرّہ ومن عاش فعلیہ رزقہ ومن مات فألیہ منقلبہ''(١٤)
ہر چیز اس کے سامنے عاجزو سر نگوں اور ہر شئے اس کے سہارے سے وابستہ ہے، وہ ہر فقیر کا سرمایہ، ہر ذلیل کی آبرو، ہر کمزور کی توانائی اور ہر مظلوم کی پناہ گاہ ہے وہ وہی ہے جو بولنے والے کی بات کو بھی سنتا ہے اور خاموش رہنے والے کے بھید سے بھی آگاہ ہے زندہ کے رزق کا ذمہ دار بھی وہی ہے اور مرنے والے کا ملجأوماویٰ بھی وہی ہے ۔
 یعنی اگر فقر سے دچار ہو گئے تو اسی سے مدد طلب کرو چونکہ تمھیں وہی غنی کرے گا، اگر ذلت کی وادیوں میں غرق ہو گئے تو اسی کو پکارو کہ وہی تمھیں عزت کے باغات کی سیر کرائے گا، اگر کمزوری دامنگیرہو گئی تو اسی سے دعا کرو وہی تمھاری کمزوری کو طاقت سے بدلے گا (ان اللہ لقوی عزیز)(١٥)  
اگر مظالم کے نرغہ میں گھر گئے تو اسی کو مدد کے لئے پکارو تاکہ تمھیں ظلم سے پناہ ملے چونکہ مظلوموں کی پناہ گاہ وہی ہے۔
وہ ایسی ذات ہے کہ صرف بولنے والے کی بات ہی نہیں سنتا بلکہ دلوں کے اسرارو رموز سے بھی واقف ہے یعنی اگر کوئی بات زبان تک نہ آ سکے تو کم سے کم دل میں دہرانے کی کوشش کرو تاکہ مشکلات سے نجات حاصل ہو چونکہ خدا وند عالم کو یہ پسند ہے کہ اس کا مومن بندہ اس سے کچھ طلب کرے اور وہ اسے عطا کرے۔

صفات خدا وند عالم، قرآن کی روشنی میں
.....الذی ابتدأ الخلق ......................................المبدع قائمة(١٦)
 ....اور وہ پروردگاروہی ہے جس نے بغیر کسی مثال کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے، مخلوقات کو خلق فرمایا اور بغیر اس کے کہ اپنے سے پہلے کسی اور خالق ومعبود کی بنائی ہوئی چیزوں کا چربہ اتارتا، اس نے اپنی قدرت کی بادشاہت اور ان چیزوں کے واسطہ سے کہ جن میں اس کی حکمت ودانائی کے منھ بولتے آثار موجود ہیںاور مخلوق کے اس اعتبار سے کہ وہ اپنے رکنے تھمنے میں اس کے سہارے کی محتاج ہے ، ہمیں وہ چیزیں دکھائی ہیں کہ جنھوں نے قہراََ دلیل قائم ہونے کے دبائو سے اس کی معرفت میں ہماری رہنمائی کی ہے اور اس کی پیدا کردہ عجیب وغریب چیزوں میں اس کی صنعت کے نقش ونگار اور حکمت کے آثار نمایاں ہیں۔
چنانچہ ہر مخلوق اس کی ایک حجت اور ایک برہان بن گئی ہے چاہے وہ مخلوق خاموش ہی کیوں نہ ہو مگر خاموشی کے باوجود اس کی کارسازی پر بولتی ہوئی دلیل ہے اور ہستی صانع کی جانب اس کی رہنمائی ثابت وبرقرار ہے۔
مولا  ـ کا یہ خطبہ بہت طویل وعریض ہے، اختصار کے مد نظر اول وآخر کو چھوڑ کر درمیان سے چند جملوں کا تذکرہ کیا ہے ، اس خطبہ میں مولا  ـ نے ذات باری تعالیٰ کے ایسے ایسے اوصاف بیان کئے ہیں کہ اگر ان پر غور کرنے والا ذرا سی بھی چشم بینا رکھتا ہوگا تو تیرگی کے صحرائوں کی گمراہی، نورانی وادیوں کی راہوں میں تبدیل ہو جائے گی یعنی یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حضرت  ـ کے اس نورانی کلام کو پڑھنے کے بعد بھی راہ مضلت میں بھٹکتا رہے۔
یا ایک جگہ کچھ اس طرح نور افشانی ہوئی:
  ''اللھم داحی المدحوات ودائم الممسوکات وجابل القلوب علیٰ فطرتھا شقیھا وسعیدھا''(١٧)
اے اللہ!  اے فرش زمین کے بچھانے والے اور بلند آسمانوں کو (بغیر ستونوںکے ) روکنے والے!  دلوں کو اچھی اور بری فطرت پر پیدا کرنے والے (ہمارے لئے) پاکیزہ رحمتیں اور بڑھنے والی برکتیں قرار دے۔
مولائے کائنات  ـ نے ان دو تین جملوں میں خدا وند عالم کی بہت سی صفتیں بیان فرمادی ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ کام اس کے سوا کوئی بھی انجام نہیں دے سکتا یعنی.....زمین جیسے وسیع وعریض فرش کا بچھانا صرف اسی کا کام ہے، آسمان جیسے بڑے اور بھاری نیلگوں شامیانہ کو بغیر کسی ستون کے تاننا اسی کو زیب دیتا ہے، رحمت وبرکت بھی اسی کے دست قدرت میں ہے، کسی انسان میں یہ قوت نہیں کہ یہ کام انجام دے سکے چونکہ ہر انسان کو قدرت دینے والا بھی وہی ہے اور وہی قادر کل ہے۔
اگر ان چند جملوں پر غورو خوض کیا جائے تو واقعاََ معرفت حق کے لئے یہی جملے کافی ہو سکتے ہیں۔

رحمت خدا
................ولم یؤسک من الرحمة...........................(١٨)
 اس نے تمھیں اپنی رحمت سے مایوس نہیں کیا بلکہ اس نے گناہ سے کنارہ کشی کو بھی ایک نیکی قرار دیا ہے اور ایک برائی کو صرف ایک اور ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر قرار دیا ہے۔
اس نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے، جب بھی اسے پکارو وہ تمھاری سنتا ہے اور جب بھی رازونیاز کرتے ہوئے اس سے کچھ کہو وہ جان لیتا ہے، تم اسی سے مراد مانگتے ہو او ر اسی کے سامنے دل کے بھید کھولتے ہو ، اسی سے اپنے دکھ درد کا رونا روتے ہو اور مصیبتوں سے نکلنے کی التجا کرتے ہو اور اپنے کاموں میں مدد طلب کرتے ہو اور اس کے خزانۂ رحمت سے وہ چیزیں مانگتے ہو جن کے دینے پر اس کے علاوہ کوئی بھی قدرت نہیں رکھتا جیسے عمر درازی، جسمانی صحت، رزق میں برکت وغیرہ۔
اس نے تمھارے ہاتھوں میں اپنے خزانوں کوکھولنے والی کنجیاں دیدی ہیںاس طرح سے کہ تمھیں اپنی بارگاہ میں سوال کرنے کا طریقہ بتایا ، جس کے نتیجہ میں تم جس وقت بھی چاہو اپنی دعا کے وسیلہ سے باب رحمت کو کھلوالو، اس کی رحمت کے جھالوں کو بر سالو، ہاں اگر کسی وقت دعا کی اجابت میں کچھ دیر ہو جائے تو نا امید نہ ہوجانا اس لئے کہ نیت کے مطابق ہی عطا کیا جاتا ہے اور اکثر قبولیت میں اس لئے دیر کی جاتی ہے کہ سائل کے اجر میں اور اضافہ ہو اور امید وار کو امید سے زیادہ عطا ہواور کبھی یہ ہوتا ہے کہ تم ایک چیز مانگتے ہو اور وہ حاصل نہیں ہوتی مگر دنیا یا آخرت میں اس سے بہتر چیز مل جاتی ہے۔
تم کبھی کبھی ایسی چیز طلب کر لیتے ہو کہ اگر وہ چیز تمھیں عطا ہو جائے تو تمھارادین تباہ ہو جائے ، لہٰذا تمھیں صرف وہ چیز طلب کرنی چاہیئے جس کا جمال پائیدار ہو اور جس کا وبال تمھارے سر نہ آپڑنے والا ہو، رہا دنیا کا مال؟ تو نہ تو یہ تمھارے لئے رہے گا اور نہ تم اس کے لئے۔
مولا علی  ـ امام حسن  ـ کو وصیت کرتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ چاہے تمھارے اوپر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ جائیں لیکن امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ، اسے ہمیشہ تھامے رہنا، (لا تقنطوا من رحمة اللّٰہ ان اللّٰہ یغفر الذنوب جمیعا ان اللّٰہ ھو الغفور الرحیم)(١٩)
خدا وند عالم کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چونکہ مایوسی کفر ہے اور نا امیدی انسان کو کفر کی وادی میں لاکھڑا کرتی ہے جہاں اس طرح کے جال بکھرے رہتے ہیں کہ جو بھی ایک بار ،ان میںگرفتار ہوگیا تو نجات وخلاصی ناممکن ہو جاتی ہے لہٰذا خداوند عالم کی ذات پر توکل کرو اور اسی کو وسیلہ بنائو، اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا۔
پروردگار!  تجھے خالقِ نہج البلاغہ کا واسطہ ہمارے عقیدہ وایمان کو محکم سے محکم تر بنا کہ ہمارے دل میں تیرے سوا کسی کے لئے بھی خالی جگہ باقی نہ رہے۔
(آمین)
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ  
                         ضیاء الافاضل مولانا سید غافر حسن رضوی چھولسی 
    حوالہ جات:
(١)  نہج البلاغہ :خ١٨٠،ص٤٧٣                          (٢)سورۂ یونس/٦٥
(٣)سورۂ توحید/٣،٤،٥                              (٤)  نہج البلاغہ :وصیت نامہ٣١،ص٦٩٦
(٥)نہج البلاغہ :خ٨٤ ،ص٢٤٢                             (٦)  نہج البلاغہ :خ١٠٦، ص٣٠٥
(٧)  نہج البلاغہ :خ١٩٦،ص٥٥٥                          (٨)  نہج البلاغہ :خ١٩٧،ص٥٦٢
(٩)  نہج البلاغہ :خ٨٨،ص٢٦٣                            (١٠)  نہج البلاغہ :خ١٧٧،ص٤٦٨
(١١)  نہج البلاغہ :خ٩٢،ص٢٨٢                          (١٢)  نہج البلاغہ :خ٩٤،ص٢٨٤
(١٣)  نہج البلاغہ :خ١٦١،ص٢٤٦                       (١٤)  نہج البلاغہ :خ١٠٧، ص٣٠٨
(١٥)سورۂ حج/٤٠                                            (١٦)  نہج البلاغہ :خ٨٩،ص٢٥٦
(١٧)  نہج البلاغہ :خ٧٠،ص٢١٦               (١٨)  نہج البلاغہ :وصیت نامہ٣١،ص٦٩٩       (١٩)سورۂ زمر/۵۳

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords