جمعہ، 21 اگست، 2015

امام کاظم ع اور قرآن: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

 امام موسیٰ کاظم(ع) اور قرآن سے انسیت
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام ہمیشہ ہمراہ قرآن اورقرآن کریم سداہمراہ اہبیت علیہم السلام رہا اوران دونوںکی ہمراہی، صادق وامین رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر ایک آشکاردلیل ہے جس کاثبوت آج سے چودہ سوسال قبل،نوک نیزہ سے حاصل ہوچکاہے چونکہ فرستادہ ونمائندۂ ربّ الارباب ''حضرت ختمی مرتبت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم''کاارشادہےکہ یہ دونوں''قرآن وعترت''ہرگزایک دوسرے سے جدا نہیںہونگے حتیٰ کہ مجھ سے حوض کوثرپرملاقات کریںاوراس کاآشکار نمونہ اس وقت سامنے آیاجب سربریدہ نے نوک نیزہ پر سورۂ کہف کی تلاوت فرمائی اوریہ ثبوت دیاکہ اگرہماراتن بھی سرسے جداکردیاجائے تب بھی قرآن سے رشتہ نہیں ٹوٹ سکتا۔
آئیئے اسی اٹوٹ بندھن کوامام حسین علیہ السلام کے فرزندارجمند''حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام'' کی حیات طیبہ میںتلاش کرتے ہیںکہ آپ علیہ السلام کابھی قرآن سے وہی محکم ومستحکم رشتہ تھاجوآپ علیہ السلام کے جدنامدار''امام حسین علیہ السلام''نے سمجھایاہے یاکچھ فرق ہے؟
اسی عنوان کے مدنظر امام ہفتم علیہ السلام کی حیات پربرکت پرایک طائرانہ نظرڈالتے ہیںاوردیکھتے ہیںکہ آپ علیہ السلام کے اقوال میںقرآن کریم کس حد تک نافذہے؟
ہارون رشیدکے ساتھ آپ علیہ السلام کا ایک مناظرہ جوکہ علامہ مجلسی علیہ الرحمةنے(بحارالانوار:ج١٢میں)بالتفصیل ذکرکیاہے،اختصارکے پیش نظرایک طائرانہ نگاہ کے تحت اس کاخلاصہ،قارئین کرام کی خدمت میںپیش کیاجارہاہے۔
ہارون الرشید:آپ،علی علیہ السلام کوعباس پرکیوںترجیح دیتے ہیں،میراث رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کامستحق،عباس سے زیادہ علی علیہ السلام کوکیوںسمجھتے ہیں؟حالانکہ عباس ،رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچاتھے [۱]
امام کاظم علیہ السلام:مجھے اس موضوع سے معاف رکھو۔
آخرامام علیہ السلام نے اس طرح کیوںفرمایا،جواب کیوںنہیںدیا؟کیونکہ امام علیہ السلام اس آیۂ مبارکہ کوجامۂ عمل پہناناچاہتے تھے(واذا خاطبھم الجاھلون قالواسلاما[٢]
جب ان سے جاہل لوگ مخاطب ہوتے ہیںتووہ کہتے ہیںکہ تم سلامت رہو''تم پرسلام ہو''آخرایساکیوں؟کیاامام علیہ السلام،ہارون رشیدکوجاہل سمجھتے تھے؟نہیں امام علیہ السلام کومعلوم تھاکہ یہ ''ہارون''سب کچھ جانتاہے لیکن پھربھی جان کرانجان بن رہا ہے، یہ آیت جاہلوںکے خطاب سے متعلق ہے،توظاہرسی بات ہے کہ جان بوجھکرانجان بننے والابدرجۂ اولیٰ اس آیت میںشامل ہوجاتاہے۔
ہارون الرشید: قسم بخدامیںآپکواس وقت تک نہیںچھوڑوںگا،جب تک آپ مجھے جواب نہیںدیتے،''جب جہالت،جان کاجھنجال بن جاتی ہے توامام وقت کی خاموشی دین کے لئے جھنجال ثابت ہوتی ہے''لہٰذاجب ہارون نے قسم شرعی کھاکر جواب حاصل کرنے کی ٹھان ہی لی توامام علیہ السلام نے بھی اپنے سکوت کوتوڑڈالا......
امام کاظم علیہ السلام: رسول اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میراث،مہاجرین کے لئے معین کی تھی اورتمہارے ابّاجان''عباس''ایمان تو لائے لیکن انھوں نے ہجرت نہیں کی اورعلی علیہ السلام نے ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ہجرت بھی اختیارکی اورخداوندعالم فرماتاہے:
الذین آمنواولم یھاجروامالکم من ولایتھم من شیٔ حتیٰ یھاجروا [١]
وہ لوگ جوایمان لائے لیکن انھوںنے ہجرت نہیںکی ان کے ساتھ تمہاری کوئی ولایت اوردوستی نہیںہے یہاںتک کہ وہ بھی ہجرت کریں''تودوستی ممکن ہے''
امام علیہ السلام کے یہ سخن سن کرہارون رشیدکے چہرہ کارنگ لال پیلاہونے لگااورتلملاکربولا..............................................................................
ہارون الرشید: آپ،اپنے آپ کوعلی علیہ السلام کی طرف نسبت کیوںنہیںدیتے،رسول اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کیوںدیتے ہیںحالانکہ علی علیہ السلام،آپ کے والد ہیںاورپیغمبراسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم،آپ کے ناناہیں ؟
امام کاظم علیہ السلام:خداوندمنان نے جناب عیسیٰ علیہ السلام کوجناب مریم سلام اللہ علیہا کے ذریعہ،اپنے خلیل جناب ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کیاہے ....
ومن ذریتہ داؤد وسلیمان وایوب ویوسف وموسیٰ وھارون وکذالک نجزی المحسنین،وزکریاویحییٰ وعیسیٰ والیاس کل من الصالحین[۲]
اورہم نے فرزندان نوح میںسے دائودوسلیمان وایوب اوریوسف وموسیٰ کی''ہدایت کی''(ہم)اس طرح کے نیک لوگوںکوجزادیںگے،اور(اسی طرح)زکریاو یحیٰ اورعیسیٰ والیاس کی(ہدایت کی )یہ سب لوگ صالحین میں سے تھے۔
جب خداوندعالم جناب عیسیٰ علیہ السلام کوجناب مریم سلام اللہ علیہا کے ذریعہ،ابراہیم علیہ السلام کی جانب منسوب کررہاہے تواگرہم حسن وحسین علیہماالسلام اورسیدة نساء العالمین حضرت فاطمہ زہراصلوٰة اللہ علیہاکے وسیلہ سے اپنی نسبت ،رسول اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب دیںتوکیاحرج ہے؟
ہارون الرشید: اسلام میںزندیق بہت زیادہ ہیں،آپ اہلبیت علیہم السلام کے نزدیک زندیق کی کیا حیثیت ہے؟
امام کاظم علیہ السلام: زندیق وہ لوگ ہیںجنھوںنے خداوندعالم اور اسکے رسول کی تردیدکی،وہ لوگ کافر ہیںچونکہ وہ لوگ توحیدپرستی سے وادی کفر کی جانب گامزن ہو گئے اورخداوندعالم فرماتاہے(لاتجد قوما یومنون باللہ والیوم الآخر یوادون من حاداللہ ورسولہ ولوکان آبائھم اوابنائھم اوعشیرتھم...) [٣]
''اے رسول! تم کسی بھی باایمان قوم کو'' خداورسول کے دشمنوںکادوست نہیںپاسکتے چاہے''وہ دشمنان خدا''ان کے باپ،بیٹے،بھائی یارشتہ دارہی کیوںنہ ہوں۔
ہارون الرشید: ہمیںاس کانام بتائیںجس نے سب سے پہلے کفراختیارکیااورزندیق ہوگیا؟
امام کاظم علیہ السلام: سب سے پہلاکافر،شیطان ہے جس نے حکم خداوندی پر عمل نہ کرتے ہوئے حکم خداکوٹھکرایااورآدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ نہیںکیااور شیطان کے جواب کی عکاسی یہ آیت کر رہی ہے[٤]
اناخیرمنہ خلقتنی من ناروخلقتہ من طین[٥]
میںاس ''پتلہ''سے افضل ہوںچونکہ تونے مجھے آگ سے خلق کیاہے اوراس کومٹی سے،شیطان نے اس متکبرانہ جملہ کے ذریعہ حکم خداوندعالم کی مخالفت کی اورروز قیامت تک لئے اپنی نسل کوکافربناگیا۔
ہارون الرشید: کیاابلیس کے بھی نسل ہے،کیاوہ بھی صاحب اولاد ہے؟
امام کاظم علیہ السلام: ہاں! کیوں نہیں،وہ بھی صاحب اولاد ہے،کیاتم نے خداوندعالم کایہ قول نہیںسنا؟(الّاابلیس کان من الجن ففسق عن امرربہ أفتتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی وھم لکم عدومبین بئس للظالمین بدلا) [١]
سوائے ابلیس کے(سب نے سجدہ کیا)کہ وہ جنات میںسے تھااورفرمان الٰہی کے تحت نکال دیاگیاآیا(اس حالت میں)اس کواوراس کی نسل کومیری جگہ، اپنا اولیاء قراردیتے ہو؟حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں(ایساکام کرنے والے ستمگارہیں)ستمگروںنے کتنابراجاگزین اختیارکیاہے۔
نسل شیطان،ذریت آدم علیہ السلام کومزخرفات اورکذب وتہمت کے ذریعہ گمراہ کرتی ہے[۱]
مناظرہ طولانی ہے جس کاخلاصہ قارئین کرام کی خدمت میںپیش کیاگیا،آخرمیںہارون الرشید،لاجواب ہوگیااورامام علیہ السلام نے قرآن کے ذریعہ ایسے ایسے استدلال قائم کئے کہ کوئی گوشہ باقی نہیںچھوڑااورہارون جیسابادشاہ وقت اورسرسخت دشمن اہلبیت علیہم السلام،منھ کی کھاکررہ گیا۔
مناظرہ کے خلاصہ کے بعدامام علیہ السلام کی حیات طیبہ کے دیگرپہلوئوںپربھی ایک طائرانہ نظرہوجائے،آپ علیہ السلام،مدرسہ اہلبیت علیہم السلام کے شاگرد ''ہشام بن حکم'' کوعقل کی تعریف وتمجید کے عنوان سے ایک طویل وعریض نامہ تحریرفرماتے ہیںجس میںسے کچھ نکات کی جانب اشارہ کرنابہترہوگا۔
١۔اے ہشام! جان لوکہ خداوندعالم، صاحبان عقل وفہم کوبشارت دیتاہے اوران کی توصیف اس طرح فرماتاہے(ألذین یستمعون القول فیتبعون أحسنہ أولئک الذین ھداھم اللّہ وأولئک ہم أولوالالباب)[۳]
 اے رسول! بشارت دیجئے) ان لوگوں کوکہ جوباتوں کوسنتے ہیں اوران میںسے اچھی باتوں کواختیارکرکے ان پرعمل پیراہوتے ہیںوہی وہ لوگ ہیںجن کی خدا نے ہدایت کی ہے اوروہی صاحبان عقل ہیں۔
٢۔اے ہشام ! آگاہ ہوجائو کہ خداوندعالم عقل کے ذریعہ،انسانوںپراتمام حجت کرچکاہے اوراپنی ربوبیت کوتسلیم کرانابھی عقل کے سپردکردیاہے،اب دیکھنایہ ہے کہ کس انسان کی عقل اس کوکامیابی کے مراحل طے کراتی ہے اورکس کی عقل اسے گمراہی کے دلدل میںڈھکیلتی ہے،خداوندعالم نے عقل عطاکرکے اپنی ربوبیت کا اعلان کردیا(والٰھکم الٰہ واحدلاالہٰ الاھو الرحمن الرحیم)[٤]
تمہاراپروردگاریک وتنہاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں،وہ رحمن بھی ہے اوررحیم بھی،لہٰذاانسان کوچاہیئے کہ اس کی رحمٰنیت ورحیمیت سے سوء استفادہ نہ کرے ورنہ وہ....رحمٰن ہونے کے ساتھ ساتھ ''قہّار''بھی ہے،اس کی عبادت واطاعت کرنے میںخودانسان کا ہی فائدہ ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے،انسان جتنی زیادہ اس کی عبادت کرے گااتنی ہی اس کی رحمت،انسان کے شامل حال ہوگی۔
٣۔اے ہشام! خداوندمنان،اہل عقل کووعظ فرماتے ہوئے آخرت کی جانب رغبت دلاتاہے(وما الحیٰوة الدنیاالالعب ولھووللدارالآخرة خیرللذین یتقون افلا تعقلون) [٥]
زندگانی دنیا،لھوولعب(کھیل تماشہ)کے سواکچھہ بھی نہیں ہے اورپرہیزگاروں کے لئے دارآخرت بہترہے،کیاتم عاقل نہیں ہو؟
اس سے یہ بات بالکل صاف سمجھہ میں آتی ہے کہ صاحبان عقل،دنیاکوترجیح نہیںدیتے بلکہ ان کے ذہنوںمیں ہمہ وقت تصورآخرت رہتاہے۔
یاایک اشارہ ''مہدی عباسی'' کے دورکی جانب کیاجائے کہ جوامام کاظم علیہ السلام کے دورمیںبادشاہ وقت تھا،اس کے اور امام علیہ السلام کے درمیان بحث ہوئی، مہدی عباسی،ایک سال مدینہ گیااورزیارت قبرختمی مرتبت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فراغت کے بعدامام کاظم علیہ السلام کی خدمت میںپہونچااورشراب کی بحث چھیڑدی اس بحث سے اس کامقصدیہ تھا کہ علم امام علیہ السلام کاامتحان لے۔
مہدی عباسی: آیاشراب،قرآن کریم میںحرام قراردی گئی ہے؟
امام کاظم علیہ السلام: ہاں!  قرآن کریم نے شراب کوحرام قراردیاہے اوراس کاواضح طورپربیان ہے۔
مہدی عباسی: قرآن میںکس جگہ شراب کوحرام قراردیاگیاہے؟
امام کاظم علیہ السلام: خداوندمنان،پیغمبراسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کومخاطب قراردیتے ہوئے ارشادفرماتاہے:(قل انماحرم ربی الفواحش ماظھر منھا ومابطن والاثم والبغی بغیر الحق.....) [١]
اے میرے رسول!  ان سے کہہ دیجئے کہ میرے پروردگارنے برے کاموںکو حرام قراردیاہے''اب وہ کام آشکارانہ طورپرانجام دیئے جائیںیامخفیانہ طریقہ سے'' اور اسی طرح گناہ وناحق ستم کوحرام قراردیاہے........
''اے مہدی عباسی!'' اس آیت میںخداوندعالم نے لفظ''اثم'' کااستعمال کیاہے اوریہاں ''اثم'' سے مراد ''شراب'' ہے چونکہ خداوندعالم دوسری آیت میںارشاد فرماتاہے:(یسئلونک عن الخمروالمیسرقل فیھما أثم کبیر ومنافع للناس وأثمھماأکبرمن نفعھما)[٢]
''اے میرے رسول! '' آپ سے شراب اورجوے کے بارے میںسوال کرتے ہیںتوان سے کہدیجئے کہ یہ دونوںکام گناہ کبیرہ ہیںاوران میںلوگوںکے لئے فائدہ ہے''لیکن''......ان کاموںکاگناہ،ان کے فوائدسے''کہیں''زیادہ ہے۔
''اے مہدی عباسی!''  اگرسورۂ اعراف کی آیت میںتمہیںیہ اعتراض ہوکہ اس آیت میں صراحتاََ شراب کاتذکرہ نہیںہواہے توسورۂ بقرہ کی یہ مذکورہ آیت دیکھ لوکہ اس میںبالکل صاف وشفاف اورآشکارطریقہ سے شراب کوحرام قراردیاگیاہے[٣]
مہدی عباسی،امام کاظم علیہ السلام کے استدلال سے بہت زیادہ متأثرہوااوربے اختیار،علی بن یقطین کی طرف رخ کرکے کہا:''خداکی قسم یہ فتویٰ،خاندان ہاشمی کا فتویٰ ہے''[٤]
علی بن یقطین نے کہا: ''خداوندعالم کالاکھ لاکھ شکرہے کہ اس نے علم ودانش کوتم ''خاندان پیمبر''میںقراردیاہے''(گویاعلی بن یقطین کاہدف یہ تھاکہ بنی عباس و بنی ہاشم کے درمیان قرابت ونزدیکی کے تحت امام کاظم علیہ السلام کاعلم ،مہدی عباسی کے لئے بھی باعث افتخاروسربلندی ہے۔
مہدی عباسی،علی بن یقطین کے جواب سے بہت ناراض ہوااورابھی تک جس غصہ کوپئے ہوئے بیٹھاتھا،ابن یقطین کی بات برداشت نہ کرسکا،پیمانۂ صبرلبریزہوگیااورغضب آلودلہجہ میںبولا: ''اے رافضی! توسچ کہہ رہاہے''[٥]
گویاتیربالکل نشانہ پرلگاتوپانی جھیل میںجاناہی تھا،علی بن یقطین کے مفہوم نے اپنامصداق تلاش کرلیاتھااورجب شیعیان علی علیہ السلام کے مفاہیم،مصادیق کی جانب رجوع کرتے ہیںتوتاریخ گواہ ہے کہ ان کورافضی کے لقب سے ہی نوازاجاتاہے۔
اسی طرح امام علیہ السلام کی حیات مبارک کے کسی بھی گوشہ پر نظرکیجئے ،آپ علیہ السلام کاہر قول اورہرفعل قرآن سے انسیت اورلگائوسے سرشارنظرآتاہے،اس مختصر سی گفتگوسے یہ اندازہ تو بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ ائمہ علیہم السلام کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ حضرات ''کسی بھی میدان میں''قرآن سے جدانہیںہوئے چاہے وہ مناظرہ کا میدان ہویاتبلیغی میدان،اپنی حیات کامیدان ہویامیدانِ زندگانیِ عوام،مقالہ کی ظرفیت اوربحث کے طولانی ہونے کے سبب اسی پر اکتفا کی جاتی ہے چونکہ ہم کوزہ میں سمندرکونہیںسماسکتے۔
آخرکلام میںکاظم الغیظ علیہ السلام کے پروردگارسے دست بہ دعاہوںکہ پروردگار! ہمیںبھی اپنے ائمہ کے نقش قدم پرگامزن ہونے کی توفیق مرحمت فرمااورہمیں بھی کسی میدان میںقرآن کریم سے جدانہ کرنا۔
                                       الٰہی آمین
                             والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
            ضیاء الافاضل مولانا سید غافر حسن رضوی چھولسی 

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords