جمعہ، 21 اگست، 2015

مھاتما گاندھی، بھترین رھبر آزادی: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی


مہاتما گاندھی، بہترین رہبر آزادی

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی ''چھولسی''

اجمالی تعارف: رھبرآزادی ھند، بابائے قوم''مہاتما گاندھی'' کا پورا نام ''موہن داس کرمچند گاندھی'' تھا؛آپ ٢اکتوبر١٨٦٩.ء کو گجرات کے ایک ساحلی شھر میں پیدا ھوئے۔ان کے والد ''کرمچند گاندھی'' تھے جوھندو مودھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اورانکی والدہ کا نام ''پتلی بائی'' تھا جو ھندو پرنامی ویشنو فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ انکے دادا کا نام ''اتمچند گاندھی'' تھا جو '' اتا گاندھی'' سے بھی مشھور تھے۔مہاتما گاندھی، ھندوستان کے سیاسی اور روحانی رہنما اور تحریک آزادی کے اھم ترین کردار تھے۔ انھوں نے صدق و صفا کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ان کا یھی رویہ یعنی صدق و صفا (ستیہ گرہ) ھنددستان کی آزاد کی وجہ بنا۔ اور ساری دنیا کے لئے حقوق انسانی اور آزادی کیلئے روح رواں ثابت ھوا۔ ھندوستان میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو جی کہا جاتا ھے۔ انہیں ھند سرکار کی جانب سے ''بابائے قوم''کے لقب سے نوازا گیا۔ گاندھی جی کا یوم پیدائش (گاندھی جینتی)پورے ھندوستان میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ھے اور دنیا بھر میں یوم امن کے طور پر منایا جاتا ھے۔یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ اچھائی کے دشمنوں کی کمی نہیں ھوتی لہٰذا اس رھبرآزادی کے متعدددشمن پیدا ھوگئے جن میں سے تاریخ نے ایک نام ھندوایزم سے تعلق رکھنے والے شدت پسندانسان''ناتھو رام گوڈسے'' بھی بیان کیا ھے، اس کے دل میں گاندھی جی کی دشمنی پرورش پارھی تھی اور جب اس چنگاری نے شعلہ کی شکل اختیارکی تو اس نے ٣٠جنوری ١٩٤٨.ء کو گاندھی جی کے سینہ پر گولی مارکرانھیںشہیدکردیا۔
کارکردگی:گاندھی جی نے جنوبی افریقہ میں وکالت کی تعلیم حاصل کی اوراسی دوران رھائشی ھندوستانی فرقہ کے شھری حقوق کے لئے جدوجہد کی۔ھندوستان واپسی کے بعد ١٩١٥.ء میں کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ تعصب کے خلاف شدیداحتجاج کیا۔١٩٢١.ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد ملک سے غربت کم کرنے ، خواتین کے حقوق کو بڑھانے، مذھبی تعصب کے خاتمہ اور معاشی خود انحصاری کا درس پڑھانے کی مھم کی قیادت کی۔ مشھور عدم تعاون تحریک کی قیادت کی جو کہ ١٩٣٠.ء میں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں ٤٠٠کلومیٹر (٢٤٠میل)لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ھوئی۔ ١٩٤٢.ء میں بھارت چھوڑو سول نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کے مطالبہ کے ساتھ کیا۔ سالٹ سے متأثر ھو کر، انھوں نے سبزخور سماج کی رکنیت اختیار کی۔ اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے لئے منتخب ھو گئے جھاں انھوں نے ایک مقامی باب کی بنیاد رکھی۔ وہ جن سبزخور لوگوں سے ملے ان میں سے کچھ تھیوسوفکل سوسائٹی کے رکن تھے جس کا قیام ١٨٧٥.ء میں عالمی بھائی چارگی کو مضبوط کرنے اور بودھ مشٹ اور ھندو مشٹ ادب کے مطالعہ کے لئے وقف کیا گیا تھا۔انھوں نے گاندھی جی کو انکے ساتھ بھگوت گیتا اصل اور ترجمہ دونوں چیزیں پڑھنے کی بابت ترغیب دلائی۔ گاندھی جی کو پہلے تو مذاہب میں کوئی خاص دلچسپی نہیںتھی لیکن اس کے بعدوہ مذھب میں دلچسپی لینے لگے اور ھندو مذھب اور عیسائی مذھب دونوں کتابوں کو پڑھنے لگے۔آپ کو١٠جون ١٨١٠.ء میں   انگلینڈ اور ویلز بار بلایا گیااور ١٢جون ١٨٩٢.ء کو لندن سے واپس لوٹ آئے۔
جذبۂ نجات قوم: چونکہ گاندھی جی آزاد طبیعت انسان تھے اوراپنے ملک ،اپنے وطن اوراپنی قوم کے ھرفرد کو بھی آزادی کا حامی ومحامی دیکھنا چاہتے تھے اور آپ یہ بھی جانتے تھے کہ آزادی کی بنیاد صدق و صفاپر رکھی جائے تو راہ نجات تک رسائی آسان ھوجائے گی لہٰذاآپ نے سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے ایسا ہی چاہتے تھے۔وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے تاکہ اپنی سادگی کے ذریعہ قوم کی انگشت نمائی کا سدّ باب کرسکیں ۔ وہ آشرم میں رھتے، کپڑے کے طور پر روایتی ھندوستانی دھوتی اور شال کا استعمال کرتے، جس کو وہ خودہی چرخے کے ذریعہ بنتے تھے اور اپنے اس عمل سے یہ درس دیتے تھے کہ رھبرقوم کو آرام طلب نہیں بلکہ زحمت کش ھونا چاہئے۔ وہ سادہ اور سبز کھانا کھاتے، وہ روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لئے لمبے اپواس(روزے)رکھتے تھے۔
 ازدواجی زندگی: ابھی گاندھی جی صرف ١٣برس کے ہی ھوئے تھے کہ مئی ١٨٨٣.ء میں ان کے والدین نے ان کی شادی ١٤سالہ دوشیزہ'' کستوربا ماکھنجی'' سے کر دی جن کو   ''کستوربا'' بھی کہاجاتا تھا بلکہ بہت سے بزرگ افراد پیار سے ''با''کہتے تھے۔١٨٨٥.ء میں ان کے یہاں پہلی اولاد پیدا ھوئی لیکن وہ صرف کچھ دن ہی زندہ رھی اور اسی سال کے آغاز میں گاندھی جی کے والد کرمچند گاندھی بھی چل بسے۔کستوربا سے گاندھی جی کے چار بیٹے ھوئے جن کے نام:''ھری لال، منی لال، رام داس اور دیوداس '' تھے ۔
آزادی کا طریقۂ کار: گاندھی جی کے سرمیں یہ سودا سمایا ھواتھاکہ جب تک فرنگیوں کے تسلّط سے اپنے ملک اور اپنی قوم کو نجات نہیں دلائیںگے تب تک سکون کی سانس نہیں لیں گے اور فرنگیوں کا ھندوستان چھوڑنا ایک ناممکن امر نظرآرھا تھالہٰذا انھوں نے اپنی شاطرمزاجی کا استعمال کرتے ھوئے سوچا کہ ھم ان کے ہتھیار کو انھیں کے خلاف استعمال کریں گے لہٰذا یھی سوچ کر اپنی شادی کی انیسویں سالگرہ سے کچھ ماہ قبل ٤ستمبر١٨٨٨.ء میں لندن کے لئے عازم سفر ھوئے اور برطانیہ یونیورسٹی کالج آف لندن میں داخلہ لیا۔ شاھی دارالحکومت لندن میں ان کی زندگی اپنی ماں کی تعلیمات پر عمل پیرا ھوتے ھوئے گوشت ، شراب اور تنگ نظریہ سے پرھیز کرتے گزری۔گاندھی جی ان چیزوں کے کھانے کے بجائے بھوکا رھنے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ ان کے مذھب نے ان چیزوں کا استعمال حرام قرار دیا تھا؛ گاندھی جی نے اپنے اس عمل سے یہ سمجھایا ھے کہ اگر کوئی قوم کی رھبری کے خواب دیکھتا ھے تو سب سے پہلے اسے اپنے مذھب کی پسند اور ناپسند کا خیال کرنا پڑے گا، رھبریت کے لئے دین پرستی ضروری ھے، اگرکوئی شخص اپنے دین ومذھب کی پیروی کئے بغیر رھبری کاخواب دیکھتا رھے تو اسے منزل مقصود نہیں مل سکتی۔
تحریک آزادی:جب برطانوی سامراج نے جنوبی افریقہ میں مقامی بوئر باشندوں پر جنگ مسلط کی تو مہاتما گاندھی نے استعماری فوجوں کو ھندوستانیوں کی بھرتی کا یقین ان الفاظ میں دلایا:''اس حقیر پیشکش کا مقصد یہ یقین دلانے کی کوشش ھے کہ جنوبی افریقہ کی ملکہ کے دوسری رعایا کے دوش بدوش، ھندوستانی بھی میدان جنگ میں اپنی بادشاہت کی خدمت بجا لانے کے لئے تیار ہیں۔ اس پیشکش کا مقصد ھندوستانیوں کی وفاداری کا بیعانہ ھے''۔١٩٠٦.ء میں ، زولو جنوبی افریقہ میں نئی انتخابی چنگی کے لاگو کرنے کے بعد دو انگریز افسروں کو مار ڈالا گیا۔ بدلے میں انگریزوں نے زولو کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔گاندھی جی نے ھندوستانیوں کو بھرتی کرنے کے لئے برطانوی حکام کی حوصلہ افزائی کی۔ان کا کہنا تھا کہ اپنی شھریت کے دعووں کو قانونی جامہ پہنانے کے لئے ھندوستانیوں کو جنگی کوششوں میں تعاون کرنا چاہئے۔تاھم انگریزوں نے اپنی فوج میں ھندوستانیوں کو عھدے دینے سے انکار کر دیا تھااس کے باوجود انھوں نے گاندھی جی کی اس تجویز کو مان لیا کہ ھندوستانی زخمی انگریز فوجیوں کو علاج کے لئے اسٹیچرپر لاسکتے ہیں اور علاج کر سکتے ہیں۔ اس کی باگ ڈور گاندھی جی نے تھامی۔ ٢١جولائی ١٩٠٦.ء میں گاندھی جی نے انڈین اوپنین (Indian Opinion)میں لکھا کہ ''نیٹال حکومت کے کہنے پر، مقامی لوگوں کے خلاف جنگ کے لئے ٢٣ھندی باشندوں کی ایک کور کا قیام تجرباتی طور پر کیا گیا ھے''۔گاندھی جی نے انڈین اوپینین کے مقالوں کے ذریعہ جنوبی افریقہ میں ھندی لوگوں سے اس جنگ میں شامل ھونے کے لئے درخواست کی اور کہا: ''اگر حکومت صرف یھی محسوس کرتی ھے کہ فورس بیکار ھو رھی ھے تو اس وقت وہ اس کا استعمال کریں گے اور اصل لڑائی کے لئے ھندوستانیوں کو ٹریننگ دے کر اس کا موقع دیں گے''۔ گاندھی جی کی رائے میں ١٩٠٦.ء کا ڈرافٹ آرڈیننس ھندوستانیوں کی حالت مقامی شھری سے نیچے لانے جیسا تھا۔اس لئے انھوں نے ستیہ گرہ کے طرز پر ھندوستانیوں سے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا۔ان کا انداز تخاطب کچھ ایسا تھا:''یہاں تک کہ نصف برادری ھم سے کم جدید ہیں، انھوں نے بھی حکومت کی مخالفت کی ھے،پاس اصول ان پر بھی لاگو ھوتا ھے لیکن وہ پاس نہیں دکھاتے ہیں''۔١٩٢٧.ء میں گاندھی جی نے اس واقعہ کا ذکر یوں کیا: ''بوئر جنگ نے مجھے اتنا نہیں ڈرایا،جیسا کہ زولو''بغاوت''نے ڈرایا۔ کیوں کہ یہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ انسانیت کا شکار تھا، ایسا صرف میرا ہی خیال نہیں بلکہ ان انگریز وں کا بھی خیال ھے جن سے مجھے ملاقات کا موقع ملا''۔جب گاندھی جی١٩١٥.ء میں افریقہ سے واپس آئے تو تحریک آزادی کی بنیاد ڈال دی ۔اپریل ١٩١٨.ء میں پہلی عالمی جنگ کے آخری حصہ میں، وایسرائے نے دہلی میں جنگ کی کانفرنس میں گاندھی جی کو مدعو کیاکہ شاید سلطنت کے لئے اپنی حمایت ظاھر کریں اورھندوستان کی آزادی کے لئے ان کے معاملے میں مدد کی جائے۔ گاندھی جی نے جنگ کی کوششوں کے لئے فعال طور پر ھندوستانیوں کی بھرتی سے اتفاق کیا۔ ١٩٠٦.ء کی زولو جنگ اور١٩١٤.ء کی عالمی جنگ کے برعکس جب انھوں نے ایمبولینس کور کے لئے رضا کار بھرتی کئے تھے، اس وقت گاندھی جی نے جنگجو رضاکاروں کی بھرتی کی کوشش کی۔ جون ١٩١٨.ء کے ایک کتابچہ''بھرتی کے لئے اپیل''میں گاندھی جی نے لکھا: ''اس طرح کے حالات میں ھمیں اپنے آپ کا دفاع کرنے کی صلاحیت ھونی چاہئے جو ہتھیار اٹھانے اور انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت ھے اور اگر ھم ہتھیار کا استعمال کرنا سیکھنا چاہتے ہیں تو فوج میں شامل ھونا ھمارا فرض ھے''۔ حالانہ کے انھوں نے وائسرائے کے ذاتی سکریٹری کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ ''وہ ذاتی طور پر کسی کا قتل یا زخمی نہیں کرسکتے خواہ وہ دوست ھو یا دشمن''۔ گاندھی جی کی جنگی بھرتی مھم انکے عدم تشدد کی استقامت پر سوالیہ نشان لگاتی ھے جیسا کہ انکے اپنے دوست ''کو چارلی اینڈریوز'' نے قبول کیا ھے:''ذاتی طور پر میں انکے اس طرز عمل کو نہیں سمجھ پایااور یہ ایک ایسانکتہ ھے جھاں میں خود کو دردناک اختلاف میں پاتا ھوں''۔ گاندھی جی کے ذاتی سیکرٹری نے بھی تسلیم کیا کہ :''عدم تشدد اور ان کی بھرتی کی مھم کا سوال ھمیشہ موضوع بحث رھاھے''۔گاندھی جی نے انگریزی افسروں کی زبانی متعدد بار سنا تھا کہ ''پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو'' لہٰذا انھوں نے ان کی اس سیاست کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور جو انگریزی قافلہ برسوں سے ھندوستان میں ڈیرہ جمائے بیٹھا تھا اسے منھ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا، حالانکہ انھیں لندن میں ٹرین سے باھر بھی پھینک دیا گیا لیکن انھوں نے وہ زخم ہنستے ھوئے برداشت کئے کیونکہ ان کی نظر میں ان کا ہدف اھم تھا؛ آپ کو انگریزی قید خانہ کا مزہ بھی چکھنا پڑا اور ھندی زندان میں بھی مقید ھونا پڑا لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہیں کی کیونکہ انھوں نے امام حسین علیہ السلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا تھا یھی سبب ھے کہ انھوں نے انقلاب ھند کو امام حسین علیہ السلام کا مرھون منت قرار دیا ھے، وہ اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں: ''میں نے انقلاب کا درس امام حسین علیہ السلام سے لیا ھے، انھوں نے صرف بہتر افراد کے ساتھ ایسا انقلاب بپاکیا کہ یزید نام کو گالی بنادیا، میں بھی اپنے انقلاب میں بہتر وفاداروں کو لے کر آگے بڑھوں گا اور ھندوستان کو فرنگیوں کے چنگل سے نجات دلائوںگا '' گاندھی جی کا بیان اس بات کی عکاسی کررھا ھے کہ انھوں نے ھندوستان اور اس کی عوام کو انگریزی فوجیوں اورفرنگی حکومت سے نجات ضرور دلائی ھے لیکن اس نجات میں حقیقی رھبر آزادی ''امام حسین علیہ السلام '' کی ذات گرامی ھے، مہاتماگاندھی نے امام حسین علیہ السلام  کی پیروی کرتے ھوئے پورے ملک کو آزاد کرلیا توکیا ھم خود اپنی ذات کو اپنے نفس کے زندان سے آزاد نہیں کرسکتے! انقلاب لانے کے لئے حسین علیہ السلامی جذبہ اورگاندھی مزاج درکار ھے ورنہ آزادی کا تصور بیکار ھے۔ پالنے والے ھمیں توفیق دے کہ ھم اپنے نفس کے چنگل سے نجات پاسکیں اور راہ راست پر گامزن ھوسکیں۔''آمین''۔
منابع و ماخذ: (١)Stanley Wolpert: Gandhi's Passion, The Life and Legacy of Mahatma Gandhi, Oxford University Press
(٢)^ Fischer, Louis (1954). Gandhi:His life and message for the world. Mentor^ Tendulkar, D. G. (1951). Mahatma volume 1.۔ْ
(٣) Delhi: Ministry of Information and Broadcasting, Government of India.

(٤) بشارت حسین علیہ السلام قزلباش (28 اگست 2009). "How Gandhi collaborated with the Raj". دی نیشن. Retrieved 19 February 2011

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords