جمعہ، 21 اگست، 2015

نواب اربعہ اور ان کی ذمہ داریاں: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

 نواب اربعہ اور ان کی ذمہ داریاں
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
ہمارے آخری رہبرو پیشوا حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف،۱۵شعبان المعظم ۲۵۵ھجری "شہر سامراء" میں اس د نیا میں تشریف لاِئے.[1]

[1]۔ الفصول المھمّۃ:ص/۳۰۔  الغیبۃ:ص/۱۴۱۔  روضۃ الواعظین:ص/۲۹۲۔  الاصول الکافی:ج/۱،ص/۵۱۴۔                            اعلام الوریٰ:ص/۲۱۸۔  الارشاد:ص/۳۴۶۔


اوراپنی آمدِ پُربرکت سے ماہِ شعبان کے ساتھہ ساتھہ جہان اسلام کوبھی معظم فرمایا آپ{عج} کے القاب مبارکہ تو بہت ہیں لیکن آپ{عج}کا اصلی اسم مبارک وہی ہے جو آپ کے جد امجد پیغمبراسلام صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا "یعنی:م ح م د" اور آپ{عج} کی کنیت بھی وہی ہے جو آپ{عج}کے جد نامدار کی کنیت تھی "یعنی:ابوالقاسم".[1]
قارئین کرام: جیسا کہ آپ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ معصومین علیہم السلام نے آپ{عج} کے اصلی نام سے پکارنے کو منع فرمایا ہے لہٰذا مینے اصلی نام سے گریز کرتے ہوئے اشارتاً الگ الگ حروف میںتحریرکردیا ہے۔
آپ{عج}کے والدِ گرامی کا اسمِ مبارک "حسن علیہ السلام" اور لقب "عسکری" ہے جو ہم "شیعوں" کے گیارھویں رہبرو پیشوا اورامام ہیں اور آپ{عج} کی والد ہ گرامی کا اسمِ مبارک "نرجس خاتون" ہے اور ان کو "ریحانہ،سوسن اور صقیل" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے.[2]
آپ{عج} کی ولاد ت کے دوران اتنا پُرآشوب ماحول تھا کہ آپ{عج} کی ولادتِ با سعادت کوتمام لوگوں سے پنہاں رکھا گیا یہاں تک کہ آپ{عج} کے حقیقی شیعوں سے بھی مخفی رکھا گیا، اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیعوں کا سہارا لیکر دشمن، شمع امامت کو گل کردے۔
آپ{عج} چمنستا ن رسالت و امامت کے وہ مہکتے ہوئے گل گلاب تھے کہ جس کی خوشبو نے تمام عالم کی مشام کو معطر کررکھا تھا، اس سے پہلے کہ اس عطر مجسم کی مہک مشام دشمن تک پہونچے، حکم الٰہی کے تحت ۲۶۰ ھجری میں "اپنے والدِ گرامی کی پُردردوجانسوز شہادت کے سال" آپ{عج} نے غیبتِ صغریٰ اختیار کی جوکہ ۳۲۹ ھجری میں منزل اختتام تک پہونچی اور غیبتِ صغریٰ سے متصل ہی غیبتِ کبریٰ کا آغاز ہوگیا اورغیبت بھی ایسی غیبت کہ خداوندمنان بھی اس منتظر کا منتظِر نظر آیا اورارشادہوا:۔۔۔۔
"فانتظروا انی معکم من المنتظرین"{[3]}
انتظار کرو کہ میں بھی تمہارے ساتھہ "اس کا" منتظر ہوں۔
ہم لوگ، غیبت کے اسرارورموز سے واقفیت نہیں رکھتے لیکن علماء کرام نے جو غیبتِ حضرت{عج} کے اسبا ب بیان کئے ہیں ان میں سے مشہورومعروف اسباب تین ہیں:
۱۔ لوگوں کی آزمائش۔
۲۔ حفاظتِ امام زمانہ{عج}۔
۳۔ طاغوت زمانہ کی بیعت سے آزادی۔


{لوگوں کی آزمائش}
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب میرا پانچواں فرزند "امام زمانہ عج" غیبت اختیار کرلے تو تم لوگ اپنے دین کی اچھی طرح حفاظت کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دین سے خارج کردے۔۔خداوندمنان، میرے بیٹے کی غیبت کے ذریعہ اپنے بندوں کو آزمائش و امتحان میں مبتلا کرے گا۔[4]  

{حفاظتِ امام زمانہ "عج"}
جنابِ زرارہ، مصحفِ ناطق کشاف الحقائق حضرت امام جعفر صادق علیہ آلاف التحیۃ والثناء سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ {ع} نے فرمایا: "امام منتظر'عج' اپنے قیام حقا سے قبل کچھہ عرصہ کے لئے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا" مینے عرض کی یابن رسول اللہ{ص} ایسا کیوں؟؟؟ آپ{ع} نے فرمایا: "اس کو اپنی جان کا خطرہ ہوگا"۔[5]


{طاغوتِ زمانہ کی بیعت سے آزادی}
حسن بن فضّال سے روایت ہے کہ ثامن الائمّہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "گویا میں اپنے شیعوں کو دیکھہ رہا ہوں کہ وہ لوگ، میرے تیسرے فرزند "حسن عسکری علیہ السلام" کی شہادتِ پُرملا ل کے بعد، اپنے امام کی تلا ش میں ہیں لیکن وہ اپنے امام کو تلاش نہیں کر پا رہے ہیں"۔
ابن فضال نے دریا فت کیا: آپ کا فرزند کیوں غا ئب ہوگا؟ آپ{ع} نے ارشاد فرمایا: "اس لئے کہ جب وہ شمشیر "برہنہ" لیکر قیام کرے تو اس کی گردن میں کسی کی ۔۔۔۔۔"باطل" بیعت کا قلادہ نہ ہو۔[6]
          یہ چند اسباب ان اسبا ب میں سےمرقوم ہیں کہ جو اسبا ب ہمارے ائمّہ معصومین علیہم السلام نے بیان فرمائے ہیں، اس مقام تک رسائی حاصل ہونے کے بعد ہمیں اسبا بِ غیبت کا علم تو ہوگیا لیکن جس زمانہ میں امام زمانہ{عج} نظروں سے اوجھل ہوں "ہماری نظروں پر حجاب ہو" تو ہم کیا کریں؟ ایسے ماحول میں اپنے امام وقت{عج} سے کس طرح رابطہ قائم کیا جائے؟
اسی مقصد کے پیش نظر، دوران غیبتِ صغریٰ میں امام زمانہ{عج} کے کچھہ مخصوص صحابہ کرام تھے جن کو "نوّابِ اربعہ یا نوّابِ خا ص" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اُس دور میں اگر شیعوں کی خاطر کوئی مسئلہ پیچیدہ ہوتا تھا تو نوّابِ خاص کے ذریعہ اس مسئلہ کو فرزندِ حلا ل مشکلات کی خدمت میں پیش کیا جاتا تھا اور مشکل کا حل طلب کیا جاتا تھا۔
لہٰذا ہم اس مختصر سے مقالہ میں یہی بیان کرنا چاہتے ہیں کہ "نوّابِ خاص" کون لوگ تھے، تاریخ اسلام میں ان کی حیثیت کیا ہے، ان کا مقام کیا ہے، ان کی منزلت کیا ہے اور زمانہ غیبت میں ان حضرات کی "ذمّہ داریاں" کیا تھیں؟
اس عنوان کے تحت ہمارے اس مقالہ کا موضوع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "نوّابِ اربعہ اور ان کی ذمّہ داریاں" ہے۔    {ضیاء الافاضل مولانا سید غافر حسن رضوی}
{{نوّابِ اربعہ کا مختصر تعارف}}
غیبت صغریٰ میں حضرت{عج} کے خاص نائبین، فقط چار افراد تھے، جو آپ{عج} کے وجود مقدس سے پہلے آپ{عج} کے اجداد کی پُربرکت حیاتِ طیّبہ میں بھی زندگی بسر کر چکے تھے یہ چاروں حضرات، متقی و پرہیزگار اوربزرگ علماء شیعہ میں شمار کئے جاتے تھے، چونکہ یہ حضرات چار لوگ تھے اسی لئے ان کو "نوّابِ اربعہ" یعنی "چار نائب" کہا جاتا ھے اور چونکہ یہ حضرات آپ{عج} کے خاص نائبین تھے لہٰذا ان کو "نوّابِ خاص" بھی لکھا جاتا ھے۔

ان حضرات کو ترتیب کے لحاظ سے کتبِ تاریخ نے اس طرح بیان کیا ہے:
۱۔ابو عمرو عثمان بن سعید عمری۔
۲۔ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری۔
۳۔ابو القاسم حسین بن روح نو بختی۔
۴۔ابو الحسن علی بن محمد سمری۔
یوں تو ان حضرات کےعلاوہ بھی حضرت{عج} کےدوسرے وکلاء، مختلف مقامات پرحیات بسرکرتےتھےمثال کےطورپربغداد،کوفہ،اھواز،ھمدان،قم،ری، آذربائیجان وغیرہ جیسے شہروں میں لیکن یہ چارحضرات آپ{عج} کے خاص الخواص نائبین تھے اور انہیں کے ذریعہ آپ{عج} کا پیغام آپ{عج} کے شیعوں تک رسائی حاصل کرتا تھا۔[7]
اب ہم ان حضرات کے مختصر تعارف پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ان حضرات کی ذمہ داریوں کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔


{ابو عمرو عثمان بن سعید عمری}
آپ کا قبیلہ بہت مشہور ومعروف تھا جس کو "قبیلہ بنی اسد" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، چونکہ آپ نے شہر سامراء میں سکونت اختیار کر رکھی تھی لہٰذا آپ کو "عسکری" بھی کہا جاتا ہے، شیعہ حضرات، آپ کو "سمّان" کے نام سے بھی پکارتے تھے "چونکہ آپ روغن فروش تھے" آپ، شیعوں کی خاطر، قابل اعتماد و احترام تھے۔[8]
یہ بھی بتادینا بہتر ہے کہ آپ، امام زمانہ{عج} سے پہلے حضرت امام علی نقی{ع} اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھی قابل اعتماد وکیل رہ چکے تھے اور ان کی خدمت گذاری کا شرف حاصل کر چکے تھے۔
احمد بن اسحاق "جوکہ خود بھی شیعوں کے بزرگ اور مورد اعتماد علماء میں سے ایک ہستی ہیں" فرماتے ہیں کہ میں ایک روز حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کی:
یابن رسول اللہ: میں کبھی تو آپ{ع} کی خدمت میں حاضر رہتا ہوں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ تک رسائی کے امکا نا ت فراہم نہیں ہوتے تو فرمائیں کہ جس وقت میں آپ{ع} تک رسائی سے معذور رہوں تو کس کے پیغام پر عمل کروں؟
امام علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا: "ابو عمرو'عثمان بن سعید عمری' میرے نزدیک امین و قابل اعتماد شخص ہے، وہ جو کچھہ بھی تم سے کہے گا میری جانب سے ہی کہے گا اور جو بھی پیغام تم تک پہونچائے گا وہ میرا پیغام ہوگا"۔
احمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد، میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور وہی سوال کیا کہ جو آپ{ع} کے پدر بزگوار سے کیا تھا تو حضرت{ع} نے بھی وہی جواب دیا جو آپ{ع} کے والد گرامی نے ارشاد فرمایا تھا۔[9]
آپ کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے: بعض حضرات کا نظریہ ہے کہ آپ ۲۶۰ ھجری سے ۲۶۷ ھجری کے مابین کوچ کر گئے اور بعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ ۲۸۰ ھجری تک بقید حیات تھے اوراسی سنہ میں وفات پائی۔
 {ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید}
آپ بھی اپنے والد گرامی "ابو عمرو بن سعید عمری" کی مانند، عدالت وپرہیزگاری میں بے نظیر تھے اور شیعوں کے نزد یک قابل احترام تھے۔[10]
امام حسن عسکری علیہ السلام کے نزد یک قابل اعتماد تھے، آپ کے والد گرامی کی وفاتِ پُرملال کے موقع پر امام زمانہ{عج} کی جانب سے ایک نامہ موصول ہوا کہ جس میں آپ کے والد محترم کی رحلت پر اظہار افسوس اور آپ کی نیابت کا اعلان تھا۔[11]
اسی طرح "اسحاق بن یعقوب" کی جانب امام زمانہ{عج} کا نامہ آیا جس کی تحریر کچھہ اس انداز میں تھی "خداوند عالم، عثمان بن سعید اور اس کے والد سے راضی و خوشنود ہو کہ وہ میرے لئے قابل اعتماد شخص تھا،اس کا نوشتہ میرا نوشتہ تھا"۔[12]
آپ نے علم فقہ میں کچھہ تالیفات، تحریر کی تھیں کہ جو آپ کی رحلت کے بعد، امام عج کے تیسرے نائب "حسین بن روح" یا چوتھے نائب "ابو الحسن سمری" تک پہونچیں۔[13]
آپ تقریباََ چالیس سال، امام زمانہ{عج} کے نائب و وکیل رہے، آپ نے اپنی وفات سے پہلے وفات کی خبر دیدی تھی اور جس تاریخ کی پیشین گوئی کی تھی اسی تاریخ ۳۰۴ ھجری میں رحلت فرما گئے۔[14]
 {ابو القاسم حسین بن روح نو بختی}
ابو جعفر محمد بن عثمان کی عمر با برکت کے آخری لحظا ت میں شیعوں کا ایک گروہ آپ کی عیادت کی غرض سے، آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میری آنکھیں بند ہونے کے بعد، حکم امام {عج} کے تحت "ابو القاسم حسین بن روح نو بختی" میرے جانشین اور امام زمانہ{عج} کے نائب قرار پائیں گے لہٰذا میرے بعد انھیں کی جانب رجوع کرنا اور اپنے مسائل میں انھیں پر اعتماد کرنا۔[15]
حسین بن روح نے فقہِ شیعہ میں ایک کتاب بنام "التا د یب" تحریر کی تھی جس کو "اظہار نظر کے لئے" علماء قم کے پاس بھیجا، فقہاء قم نے تحقیق کرنے کے بعد ان کے جواب میں تحریر کیا "ایک مسئلہ کےعلاوہ تمام مسائل،فقہاء شیعہ کےفتاویٰ کےمطابق ہیں"۔[16]
آپ کے بعض ہم عصر حضرات نے آپ کی عقل ودرایت کی بہت زیادہ تعریف وتمجید کی ہے: مخالفین اورموافقین سبھی اس با ت کی تصد یق کرتے ہیں کہ حسین بن روح، زمانہ کا سب سے زیادہ عقلمند انسان ہے۔[17]
آپ خلیفہ عباسی کے دوران حکومت میں، پانچ سال تک شکنجہ میں رہے۔[18]
خلاصہ یہ کہ اکیس سال، فرائض سفا رت انجام د ینے کے بعد ۳۲۶ ھجری میں دارفنا سے دار بقا کی جانب رحلت فرما گئے۔[19]
       آج بھی جب ہم شب برائت میں امام زمانہ{عج} کی خدمت میں اپنا دردِ دل "بصورت عریضہ" روانہ کرتے ہیں تو "حسین بن روح" کو ہی وسیلہ قرار دیتے ہیں یہ بھی آپ کی ایک فضیلت ہے کہ چودہ صدیاں گذرجانے کے بعد بھی آپ ہی کے ذریعہ امام زمانہ{عج} تک پیغام پہونچایا جاتا ہے۔
 {ابو الحسن علی بن محمد سمری}
حکم امام زمانہ{عج} اور وصیتِ حسین بن روح کے مطابق، حسین بن روح کی رحلتِ جانگداز کے بعد، امام زمانہ{عج} کا منصبِ نیابت آپ تک پہونچا۔[20]    
آپ، امام حسن عسکری علیہ السلام کے اصحاب و انصار باوفا میں شمار کئے جاتے تھے۔[21]
آپ ۳۲۹ ھجری میں اس جہان سے کوچ فرما گئے،آپ کی وفات سے چند روز قبل، آپ کے نام،امام زمانہ{عج}کا پیغام،اس مضمون کے تحت پہونچا
اے علی بن محمد سمری: خداوند عالم، تمہارے فقدان پر، تمہارے بھائیوں کو اجر عظیم عنایت فرمائے، تم چھہ روز بعد اس دنیا سے رختِ سفر باندھ  لوگے، اپنے امور کو منزل اختتام تک پہونچادو اور کسی بھی شخص کو اپنا جانشین نہیں بنانا، اب میری غیبت کامل کا وقت آگیا ہے اور اب میں ا ذ ن خداوندی کے بغیر، پردہ غیبت نہیں اٹھا سکتا، میرا ظہور اس وقت ہوگا کہ جب زمین ظلم وجور سے مملو ہو جائے گی، کچھہ لوگ میرے شربتِ دیدار کا دعویٰ کریں گے "کہ ہم نے امام زمانہ{عج} سے ملاقات کی" آگاہ رہو کہ اگر کوئی شخص،خروج سفیانی سے قبل میرے دیدار کا دعویٰ کرے تو وہ شخص جھوٹا ہے اور خدا وندعالم کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے "جو قبل ظہور میرا دیدار کرسکے"۔[22]
نوشتہ امام زمانہ{عج}کےمطابق"چھہ روزبعد" علی بن محمد سمری، رحلت فرما گئے۔[23]
آپ کی رحلتِ پُرملال سے قبل، آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ کے بعد آپ کا نائب کون ہوگا؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: "مجھے یہ اجازت نہیں کہ اپنا جانشین منتخب کروں۔[24]
آپ کی رحلتِ جانسوز کے بعد، تاریخ شیعہ کا دورجدید شروع ہوا کہ جو "غیبتِ کبریٰ " کے عنوان سے معروف ہے۔
نوّابِ اربعہ کی مختصر حیا تِ بابرکت پر طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد، ان حضرات کی ذمّہ داریوں پر بھی ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں چونکہ شروط کے مدّ نظر، اختصار بھی پیش نظر ہے، شروطِ واردہ اختصار کی متقاضی ہیں ورنہ موضوع ھٰذا، تفصیل طلب ہے۔
 د وران غیبتِ صغریٰ میں
 نوّابِ اربعہ کی ذمّہ داریاں
پہلی ذمّہ داری: امام زمانہ{عج}کے اسم مبارک اور آپ{عج} کی جائے سکونت کو لوگوں سے مخفی رکھنا:
اگر چہ دوران غیبتِ صغریٰ میں، نوّابِ خا ص اور بعض شیعوں کے لئے دیدار امام وقت{عج} ممکن تھا۔[25]
لیکن سیاسی مشکلات کے پیش نظر، امام{عج} کے نائبین میں سے ہر ایک نائب کی یہ ذمّہ داری تھی کہ آپ{عج} کے اسم مبارک اورمقام سکونت کو پوشیدہ رکھے چونکہ حکومتی خطرہ لاحق ہونے کا امکان تھا "حکومت، دشمن تھی"
نوّابِ اربعہ کی یہ ذمّہ داری، حکم امام{عج} کے تحت تھی، امام{عج} نے اپنے سفیر "محمد بن عثمان" کے نام، نامہ تحریر فرمایا جس کا مضمون کچھہ اس عبارت میں مرقوم تھا "جو لوگ میرے نام کے بارے میں سوال کرتے ہیں وہ جان لیں کہ خاموشی اختیار کرنے کی صورت میں جنت کی سیر ہے اور زبان درازی میں جہنم کا سفر"۔
چونکہ اگر لوگ نام سے واقف ہو گئے تو راز فاش ہو جائے گا اور اگر ان کو مقام سکونت کا علم حاصل ہو گیا تو یہ بات حکومت تک پہونچ جائے گی۔[26]
سفیراول "عثمان بن سعید" سے سوال ہوا کہ کیا تم نے امام عسکری علیہ السلام کے جانشین "امام زمانہ{عج}" کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں دیکھا ہے، سوال ہوا کہ جانشین کا نام کیا ہے؟
آپ نے جواب دیا: "نام کے بارے میں سوال کرنا حرام ہے اور یہ میرا کلام نہیں بلکہ حکم امام{عج} ہے" چونکہ حکومت عباسی کو یہ یقین ہے کہ  "گل عصمت مرجھا گیا ہے اور اب کوئی غنچہ باقی نہیں جو گل بن کر مشام عالم کو معطر کر سکے" اگر امام{عج} کا نام فاش ہو جا ئے گا تو حکومت۔۔۔۔۔۔[27]
 دوسری ذمّہ داری: مال امام علیہ السلام وصول کرنا:
امام زمانہ{عج} کے نائبین خاص میں سے ہر ایک نائب نے اپنے دوران سفارت میں، مال امام علیہ السلام وصول کیا اور بہر کیف امام علیہ السلام تک پہونچایا اور اگر امام{عج} نے کسی کار خیر میں خرچ کرنے کا حکم دیا تو وہ مال اسی کام میں خرچ کیا گیا۔[28]
 تیسری ذ مّہ داری: فقھی سوالات وعقید تی مشکلات کا جواب د ینا:
اعتراضا تِ مخالفین کے جوابا ت د ینا بھی ان حضرات کی ذمّہ داریوں میں سے ایک اہم ذمّہ داری تھی لہٰذا آپ حضرات، تعلیم امام زمانہ{عج} اور اپنی عالی ترین صلاحیتوں کے تحت، ان کے صحیح اور قانع کنندہ جوابات دیا کرتے تھے۔
نوّابِ اربعہ، ایک جا نب تو عوام کے ذہنوں سے ابھرنے والے شیطانی وسوسوں کا مقابلہ کر رہے تھے "وہ شیطانی وسوسے جو امام{عج} کے متعلق سر اٹھاتے تھے"۔[29]
اور دوسری جانب سے شیعوں کی فقھی و شرعی مشکلات، امام زمانہ{عج} کی خدمت میں پیش کرکے ان کے جوابا ت کا کارنامہ انجام دیتے تھے۔[30]
 اس کے علاوہ مخالفین کے ساتھہ مناظروں کا سلسلہ بھی جاری وساری رہتا تھا اور اس کام میں چاروں حضرات، امام زمانہ{عج} سے حاصل کردہ علم ودانش کے مدّ نظر جوابات د یتے تھے جس کے نتیجہ میں کامیابی، آپ حضرات کے قدموں پر سجدہ ریز نظر آتی تھی۔
چنانچہ ایک روز "حسین بن روح" ایک مناظرہ میں مشغول تھے کہ خود امام{عج} کے شیعوں میں سے ایک شیعہ کے ذہن میں ان کا ایک جواب کھٹکا اور اس نے سوچا کہ یہ جواب حسین بن روح نے اپنی جا نب سے دیا ہے اور اس جواب کا امام{عج} سے کوئی مطلب نہیں ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا: "اگر میں آسمان سے گرجا ئوں اور ہوا میں پرواز کرنے والے پرندے مجھے لقمہ اجل بنادیں یا آندھیا ں کسی "نامانوس" مقام پر پہونچا د یں تو یہ سب کام میرے لئے دین خدا کے بارے میں اپنی رائے د ینے سے بہتر ہیں، جو کچھہ بھی میرے دہن سے الفاظ نکلے ہیں وہ سب گوہر آبدار، حجّتِ کبریا{عج} کے دہن مبارک سے باران شدہ نوری جواھر کا مجموعہ ہے۔[31]
 چوتھی ذمّہ داری: نیابت امام{عج} کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں سے مقابلہ:
دوران غیبت صغریٰ میں،نواب خاص کےعلاوہ کچھہ جھوٹے دعویداروں نے بھی جنم لیا تھا جو مال امام علیہ السلام کو بیجا خرچ کر رہے تھے اور فقہی و اعتقادی مسائل میں عوام کو گمراہ کر رہے تھے "جو دھیرے دھیرے عمارت اسلام کو کھوکھلا کرنے کا سبب واقع ہو سکتے تھے"
لہٰذا نوّابِ اربعہ، حکم امام وقت{عج} کے تحت، ان لوگوں کے خلاف، شجاعت و استحکام کے ساتھہ کھڑے ہوگئے  "اوراس بدعت کے درخت کو اس طرح جڑ سے اکھاڑ پھینکا کہ دوبارہ پنپنے کی سعی لاحاصل سے عاجزو معذ و ر نظر آئے"
 جن لوگوں نے نیابت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ان میں سے کچھہ افراد کے اسماء، رقم کئے جارہے ہیں:
۱۔ ابومحمد شریعتی۔
۲۔ محمد بن نصیرنمیری۔
۳۔ احمد بن ھلال کرخی۔
۴۔ ابو طاھر محمد بن علی بن بلال۔
۵۔ حسین بن منصور حلاج۔
۶۔ محمد بن علی شلمغانی۔[32]
 یہ مذکورہ افراد، جنھوں نے نیا بت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، یہ سب حضرات کم حیثیت کے حامل نہیں تھے بلکہ ان میں سے ہر ایک شخصیت اپنی جگہ پر ایک مقام والا کی حامل تھی، کوئی تو علم کے اعتبار سے اور کوئی  تقویٰ کے لحاظ سے بلند و بالا شخصیتوں میں شمار کیا جاتا تھا، ایسے لوگوں سے مقابلہ کرنے کے لئے جگرفولاد کے ساتھہ ساتھہ سر سے کفن بھی باندھنا پڑتا ہے لیکن نوّابِ اربعہ، سر سے کفن باندھکر،سربکف کھڑے ہو گئے اور پورے عالم کو انگشت بدنداں ہونے پر مجبور کر دیا اور اس مہلک ولاعلاج مرض کی ایسی دوا تجویز کی کہ "سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی"
اور یہ فن آپ حضرات نے ائمّہ اطھار علیہم السلام سے کسب کیا تھا اور آپ حضرات نے اپنے امام وقت کی شناخت، بامعرفت حاصل کی تھی یہی وجہ ہے کہ جو بھی امام وقت{عج} کی جانب سے حکم لاگو ہوا اس کو جامہ عمل پہنایا جس کے نتیجہ میں امام غا ئب{عج} کا خدائے غا ئب، میدان عمل و کارزار شریعت میں ان حضرات کے لئے معاون ثابت ہوا۔
 یہ حقیقت ہے کہ جو شخص بھی امام وقت کے اشاروں پر سمعاً وطاعۃً "بغیر تردّد" گامزن رہے اس کی قسمت، دنیا وآخرت میں مثالِ بدر منیر، روشن نظر آئے گی، اختصار کے پیش  نظر اسی پر اکتفا کی جاتی ہے البتہ دامن موضوع، وسیع ہے۔
 آخر کلام میں امام غائب{عج} کے خدائے غا ئب کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار ہمارے امام آخر{عج} کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہم کو نقش کفِ پائے امام وقت{عج} پر کچھہ اس طرح گامزن فرما کہ ہماری خوش نصیبی پر قسمتِ حُر بھی رشک کرتی نظر آ ئے اور ہمارے طائران فکر کی پرواز کو اتنی بلندی عطا فرما کہ گہوارہ سبط نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس ہوکر پرپرواز پانے والا فرشتہ "فطرس" بھی ہماری ذہنی پرواز پر فخرومباہات کرتا نظر آئے۔
 والسلام علیٰ من اتبع الھدی، ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی چھولسی          
منابع وماخذ:
۱۔ القرآن الکریم: ترجمہ آیۃ اللہ مکارم شیرازی دامت برکاتہ، چاپ اوّل، مکتبۃ الامیر المومنین قم، ۱۳۸۸ ھجری شمسی۔
۲۔ الاصول الکافی: شیخ محمد بن یعقوب کلینی علیہ الرحمۃ، چاپ مکتبۃ الصدوق تھران، ۱۳۸۱ ھجری قمری۔
۳۔ بحارالانوار: علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمۃ، دار الکتب الاسلامیہ تھران، ۱۳۹۳ ھجری قمری۔
۴۔ الارشاد: شیخ مفیدعلیہ الرحمۃ، چاپ مکتبہ بصیرتی قم ایران۔
۵۔ تاریخ الغیبۃ الصغریٰ : محمد الصدر علیہ الرحمۃ، طبع اول، دارالتعارف بیروت، ۱۳۹۲ ھجری قمری۔
۶۔ الغیبۃ: شیخ طوسی علیہ الرحمۃ، مکتبۃ الحد یثۃ تھران "ایران"
۷۔ اعلام الوریٰ : فضل بن حسن طبرسی علیہ الرحمۃ، دارالکتب الاسلامیۃ تھران، الطبعۃ الثالثۃ۔
۸۔ کشف الغمّۃ: علی بن عیسیٰ الاربلی علیہ الرحمۃ، مکتبہ بنی ھاشمی تبریز، ۱۳۸۱ ھجری قمری۔
۹۔ روضۃ الواعظین: فتال نیشاپوری، الطبعۃ الاولیٰ، موسسۃ الاعلمی بیروت، ۱۴۰۶ ھجری قمری۔
۱۰۔ کمال الدّین: شیخ صدوق علیہ الرحمۃ، موسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجامعۃ المدرسین قم، ۱۴۰۵ ھجری قمری۔
۱۱۔ سیرہ پیشوایان: مھدی پیشوائی، موسسۃ الامام الصادق{ع} قم ایران، ۱۳۸۳ ھجری شمسی، چاپ شانژدھم۔
۱۲۔ الفصول المھمۃ: ابن صبّاغ مالکی، طبع قدیم "بی تا" ۱۳۰۳ ھجری قمری۔     
ضیاء الافاضل مولانا سیّد غافر حسن رضوی چھولسی


[1] ۔ کشف الغمّۃ:ص/۲۱۷۔  الارشاد:ص/۳۴۶۔  اعلام الوریٰ:ص/۴۱۷۔  الفصول المھمّۃ:ص/۳۱۰۔
[2]۔ کمال الدّ ین:ص/۴۳۲۔  روضۃ الواعظین:ص/۲۹۲۔
[3] ۔ سورۃ الاعراف/۷۱۔
[4]۔ بحارالانوار:ج/۵۱،ص/۱۵۰۔  الغیبۃ:ص/۲۰۴ 
[5] ۔ الاصول الکافی:ج/۱،ص/۳۳۷۔  کمال الدین:ص/۴۸۱۔  الغیبۃ:ص/۲۰۲
[6] ۔ منتخب الاثر:ص/۲۶۸۔  بحارالانوار:ج/۵۱،ص/۱۵۲۔ کمال الدین:ص/۴۸۰
[7]۔ سیرہ پیشوایان:ص/۶۷۶
[8] ۔ الغیبۃ:ص/۲۱۶
[9]۔  الغیبۃ:ص/۲۱۵۔
[10] ۔  حوالہ قبلی:ص/۲۲۱۔
[11] ۔ حوالہ قبلی:ص/۲۱۹و۲۲۰۔
[12] ۔  بحارالانوار:ج/۵۱،ص/۳۵۰۔  اعلام الوریٰ:ص/۴۵۲۔  الغیبۃ:ص/۲۲۰۔
[13] ۔  الغیبۃ:۲۲۱۔
[14] ۔  بحارالانوار:ج/۵۱،ص/۳۵۱۔  الغیبۃ:ص/۲۲۲و۲۲۳۔
[15]۔  الغیبۃ:ص/۲۲۶و۲۲۷۔  بحارالانوار:ج/۵۱،ص/۳۵۱۔
[16] ۔ الغیبۃ:ص/۲۴۰۔
[17] ۔ بحارالانوار:ج/۵۱،ص/۳۵۶۔  الغیبۃ:ص/۲۳۶۔
[18] ۔ تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدھم:ص/۱۹۹۔
[19]۔  الغیبۃ:ص/۲۳۸۔
[20] ۔ حوالہ قبلی:ص/۲۴۲۔
[21] ۔ تاریخ الغیبۃ الصغریِٰ:ص/۴۱۲۔
[22]۔  بحارالانوار:ج/۵۱،ص/۳۶۱۔  اعلام الوریٰ:ص۲۴۵۔  تاریخ الغیبۃ الصغریٰ:۴۱۵۔  الغیبۃ:ص/۲۴۲۔
[23] ۔ الغیبۃ:ص/۲۴۳۔
[24] ۔ حوالہ قبلی:ص/۲۴۲۔
[25] ۔ کمال الدین:ص/۴۴۔
[26]۔  الغیبۃ:ص/۲۲۲۔
[27]۔  الغیبۃ:ص/۱۴۶و۲۱۹۔
[28] ۔ سیرہ پیشوایان:ص/۶۸۶۔
[29] ۔ کمال الدین:ص/۴۴۰۔
[30]۔ الغیبۃ:ص/۱۹۸و۱۹۹۔
[31] ۔ حوالہ قبلی:ص/۲۴۴۔
[32]۔  سیرہ پیشوایان:ص/۶۸۷۔  الغیبۃ:ص/۲۴۴۔

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords