جمعہ، 21 اگست، 2015

معرفت امام حسین ع: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

 معرفت امام حسین(ع)، معرفت الٰھی کا سرچشمہ
 ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

معرفت ایک ایسی اہم شئے ہے کہ جس پر تمام اشیاء کا دارومدارہے یعنی ہر چیز کا ادراک صرف اور صرف معرفت پر موقوف ہے، مثلاًاحترام،عزت،محبت، عشق، عبادت اوراطاعت وغیرہ؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معرفت پر موقوف اشیاء کا دائرہ بہت وسیع ہے لہٰذا معرفت کاہونا ایک لازمی امر ہے اور اگر نہ ہو تو اس کا حاصل کرنا واجب ہے اس لئے کہ اگر معرفت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔شاید یہی سبب ہے کہ رسول اسلام ؐ نے اپنے اہل بیت ؑ یہاں تک کہ اہل بیت ؑ کے دامن سے متمسک افراد کو بھی پہچنوایا ہے 
 چاہے وہ تعصب کے دوردورہ کے باوجود فارس کا رہنے والا ہی کیوں نہ ہو، رسول اسلام ؐ اس کی شان میں فرماتے نظر آتے ہیں: ’’السلمان منا اہل البیت‘‘(۱)’’یعنی سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے‘‘۔
آخر کیا ضرورت تھی کہ تعصب کے دور میں ایک عجم کو عرب بنایا جائے؟ یہ صرف اورصرف ہمارے لئے معرفت کاایک باب کھولنا مقصود تھا کہ انسان پہلے سلمانؒ کو پہچانے پھر اہل بیت ؑکو پہچانے اور اہل بیت ؑکو پہچان کر خداوندعالم کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ معرفت اہل بیت ؑ کے بغیرمعرفت خداکاحصول ناممکن ہے۔ذرا ایک قدم اور آگے بڑھئے: مسجد رسولؐ میںتاحد نگاہ اصحاب رسولؐ کا مجمع ہے، حضوراکرمؐ منبرپر تشریف فرماہیں اور اصحاب کو وعظ و نصیحت فرمارہے ہیں ، آپ ؐکی نظروں نے دیکھا کہ گلشن امامت کا تیسرا پھول حضورؐکی نصیحتیں سننے کی خاطر آپ کی جانب بڑھ رہا ہے، اچانک عبا میں پیر الجھا اور بچہ گرنے لگاحضورؐ نے اپنے خطبہ کو وہیں پر روک دیا اور منبر سے اتر کرحسین ؑ کے پاس پہونچے اور زمین بوس ہونے سے قبل امامت کو رسالت نے سہارا دے دیا۔پھرامام حسین ؑکو اپنی آغوش مبارک میں لے کر منبر پر تشریف لائے اور اپنے اصحاب کی جانب رخ کرکے فرمایا:’’ھذا حسین فاعرفوہ‘‘ ’’ یہ حسین ہے اسے پہچانو‘‘۔
یہاں پہونچکر یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ کیا اصحاب رسولؐ،امام حسین ؑکو نہیں پہچانتے تھے،کیا انھوں نے ابھی تک امام حسین ؑکو نہیں دیکھاتھا؟ آخر پیغمبر اسلامؐ اپنے اصحاب کو کیا سمجھانا چاہتے ہیں؟۔جی ہاں! اصحاب رسول ؐ نے حسین ؑکو متعدد بار دیکھا تھا، جانتے بھی تھے کہ یہ رسول اسلامؐ کاچھوٹا نواسہ ہے؛ لیکن صرف جانتے تھے پہچانتے نہیں تھے،اور یہ دعویٰ دلیل سے خالی نہیں ہے،اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اسلامؐ، علی ؑکو خطاب کرکے فرماتے ہیں: ’’یا علی! تم کوکسی نے نہیں پہچاناسوائے میرے اور خداکے، مجھے کسی نے نہیں پہچانا سوائے خداکے اور تمہارے، خدا کو کسی نے نہیں پہچانا سوائے میرے اور تمہارے‘‘۔حضوراکرمؐ کے اس ارشاد سے صاف صاف ظاہر ہے کہ معرفت کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے کہ ہرکس و ناکس کو حاصل ہوجائے بلکہ معرفت کے حصول کی خاطر لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں۔اسی وجہ سے رسول اسلام ؐ، اپنے اصحاب کو خطاب کرکے فرمارہے تھے کہ صرف یہی سوچ کر خاموش مت بیٹھے رہنا کہ حسین ؑ، میرا چھوٹانواسہ ہے بلکہ اس کی معرفت بھی حاصل کرنااس لئے کہ معرفت کے بغیر اطاعت ممکن نہیں ہے، یہ صرف میرا نواسہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ فخر عبادت ہے،امامت کی تیسری کڑی ہے،جان اطاعت اورمرضی الٰہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمام اصحاب رسول ؐ نے امام حسین ؑکی بھرپور معرفت حاصل نہیں کی تھی ورنہ وہ میدان کربلا میں امام حسین ؑکا ساتھ دینے سے گریز نہیںکرتے۔ ہاں! جن صحابہ کو امام حسین ؑکی بھرپورمعرفت حاصل تھی انھوں نے اپنی گردنیںتلواروںکی دھاروں پر رکھ دیںاور اپنے سینوں کوامام حسین ؑکی سپر قراردیا،ان اصحاب میں سرفہرست، حبیب ابن مظاہر ؑ،مسلم بن عوسجہ ؑاورانس بن حارث ؑ ہیں۔
جس طرح ہر امر میںدرجات کالحاظ کیا جاتا ہے اسی طرح معرفت میں بھی درجات و مراتب پائے جاتے ہیںاور معرفت کا ایک درجہ، خدا کی معرفت ہے۔اب سوال یہ ہے کہ خدا کو کیسے پہچانیں؟ کیونکہ رسول اسلام ؐ نے خدا کی معرفت کو علی ؑ اور اپنے درمیان محدود کردیا ہے! تو جس رسولؐ نے محدود کیا ہے اسی رسولؐ نے معرفت خداوندعالم کا طریقہ بھی بتایا ہے،ارشاد ہوتا ہے:’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘(۲)’’یعنی جس نے اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلی ،اس نے خداوندعالم کی معرفت حاصل کرلی‘‘۔آنحضرتؐ کے ارشادسے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلینا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ اس کو پہچاننا بہت دشوار ہے اور اس کی عظمت یہ ہے کہ اگر اس کی معرفت حاصل ہوگئی تو خدا کی معرفت حاصل ہوگئی۔ جس نے اپنے نفس کوپہچان لیا گویا اس نے خدا کو پالیا،اور خدا کو پالینے کامطلب یہ ہے کہ اس نے سب کچھ پالیا،جیسا کہ امام حسین ؑ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے دعائے عرفہ کے فقرے: ’’الٰہی ماوجد فقدک ومافقد وجدک‘‘(۳)’’یعنی پروردگار! اس نے کیا پایا جس نے تجھے کھودیا! اور اس نے کیا کھویا جس نے تجھے پالیا!‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا ماحصل خدا کو پانا ہے، اگر خدا مل گیا تو سب کچھ مل جائے گا اور اگر وہ نہ ملا توسب کچھ ہونے کے باوجوکائنات فنا کی دہلیز پر دست گدائی درازکرتے نظر آئیںگے۔امام حسین ؑ کے یہ فقرے معرفت سے بھرپور ہیں، ان میں پوری کائنات کا ملجأ و ماویٰ فقط ذات الٰہی کو بتایا گیا ہے یعنی یہ سبق دیا گیا ہے کہ دیکھو معرفت کی ان منزلوں تک رسائی حاصل کرلو کہ تمہیں ہرسو خدا کا جلوہ نظر آئے، تمہارا ہرکام خدا کی راہ میں ہونا چاہیئے، ہر قدم اٹھانے سے پہلے مرضی الٰہی کے بارے میں غوروخوض کرو۔نفس کامرتبہ بہت بلند ہے، اس کو چند کھوٹے سکوں میں مت بیچ دینا یا اس کو مطیع شیطان نہ بننے دینا اس لئے کہ اگر ایسا ہوگیا تو یہ نفس پر ظلم ہوگا، نفس کو اپنا مطیع بنالوتو خود بخود میدان اطاعت کے سورما بن جائوگے۔ ایسا نہیںہے کہ نفس کی معرفت کاحصول غیر ممکن ہے، بلکہ معرفت نفس تک دست رسی حاصل کرنے والوں کی ایک طولانی فہرست ہے جو کتب تاریخ میں موجود ہے۔کیا آپ نے قرآن کی اس آیت پر غور نہیں کیا!: {لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مرضی الٰہی کے عوض اپنا نفس بیچ دیتے ہیں!}(۴) ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے کچھ خاص بندے ایسے بھی ہیں کہ جو مکمل طور پر اپنے نفس کو اپنے زیر تسلط قرار دے چکے ہیں، اب وہ نفس کے غلام نہیں بلکہ نفس کو اپنا غلام بناچکے ہیں،ورنہ اپنے نفس کے عوض مرضی معبودکوخرید لینا آسان نہیں۔نفس کو اپنا مطیع بنالینا،اطاعت خدا کی زمینہ سازی ہے، اور ہمیں تو قرآن نے ایسے نفس کی معرفت بھی کرائی کہ جس کو خدا نے نفس مطمئنہ کی سند سے نوازا، ارشادہوا: {اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی جانب پلٹ آ، تیرا رب تجھ سے راضی ہوگیا، آجا میرے بندوں میں داخل ہوجا، آجا میری جنت میں داخل ہوجا}(۵)۔آخر یہ کیسا نفس تھا کہ جس کو خداجنت کی دعوت دے رہا ہے! واقعاً یہ ایسا نفس تھا جو سراپاتسلیم بارگاہ الٰہی تھا۔ اگر خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعوت کے طلبگار ہیں تو ہمیں نفس کی غلامی سے رہائی حاصل کرکے خود نفس کو اپنا غلام بنانا پڑے گا، اس کے بعد منزل عرفان و معرفت تک رسائی کا امکان ہے اور اگر خواہشات نفسانی کے دام فریب میں پھنس کر رہ گئے تو ساحل نجات تک رسائی ممکن نہیں۔آخر کلام میں بارگاہ خداوندی میں دست بہ دعاہوں کہ پروردگار !ہمارے قلوب کو معرفت حسینیؑ کے گوہر نایاب سے مملو فرما ۔’’آمین‘‘۔ ’’والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ‘‘۔
حوالہ جات:(۱) انوار العرفان فی تفسیر القرآن:ج۵،ص۲۶۰۔(۲) اعجاز البیان فی تفسیر ام القرآن: ص۲۴۶؛ الامثل فی کتاب اللہ المنزل: ج۱۷، ص۹۱؛ انوارالتنزیل و اسرار التاویل: ج۴، ص۲۳۰؛ انوار درخشاں: ج۸، ص۲۶۱؛ البحرالمدیدفی تفسیر القرآن المجید: ج۱، ص۲۵۶۔ (۳) مفاتیح الجنان:دعائے عرفہ۔ (۴) سورۂ بقرہ؍۲۰۷۔(۵) سورۂ فجر؍۲۷ الیٰ ۳۰۔
ضیاء الافاضل مولانا سید غافرحسن رضوی ’’چھولسی‘‘

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords