جمعہ، 21 اگست، 2015

ذات علوی، عالمی پیمانہ پر: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی



حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی عالمی پیمانہ پر

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی چھولسی

ذات علوی کبھی کسی دور میں محتاج تعارف نہیں رہی ،جو بھی علی  کو دیکھتا تھا بے اختیار آپ کا مدح سرا ہو جاتا تھا اور آپ  کا قصیدہ پڑھنے لگتا تھا یہاں تک کہ آپ کا قصیدہ آپ  کے دشمنوں نے بھی پڑھا اور آج بھی پڑھ رہے ہیں ،چونکہ آپ  جیسا خدا کا بندہ آج تک کسی نے نہیں دیکھا اور نہ ہی اس دنیا میں کوئی آپ  کی مثال ہو سکتا ہے ،کہیں تو دشمن کو معاف کرتے نظر آتے ہیں ،کہیں کاسۂ شیر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں ، آخردنیا اس شخص کا جواب لائے بھی تو کیسے لائے جس نے اپنے قاتل کو قیدی دیکھنا گوارہ نہیں کیا اور اس کے سامنے ایسا اخلاق پیش کیا کہ دنیائے انسانیت انگشت بدنداں ہے،اسی لئے جو بھی آپ کی شخصیت کو دیکھتا ہے ،وہی آپ سے متأثر ہوکر آپ کی تعریف کرنے لگتا ہے ۔
(چاہے وہ کسی بھی نژاد کا انسان ہو)انسانیت کے ناطہ علی کی تعریف کرتا نظر آتا ہے، چونکہ علی  کے سوا دنیائے انسانیت نے انسان کامل نہیں دیکھا۔
اب ہم عالمی پیمانہ پر علی  کے فضائل بیان کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دنیا کے دانشمندوں کی نظروں میں حضرت علی علیہ السلام کی کیا قدرو منزلت ہے؟

(شیعہ علماء اور دانشمندوں کی نظر میں)
١۔ دنیائے اسلام کے مشہور و معروف فلسفی''خواجہ نصیر الدین طوسی''فرماتے ہیں:۔حضرت علی تمام لوگوں سے کہیں زیادہ عالم و دانا تھے ، آپ زبر دست دور اندیشی کے مالک تھے اور ہمیشہ پیغمبرۖکے ساتھ رہا کرتے تھے،سب سے زیادہ عفو و بخشش کرنے والے تھے،حضور اکرمۖ کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ متقی ،عابد و فاضل تھے ،آپ  کا ایمان سب سے قوی تھا ،آپ کی رائے سب سے محکم تھی،قرآن کی حفاظت اور اس کے نفاذ میں سب سے زیادہ توجہ دیتے تھے ،آپ کی دوستی اور محبت واجب ہے اور مقام و منزلت کے اعتبار سے آپ رسول اکرم ۖ کے برابر ہیں،آپ  جودو سخا اورفیاضی کے سر چشمہ تھے اسی لئے تمام دانشوروں نے اپنے علم کو آپ سے ملایا ہے(تجریرالاعتقاد،مبحث پنجم)
٢۔اخلاق و انسانیت کے بہترین نمونہ،حافظ و مفسر قرآن''علامہ سید رضی اعلیٰ اللہ مقامہ''فرماتے ہیں:۔میں نے جو نہج البلا غہ کو جمع کیا تو صرف اس مقصد کے پیش نظر تھا کہ کلام و بلاغت میں امیر المومنین کے مقام کو اجا گر کروں ،اگر چہ آپ بے شمار نیکیوں اور فضیلتوں کے مالک تھے اور کمال کے آخری درجہ پر فائز تھے (نہج البلاغہ،مقدمہ)
٣۔علم و فن کے عظیم عالم اور عالم اسلام کی ایک نادر شخصیت ''شیخ بہا ء الدین عاملی''رقمطراز ہیں:۔علی ایسے جواں مرد تھے کہ آپ کی عظمت کے بارے میں جو کچھ بھی چاہو کہہ سکتے ہو ،بس وہ نہ کہو جو عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں کہا ہے ،آپ وہی تھے جنھیں پیغمبر اسلام ۖ نے حکم خدا کے تحت روز غدیر لوگوں کی امامت اور قیادت کے لئے معین فرمایا اور اس کی تاکید بھی کی ،آپ معززترین مخلوق اور مقدس ترین انسان تھے ،آپ حسب و نسب کے اعتبار سے پاکیزہ ترین تھے ،خاندان قریش کے دامن میں آپ نے پر ورش پائی ،آپ  کشتی نوح  کا راز، آتش کلیم کی شعاع اور تخت سلیمان کا بھید تھے(الغدیر:ج١١  ص:٢٤٨)
٤۔اسلامی دنیا کے عظیم ترین فلسفی و طبیب،علم منطق کے مجدّد''شیخ ابو علی سینا''فرماتے ہیں:۔''علی بین الناس کاالمعقول بین المحسوس''  یعنی علی  کی مثال انسانوں میں ویسے ہی تھی جیسے محسوس کے درمیان ایک معقول کی(حاشیہ شفا،معراج نامہ ابن سینا)
میرے خیال سے شیعوں کے نظریات یہی کافی ہیں ،میرا یہ ارادہ ہے کہ اہل سنت علما ء کے نظریات زیادہ بیان کئے جائیںاسی لئے...........

(اہل سنت علماء و دانشمندوں کے نظریات)
١۔شافعی مذہب کے امام''محمد بن ادریس شافعی''علی کے فضائل اس طرح بیان کرتے ہیں:۔
عَلِیّ     حُبّہ            جُنّة                           اِمَامُ النّاسِ   وَ  الجِنَّة
وصیُّ المُصطَفَیٰ       حَقّاََ                         قَسِیمُ النَّارِ   وَ  الجَنَّة
یعنی علی کی دوستی آتش دوزخ سے سپر ہے ،آپ جن و انس کے امام ہیں ،آپ محمد مصطفی ۖ کے حقیقی وصی و جانشین ہیں اور دوزخ و جنت کو تقسیم کرنے والے ہیں(دیوان شافعی،چاپ مصر،ص:٣٢)
٢۔ حنبلی مذہب کے امام''احمد بن حنبل شیبا نی''رقم طراز ہیں:۔علی  ابن ابی طالب  میں جتنے فضائل تھے اور کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ،رسول کے کسی بھی صحابی کے لئے اتنے فضائل نقل نہیں ہوئے(المراجعات:ص٢٨١،چاپ سوم)
٣۔اہل سنت کے شہرۂ آفاق عالم ،ادیب ،صاحب تفسیر کشاف''زمخشری صاحب''علی  کی مدحت ان الفاظ میں کرتے نظر آتے ہیں:۔میں ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس کے فضائل سے دشمنوں نے حسد و کینہ اور دشمنی کی وجہ سے انکار کیا اور ان کے دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے فضائل پر پردہ ڈالا،پھر بھی ان کے فضائل اتنے زیادہ پھیلے ہوئے ہیں کہ مشرق و مغرب کو گھیرے ہوئے ہیں(زندگانی امیر المومنین:ص٥)
٤۔اہل سنت کے مشہور و معروف تاریخ داں اور شہرۂ عالم شرح نہج البلاغہ کے شارح''جناب ابن ابی الحدید معتزلی''کچھہ اس طرح علی کے ثنا خواں ہیں:۔عالم بالا و فضائے ملکوت، وہی تربت پاک ہے جس نے آپ کے مقدس بدن کو آغوش میں لیا ہے ،اگر آپ  کے وجود میں آثار حدوث واضح نہ ہوتے تو میں یہ کہتا کہ آپ جسموں کو روح بخشنے والے اور زندہ موجودات کی جان لینے والے ہیں ،اگر طبیعی موت آپ کے وجود پر اثر انداز نہ ہوتی تو میں یہ کہتا کہ:آپ سب کو روزی دینے والے ہیںاورآپ ہی سب کو بخشنے والے ہیں (یہ آپ کی مرضی ہے کہ کسی کو زیادہ بخشیں اور کسی کو کم)بس میں تو یہی جانتا ہوں کہ اب اس میں کوئی چارۂ کار نہیں کہ آپ کے فرزند ''مہدی''تشریف لائیں اور تمام کائنات پر دین و عدل و انصاف کا پرچم لہرائیں ،میں اس دن کی تمنا اور آرزو میں ہوں کہ جب خالص و خالص عدل و انصاف کی حکومت قائم ہوگی(القصائد الشیخ العلوتات،ص:٤٣،طبع بیروت)
٥۔تفسیر مفاتیح الغیب کے مفسر،اشارات ابن سینا کے شارح،اور با کمال دانشور''جناب فخر رازی''علی  کا قصیدہ اس طرح پڑھتے نظر آتے ہیں:۔جو کوئی دین کے معاملے میں علی  ابن ابی طالب  کو اپنا امام تسلیم کرے ،بے شک وہ کامیاب ہے ،کیونکہ رسول اکرمۖ نے فرمایا ہے: خدا حق کو علی کے گرد گھمانا (جدھر علی جائیں ادھر ہی حق کو موڑ دینا)(تفسیر کبیر،فخر رازی،ج:١  ص:١١١، الغدیر،ج:٣   ص:١٧٩)
٦۔حنفی مذہب کے فقیہ ،حافظ اور مشہور خطیب''خطیب خوارزمی''علی کی مدحت اس طرح کرتے ہیں:۔کیا ابو تراب جیسا اور کوئی جوانمرد ہے؟کیا ان جیسا مقدس امام روئے زمین پر وجود رکھتا ہے؟جب کبھی میری آنکھوں میں درد ہوتا ہے تو اس کی شفا کے لئے وہ خاک'' تو تیا'' بنتی ہے جس پر آپ  کے قدم مبارک پڑے ہوں ۔
علی ، وہ ہیں جو راتوں کو محراب عبادت میںگریہ و زاری کرتے تھے اور دن ہنستے ہوئے میدان کارزار میں گم ہوجاتے تھے ،ان کے ہاتھ بیت المال کے درہم و دینار سے خالی تھے ۔
آپ وہی بت شکن تھے جنھوں نے دوش پیمبرۖ پر قدم رکھے ،تو گویا تمام لوگ چھلکے کی مانند ہیں اور ہمارے مولا علی مغزاور گودہ کی مثل ہیں (الغدیر،ج: ٤،ص:٣٨٥)
٧۔مصرکی فکری تحریک کے ایک علمبردار''شیخ محمد عبدہ''مولائے کائنات کی توصیف ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔....جب میں نہج البلاغہ کی چند عبارتوں کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کر رہا تھا ،تو میری نظروں کے سامنے ایسے مناظر آ جاتے تھے جو فصاحت و بلاغت کی طاقت کی کامیابی کے زندہ گواہ تھے ،اس میدان کارزار کا سورما ،جس نے اس کامیابی کے پرچم کو لہرا یا تھا ''امیر المومنین  ''کی ذات گرامی تھی۔
میں جب بھی اس کتاب کے مطالعہ کے دوران ایک فصل سے دوسری فصل تک پہونچتا تھا تو محسوس کرتا تھا کہ کلام و بیان کے پردے تبدیل ہو رہے ہیں ،کبھی خود کو ایسی دنیا میں پاتا تھا کہ جہاں معانی کی بلند و بالا ارواح عبارتوں کے تابناک زیورات سے مزین ،انھیں آباد کئے ہوئے ہیں ، اور کبھی یہ پاتا تھا کہ ایک نورانی عقل ،جو جسم و مادیات سے ،کسی قسم کی مشابہت نہیں رکھتی،عالم الوہیت جدا ہوکر ،انسانی روح سے پیوست ہو گئی ہے اور اسے طبیعت کے پردوں سے نکال کر ،عالم ملکوت میں پہونچاکرتخلیق کی شعاعوں کے عالم شہود سے ملحق کر رہی ہے (مقدمہ ، شرح نہج البلاغہ،عبدہ)
٨۔ایک مشہور ومعروف مصری عالم''محمد فرید وجدی''ذات علوی کے کچھ یوں ثنا گر ہیں:۔حضرت علی کی ذات گرامی میں ایسے صفات جمع تھے جو دوسرے خلفاء میں نہیں تھے ،آپ علم کی انتہا،بلند شجاعت اور درخشاں فصاحت کے مالک تھے ،یہ صفات آپ کی اخلاقی نیکیوں اور ذاتی شرافتوں کے ساتھ گھل مل چکے تھے،ایسی مثالیں انسان کامل کے علاوہ،کسی اور میں نہیں پائی جاتی ہیں(دائرة المعارف ، ج : ٦ ، ص :٩ ٥ ٦ )
٩۔ادبیات کے ایک مصری پروفیسر''نائل مرصفی''وصی رسول کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:۔خدا وند عالم نے ،نہج البلاغہ کو ایسی واضح دلیل قرار دیا ہے ،جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ بے شک علی نور،فلسفہ،علم ،رہنمائی اور قرآن کے اعجازو فصاحت کا ایک زندہ ٔ جاوید نمونہ ہیں علی کی اس کتاب میںاتنے قابل قدرو عاقلانہ اقوال ،صحیح سیاست کے قواعد،واضح نصیحتیںاور دلیلیں موجود ہیں کہ عظیم حکمائ،بے نظیر فلاسفہ، اور نامور خدا شناس بھی ایسا کام نہیں کر سکے ہیں،علی  اس کتاب میں علم ،سیاست اور دین کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے ہیں اور ان تمام مسائل میں ایک غیر معمولی ممتاز شخصیت کے حامل نظر آتے ہیں۔
اس کتاب کو علمی لحاظ سے پہچاننے کے بعد ،اگر آپ اس کے ادبی مقام و منزلت کو بھی پہچاننا چاہتے ہیں تو اس سلسلہ میں اتنا کہنا کا فی ہے کہ یہ بات ایک زبردست قلم کار ،بلیغ خطیب،اور عظیم شاعر کی قدرت و توانائی سے خارج ہے کہ وہ کما حقہ اس کی توصیف کر سکے،اور ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ آپ کی یہ کتاب ،تہذیب و تمدن کی زیبائی اور صحرا نشینوں کی فطری فصاحت کا سنگم ہے اور حق کی تنہا منزل مقصود ،جسے پانے کے بعد اطمینان کے ساتھ ،اس نے اپنا مسکن بنا لیا ،وہ آپ ہی کا کلام ہے(ما ھو نھج البلاغہ،علامہ شہرستانی،ص:٥)
١٠۔مصر کی ایک نامور علمی اور سماجی شخصیت''عباس بن محمود عقا د''علی کی توصیف ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔انسانی روح کے ہر گوشہ و کنار کا علی  ابن ابی طالب  کی زندگی سے واسطہ ہے ،کیونکہ تاریخ کی تمام عظیم شخصیتوں اور بہادروں کی زندگی میں صرف آپ کی زندگی ہے جو عالم انسانیت کو ہر پہلو سے اپنے بلیغ کلام کے ذریعہ مخاطب قرار دیتی ہے اور قوی ترین محبتیں ،نصیحت حاصل کرنے کے اسباب اور افکار و اندیشے جو پوری تاریخ بشریت میں ممکن ہے انسانی روح کو شعلہ ور کر سکیں ،آپ کی حیات کے صفحات میں موجود ہے ۔
فرزند ابو طالب  کی زندگی مہر و محبت اور شرف و منزلت سے بھر پور جزبات و احساسات سے سر شار ہے ،کیونکہ آپ خود بھی شہید ہیں اور شہیدوں کے باپ بھی ہیں ۔علی اور ان کی تاریخ سلسلۂ شہادت اور فتح وکامرانی کے طولانی میدانوں پر مشتمل ہے جو اس کے متلاشیوں کے لئے یکے بعد دیگرے نمایاں ہوتے جاتے ہیں کبھی عمر رسیدہ افراد کی شکل میں،جن کے چہروں پر بڑھاپے کاوقار اور سنجید گی نمایاںہے اور بے باک تلواروں نے ان کے جلال میں اضافہ کر دیا ہے اور کبھی جوانوں کی شکل میں جن کے ساتھ زمانہ نے جلدبازی کی اور ابھی وہ جوانی کی بہار میں تھے کہ ان کے اور ان کی زندگی کے درمیان حائل ہو گیا اور کبھی پانی پر بھی پابندی لگائی گئی اور تشنہ لبی کی حالت میں موت کے گھاٹ پر قدم رکھا اور نزدیک ہے کہ ان کی شہادت کے ساتھ ان کے خون سے طبیعت کے مظاہر لالہ گوں ہو جائیں(عبقریة الامام،ص:٣)

(غیر مسلم دانشوروں کے نظریات )
١۔مجلہ '' الھلال ''مصرکے مدیر اور زبردست تاریخ دان و اہل قلم''جرجی زیدان''داماد رسولۖ کی تعریف اس انداز سے کرتے ہیں:۔
کیا علی پیغمبرۖ کے چچیرے بھائی نہیں تھے؟کیا آپ متقی و پرہیز گار عالم اور عادل نہیں تھے ؟کیا وہ وہی با اخلاص و با غیرت شخص نہیں تھے جن کی شجاعت اور غیرت کی بدولت اسلام اور مسلمانوں نے عزت پائی؟(١٧،رمضان،ص:١١٦)
٢۔ایک مشہور و معروف انگلش فلسفی''ٹامس کارلایل''امیر کائنات کی خدمت میں کچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:۔جہاں تک علی  کا تعلق ہے تو اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ ہم ان سے الفت و محبت کریں کیونکہ وہ بلند پایہ اور عظیم انسان تھے،ان کے سر چشمۂ ضمیر سے نیکی اور مہرو محبت کے سیلاب پھوٹتے تھے ،ان کے دلوں سے شعلے بھڑکتے تھے،وہ غضبناک شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے ،لیکن ان کی شجاعت ،مہربانی ،محبت ،عنایت،کرم اورنرم دلی سے آمیختہ تھی۔
وہ کوفہ میں اچانک فریب اور دھوکہ کے تحت مارے گئے اوراس جرم کا سبب آپ کی شدت عدل و انصاف بنی کیونکہ وہ ہر ایک کو اپنا جیسا عا دل سمجھتے تھے ،جب ان کے قاتل کے بارے میں گفتگو چلی تو آپ نے اپنے بیٹوں سے فرمایا :اگر میں زندہ بچ گیا تو خود جانتا ہوں کہ کیا کروں گا اور اگر وفات پا گیا تو یہ امر تمھارے سپرد ہے ،اگر قصاص لینا چاہو تو ،تلوارکی ایک ضربت سے سزا دینا اور اگر بخش دوگے تو یہ بات تقویٰ کے قریب ہے (صوت العدالة،ج:٥     ص:١٢٢٩)
٣۔ایک عیسائی مفکر اور زبر دست مصنف''جبران خلیل جبران''علی کی مدح و ثنا اس طرح کرتے ہیں:۔میرے عقیدہ کے مطابق ،فرزند ابو طالب دنیائے عرب کے وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے تمام دنیا کی روح سے رابطہ قائم کیا اور اس کے ساتھ ہم نشین ہو ئے اور راتوں کو اس کے ہمدرد و ہمراز بنے ،آپ پہلے شخص تھے جن کے لبوں نے اس روح کے نغموں کی موسیقی کو ایسے لوگوں کے کانوں تک پہونچایا جو اس سے پہلے ایسے نغمے نہ سن پائے تھے ۔
اس بنا پر وہ آپ کے روشن بیانات کی راہوں اور اپنی سابقہ تاریکیوں کے درمیان سرگرداں ہوئے ، لہٰذا جو کوئی ان نغموں کا شیدا اور فریفتہ ہوا ،اس کی فرفتگی مطابق فطرت ہے اور جس نے ان سے دشمنی مول لی وہ ،جاہلیت کی اولاد میں سے ہے ۔
علی اپنی عظمت پر قربان ہوکر اس دنیا سے اس حالت میں گئے کہ نماز سے آپ کے لبہائے مبارک اور شوق پروردگارسے آپ کا دل لبریز تھا ، دنیائے عرب ،علی کے حقیقی مقام اور قدرو منزلت کو نہ پہچان سکی ، لیکن آپ  کی ہمسائیگی میں فارس کے کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے موتی اور کنکریوں میں فرق ظاہر کردیا ،علی نے ابھی پیغام کو مکمل طور پر دنیا تک نہیں پہونچایا تھا کہ عالم ملکوت کی طرف کوچ کر گئے ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ اس سے قبل کہ آپ اس عالم خاکی سے آنکھ بند کریں خوشی و مسرت کا تبسم آپ کے رخ پر نمودارتھا۔
علی کی موت،روشن ضمیر انبیاء کی موت جیسی تھی ،وہی انبیاء جو ایک شہر کی طرف مبعوث ہوتے تھے یا ایک ایسے زمانہ کے لوگوں میں زندگی بسر کرتے تھے جو ان کے لائق نہیںتھے،اور بے وطنی و تنہائی سے دچارہوجاتے تھے(صوت العدالة،ج:٥ ص:١٢٢٢)
  ٤۔ روس کے ایک تاریخ دان و مشرق شناس اور لینن گراڈ سرکاری یو نیورسٹی کے پرو فیسر''ایلیا پا ولویچ پطرو شفکی''علی  کے فضائل میں اس طرح زبان کھولتے ہیں:۔علی محمد ۖکے تربیت یافتہ اور شدت کے ساتھ رسول اکرمۖ اور اسلام کے وفادار تھے ،علی شوق اور عشق کی حد تک دین کے پابند تھے، صادق اور سچے تھے،اخلاقی امور میں بہت باریک بینی سے کام لیتے تھے،بہادر بھی تھے،اولیاء کے تمام صفات آپ کی ذات گرامی میں جمع تھے(علی و نبوة،ص:١٥٨،طبع مصر)
اختصار کے مد نظر اسی پر اکتفا کی جاتی ہے انشاء اللہ ''بقید حیات،، آئندہ بقیہ حضرات کے نظریات کو پیش کیا جائے گا،ہم اس بات سے اپنے مقالہ کو منزل اختتام تک پہانچاتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا ہے کہ اس طرح کی زندگی گذارو کہ ہر انسان تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے۔
خدا یا ہمیں بھی نقش علوی پر گامزن فرما(آمین)
والسلام:۔سید غافر حسن رضوی چھولسی(ہندی)

                                                                             قم المقدسہ (ایران)

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords