جمعہ، 21 اگست، 2015

اردو زبان و ادب کا مختصر خاکہ: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

اردو زبان و ادب کا مختصر خاکہ
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
در حقیقت لفظ ''اردو'' لغوی اعتبار سے لشکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اردو کو اردو اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لشکری زبان ہے کیونکہ اس میں تقریباً ہر زبان کے الفاظ موجود ہیں؛ مثلاً: ''دسترخوان'' ترکی زبان ہے؛ ''باجی'' یعنی بڑی بہن، یہ بھی ترکی زبان میں استعمال ہوتا ہے؛ ''شراب'' عربی زبان کا لفظ ہے؛ خود لفظ''اردو'' اور لفظ ''ادب'' فارسی زبان سے ماخوذ ہیں؛ اردو زبان میں پچاس فیصد سے زیادہ فارسی الفاظ ہیں، بیس فیصد سے زیادہ عربی الفاظ استعمال ہوتے ہیں اورتقریباً دس فیصد انگریزی،ترکی اوردیگر زبانوں کے الفاظ کا استعمال ہے۔ لیکن اس زبان کی چاشنی کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ یہ زبان عرب سے آئی ہے، اس زبان کے ساتھ کھلم کھلا ناانصافی ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ اردو زبان کی جائے پیدائش ''ہندوستان کی سرزمین'' ہے؛ کسی زبان میں دیگر زبانوںکے الفاظ کا آجانا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ زبان اسی زبان کی مرہون منت ہے، یوں تو انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی بہت سے ایسے الفاظ ہیں کہ جن کو اردوزبان سے لیا گیا ہے یا فارسی وعربی زبان سے لیا گیا ہے تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انگریزی زبان عرب سے آئی ہے؟ جی نہیں! بالکل نہیں کہاجاسکتا تو پھر اردوزبان پر یہ تہمت لگانا کہ یہ زبان، عرب سے آئی ہے، اس زبان کے ساتھ سراسر ناانصافی کا ثبوت دینا ہے۔
اردو کے تمام ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرین لسانیات کے خیالات و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو زبان ایک مخلوط زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد چودہویں صدی میں شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی،چونکہ اس دور میں سرزمین ہندوستان مغل سلاطین کے زیر تسلط تھی لہٰذا اس میں فارسی الفاظ کی بھرمار نظر آتی ہے اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے بھی نمایاں اثرات پڑے۔ ان میں سے مسعود حسین خاں اردو کی پیدائش کو دہلی اور نواحِ دہلی سے، حافظ محمود خاں شیرانی پنجاب سے، سید سلیمان ندوی وادیِ سندھ سے ، اور سہیل بخاری مشرقی مہاراشٹر سے منسوب کرتے ہیں۔ اسی طرح محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے۔ گیان چند جین کے نظریہ کے مطابق اردو کی اصل کھڑی بولی اور صرف کھڑی بولی ہے۔ ان اردو داں ادباء اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردوزبان ایک خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اس کا ڈھانچا یہیں کی بولیوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے اور یہ زبان ہندوستانی سانچہ میں ڈھلی ہوئی ہے۔ لیکن اس پر عربی اور فارسی زبان کے نمایاں اثرات پڑے ہیں۔ یہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، کیوں کہ اس کی پیدائش میں دونوں قوموں کا حصہ برابر ہے یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں کوئی بھی ہندو خالص ہندی نہیں بول پاتا بلکہ اس میں اردو کے الفاظ نظر آتے ہیں، ہندوستان کا کوئی ٹی وی پروگرام یا کوئی سیریل دیکھ لیجئے، یہاں تک کہ اگر وہ ہندی تاریخ کا بھی سیریل ہوگا تو اس میں اردو الفاظ کا استعمال ناگزیر طورپر ملے گا کیونکہ اردوزبان کا دامن اتنا وسیع ہے کہ اس میں ہرزبان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو کہ دیگر زبانوں میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ انگریزی مصنفین کی تحریروں کا جائزہ لینے کے بعد بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اردو زبان کی پیدائش ہندوستان میں ہی ہوئی ہے، یہ زبان کہیں سے نہیں آئی ہے، اسی طرح ہندی ادیبوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس زبان کی جنم بھومی بھارت کی سرزمین ہے؛ ان ادیبوں میں سے ''جارج اے، گریرسن''، ''جان ایف، کی''، '' سنیتی کمار چٹرجی''،'' امرت رائے''، ''چندر دھر شرما گلیری''، ''ایودھیا پرشاد کھتری'' ،'' دھیریندر ورما''، ''الوک رائے ''اور ''بال گووند مشرا'' کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
اردو زبان پر مشتمل ادب کو اردو ادب سے تعبیرکیاجاتا ہے جو نثر اور شاعری پرمشتمل ہے۔ نثری اصناف میں ناول،افسانہ،داستان،انشائیہ،مکتوب نگاری اورسفر نامہ شامل ہیں۔جب کہ شاعری میں غزل،نظم،مرثیہ،قصیدہ اور مثنوی ہیں۔ اردو ادب میں نثری ادب بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ شعری ادب، لیکن مشہور یہ ہے کہ غزل اور نظم سے ہی اردو ادب کی شان بڑھی ہے۔ اردو ادب ہندوستان کی ایجاد، پاکستان میں مقبول اور افغانستان میں بھی معروف ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کسی نے اس کو اپنالیا اور کسی نے ترک کردیا ورنہ اس کی حقیقی جائے پیدائش ''سرزمین ہندوستان'' ہے، اور اس کو کسی دوسرے ملک کی جانب نسبت دینا لاعلمی کا نتیجہ ہے۔
اردو ادب کے ماہرین: یوں تو اس میدان میں بہت سے ماہرین زبان نے جدوجہد کی ہے اور اردو ادب کو نئی نئی جہات سے نوازا ہے لیکن ہرمیدان کی فتح کا سہرا سب کے سر نہیں بندھتا بلکہ بعض خصوصی شخصیتوں کے سرہوتا ہے،اس ضمن میں''امیر خسرو ''''محمد قلی قطب شاہ''اور''شمس اللہ قادری'' کے اسماء قابل ذکر ہیں کیونکہ امیر خسرو، اردو ادب میں ہی نہیں بلکہ ہندی ادب میں بھی کافی اہم ادیب مانے جاتے ہیں۔ ان کا شماراردو زبان اور اردو ادب کے بانیوں میںہوتا ہے۔ امیر خسرو فارسی، عربی اور ہندی زبان میں ماہر تھے۔ اردو زبان کے آغازمیں انہوں نے ان زبانوں کو ایک مربی کی شکل میں اردوزبان میں پیش کیا۔ محمد قلی قطب شاہ دکنی کو اردو، فارسی، عربی اور تیلگو زبانوں پر کافی عبورحاصل تھا۔ یہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر تھے، ان کی کلیات ، کلیاتِ قلی قطب شاہ ہے۔انھوں نے تیلگو زبان میں بھی شاعری کی۔ انہیں کی کاوشوں کے نتیجہ میں اردو زبان، ادبی زبان کی حیثیت سے جانی گئی۔دکنیات کے تحقیقی جائزہ کا سہرا شمس اللہ قادری کے سر جاتا ہے کیونکہ انھوں نے دکن کے متعلق بہت سی تحقیقات کیں اور ان پر مسودے آمادہ کئے۔
اردو ادب میں شاعری کا مقام: شاعری (Poetry) کا مادہ ''شعر''ہے ،اس کے معنی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاح میںشعر اس موزوںکلامِ کو کہتے ہیں جو قصداً انشاء کیا جائے۔ یہ موزوںکلام ،جذبات اور احساسات کا تابع ہوتا ہے اور کسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر اندازہو گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے، اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں تعبیرکیاجائے تو شاید بہتر ہوکہ''موزوں الفاظ میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں''۔شاعری کسی بھی انسان کے لئے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے کوئی بھی انسان ہو وہ ہر وقت کسی نہ کسی چیز یعنی قدرت کی تخلیق کردہ اشیاء کے مشاہدے میں یا اپنی ایجادات اور تخلیقات میں مصروف رہتا ہے اور کسی نہ کسی فکر میں گم رہتا ہے، ہر انسان اپنے نظریہ سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگوں کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے، شاعری کا تعلق حساس لوگوں سے زیادہ ہوتاہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ الگ الگ ہے، کچھ لوگ اس کو عام باتوں کی طرح سے ظاہر کرتے ہیں،کچھ لوگ نثر کی صورت میں بیان کرتے ہیں جن کو مضمون، ناول نگاری، افسانوں اور کہانیوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے، کچھ لوگ مختلف فنون جیسے مسجمہ سازی، سنگ تراشی، نقش نگاری اور فنِ مصوری کے ذریعے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے اظہارِخیال کا ذریعہ شاعری ہوتی ہے؛ شاعری ہرزبان میں کی جاسکتی ہے، ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اردواورعربی وفارسی زبان سے مخصوص ہے؛ شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی فکر کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح منتقل کردے جیسے اس نے سوچاہے، اس طرح تخلیق کار کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں، آج بھی تاریخی عمارات و مقامات پہ بنے نقش و نگار اور آثار قدیمہ میں ملنے والی اشیاء سے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے جس سے موجودہ زمانے کے لوگ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس دور میں لوگوں کے حالات زندگی اور انکا رہن سہن کیسا تھا، یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے شعرا ء کی تحریروں میں ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے ،شاعری کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سب سے قدیم اور مشہور صنف ''غزل'' ہے غزل ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو کہ شاعری سے منسوب ہے جس کے اصولوں پہ فارسی اور پنجابی زبانوں میں شاعری لکھی جاتی ہے لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری سے مخصوص ہے، شاعری کی مشہور اصناف میں حمد، نعت، مثنوی، مسدس، نظم، پابند نظم، آزاد نظم، قصیدہ، رباعی، سلام اورنغمہ سرِ فہرست ہیں ؛ شاعری کے سب سے بڑے تاریخی اردوشاعر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں میر تقی میر، مرزا اسد اللہ غالب، داغ دہلوی اور بہادر شاہ ظفر کے نام سرِفہرست ہیں۔ تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے مشہور شعرا ء کا تذکرہ ملتا ہے جن میںہندوستان و پاکستان کے شعراء شامل ہیں۔ ان شعرا ء میں سب سے زیادہ مشہور ہستیاں:''حسرت موہانی''''علامہ اقبال'''' فیض احمد فیض''اور ''ابن انشائ''کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
اردو شاعری کے اجزاء: (١)شعر: دوسطروں پر مشتمل شئے کو شعر کہاجاتا ہے (٢)مصرع: شعر کی ایک سطر کو مصرعہ سے تعبیرکیاجاتاہے (٣)مطلع: کلام کا وہ پہلا شعر جس کی دونوں سطروں میں ردیف کا استعمال کیا جائے اس کو مطلع کہتے ہیں (٤)حسن مطلع: مطلع کے بعد آنے والاوہ شعر جس کی دونوں سطروں میں ردیف کا استعمال ہو اور وہ مطلع کے حسن میں اضافہ کاباعث ہو اس کو حسن مطلع سے تعبیرکیاجاتاہے (٥)تضمین: اگر کوئی مصرعہ دیا جائے اور اس پر گرہ لگائی جائے تو اس کو تضمین کا نام دیا جاتا ہے (٦)قافیہ: جوالفاظ ردیف سے پہلے ایک جیسے استعمال ہوں، ان کو قافیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلاً: حسن،چمن، گگن وغیرہ (٧)ردیف:جو لفظ قافیہ کے بعد آئے اور اس کو بغیر کسی تبدیلی کے شعر کے آخر میں لایا جائے اس کو ردیف کہاجاتا ہے (٨)بحر: تمام مصرعوں کا مصرعۂ اول کے وزن پر موجود رہنا بحر کہلاتا ہے، اگر مصرعہ اِدھراُدھر ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ مصرعہ بحر میں نہیں ہے (٩)تقطیع: کلام کے ہر مصرعہ کو اس کی زمین کے مطابق ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہ دیکھنا کہ ہمارا مصرعہ بحر میں ہے یا نہیں! تقطیع کہلاتا ہے (١٠)مقطع: کلام کا آخری شعر یا وہ شعر جس میں شاعر اپنا تخلص لائے اس کو مقطع کے نام سے جانتے ہیں۔
اردو شاعری کے قوانین: (١)دورحاضرکاشاعر،الفاظ کا استعمال اسی طرزپرکرے جس طرز پر اردوادب کے شعراء نے استعمال کیا ہے (٢)خالص اردو میںاضافت نہیں ہوتی لہٰذا اگر مضاف ومضاف الیہ میں سے کوئی ایک لفظ اردوزبان کاآجائے تو وہ اضافت صحیح نہیں ہوگی بلکہ دونوں کو فارسی زبان میں ہونا چاہئے۔ صحیح اضافت مثلاً: زیرِ شمشیر، نمک خوارِ خدیجہ، دردِسر، دردِکمر، دردِچشم، آشوبِ چشم، زیرِ لب، آبِ رواں اورخوشنودیِ خدا وغیرہ۔ غلط اضافت مثلاً: زیرِ تلوار، دردِ آنکھ، آنکھِ دشمن، دردِ ٹانگ، ہاتھِ خدا اور کمبلیِ پیغمبرۖ وغیرہ۔ (٣)کلام میں بحر کی رعایت (٤)قافیہ کی رعایت (٥)ردیف کی رعایت (٦)اگرکلام غیرمردّف(ردیف سے خالی)ہو تو صرف قافیہ کی رعایت (٧) مطلع کی رعایت (٨)حسن مطلع کا لانا ضروری نہیں ہے لیکن اگر لایا جائے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے (٩)مقطع کا لانا ضروری نہیں لیکن حفظ ماتقدم کے طورپر لانا بہتر ہے (١٠)اگرقطعہ یا رباعی کہناچاہیں تو چاروں مصرعوں میں ایک مفہوم کو نبھانا لازم ہے۔ یوں تو اور بھی قوانین ہیں لیکن اگر شاعری کے میدان میں تازہ قدم رکھنے والا شخص ان قوانین کی رعایت کرلے تو اس کی شاعری قوانین کے تحت رہے گی لیکن اگر ان قوانین کی رعایت نہ کی جائے تو وہ شاعری نہیں بلکہ تک بندی کہلائے گی لہٰذا قوانین کی رعایت کرنا لازم ہے۔
منابع و ماخذ:
(1) J. S. Ifthekhar (January 12, 2012). "Solemnity envelops Qutb Shahi tombs". The Hindu.
(2) http://www.usindh.edu.pk/tahqiq/articles/18.pdf
^ "Salateen E Muabber". Muslim University Press Aligarh۔ اخذ کردہ بتاریخ (3) 31 August 2013.
(4) "Urdu-i-qadim". Urdu literature - History and criticism. Lucknow : [s.n.], 1930..
^ Sayyed ShamsUllah Qadri (1930). "Tareekh - Malabaar" (Urdu میں(5) Hindustan - Malabaar. Aligarh: Muslim University Press. 98.
^ Syed Shams Ullah Qadri (1933). "Moorrakheen-E-Hind" (Urdu میں(6) Bibliographical Studies In Indo-Muslim History. HYDERABAD DECCAN: THE MAGAZINE TAREEKH. 139.
(7) Tuhfat al-mujahidin.
^ Sayyed Shams Ullah Qadri (1925). "Imadia" (Urdu میں(8) Imad-Ul-Mulk - Sawaneh Tazkira - Nawabeen Awadh - Imad-Ul-Mulk. Hyderabad: Tarikh office. 330.
^ Sayyed ShamsUllah Qadri (1930). "Nizam Ut Tawareekh" (Urdu میں(9) GENERALITIES. Hyderabad: Tareekh Press. 158.
^ Sayyed Shams Ullah Qadri. "Tareekh Zuban Urdu - Urdu-E-Qadeem" (Urdu میں(10) Urdu Zuban - Tareekh. Taj Press. 134.
  

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords