جمعہ، 21 اگست، 2015

سیاھی کی حقیقت: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

سیاھی کی حقیقت
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی
جس طرح ہر رنگ کی قسمیں ہوتی ہیں ،ہلکا یا پھیکا (light ۔dark)پڑ جانے سے نام بدل جاتا ہے ،اسی طرح سیاہی بھی ہے ،اگر سیاہی تھوڑی پھیکی پڑ جائے تو اس کو پھر سیاہی نہیں بلکہ سرمہ کہا جاتا ہے اور اگر سیاہی حد سے زیادہ ہو تو ہماری زبان میں اسے کالا بھنور کہا جاتا ہے۔ بھونرا،  کالا ضرور ہوتاہے لیکن اس کا دل کالا نہیں ہوتا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس چھوٹے سے سیاہ جانورکا دل سیاہ ہوتا تو چمنستان میں آکر پھولوں کی انجمن میں عشق کے نغمے نہ سناتا ،کچھ ہو نہ ہو اس کے گیت سے یہ ضرورسمجھ میں آتا ہے کہ یہ اپنے دل کی بات زبان پر لے آتا ہے یا کھلے الفاظ میں اس طرح کہا جائے کہ یہ چھوٹا سا جانور سیاہ ضرور ہے لیکن منافق نہیں ہے۔
چونکہ نفاق ایسی بری بلا ہے کہ جو بھی اس کا شکار ہو گیا وہ اس کے دام فریبی سے باہر نہیں آسکتا ،نفاق شروع میں تو انسان کے دل میں ایک ناچیز سیاہ نقطہ رہتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ نقطہ ناسور کی شکل اختیار کر لیتا ہے اوراس حد تک پہونچ جاتا ہے کہ کسی ماہر سے ماہر ترین کی دوا بھی کار آمد ثابت نہیں ہوتی ،نہ تو اس کے دل پر حدیثوں کا اثر ہوتا ہے اور نہ ہی قرآنی آیتوں کا۔
نمازی کی پیشانی پر بھی سجدہ کا نشان سیاہ ہو تا ہے ، لیکن یہی سیاہ نشان کسی نمازی کے نور میں تو اضافہ کردیتا ہے اور کسی کی پیشانی پر ایک بد نما داغ کے سوا کچھ نہیں ہوتا ،آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
یہ سیاہ نشان کوئی معمولی نشان نہیں ہے بلکہ یہ سیاہ نشان انسان کے دل کی عکاسی کرتا ہے ، اگر انسان کادل نورانی ہے تو یہ سجدہ کا نشان اس نور کو اس کے چہرہ پر آشکار کر دیتا ہے اور اگر دل سیاہ ہے تو پتھروں پر جبین نیاز گھسنے سے کچھ نہیں ہوتا، ہاں!گرم پتھر پر پیشانی رگڑنے سے چہرہ سیاہ تو ہو سکتا ہے ،نور حاصل نہیں ہو سکتا اور یہ صرف اس کی سزا ہے کہ دل میں نور کا گذر نہیں۔
قرآن میں مختلف جگہوں پر اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے مثال کے طور پر..........................
(....فأ ما الذین اسودت وجوھھم أکفرتم بعد ایمانکم....)(آل عمران١٠٦)
یعنی جن کے چہرے سیاہ ہوگئے(ان سے سوال کیا جا ئے گا کہ)کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے؟
مطلب یہ ہے کہ جو ایمان سے کفر کی طرف پلٹ جائے ، اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح عرب کے بدؤوں کے لئے ایک آیت آئی ''جوکہ لڑکی کے وجود کو اپنے اوپر بوجھ گردانتے تھے'' ارشاد ہوتا ہے.....................................
(واذا بشر احدھم بالانثیٰ ظل وجھہ مسوداََ) (نحل٥٨)
یعنی جب بھی ان(بدؤوں )میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی گئی اس کا چہرہ سیاہ ہوگیا ۔
چونکہ ان بدؤون کے دل سیاہ ہوچکے تھے ، جس کا اظہار چہروں پر ہو گیا، لڑکی خدا کی رحمت ہے ، اس کے وجود سے چہرہ پر سیاہی کے آثار کا مطلب یہ ہے کہ انھیں رحمت خدا سے انکار تھا۔
دل کی سیاہی چہرہ پر آشکار ہوتی ہے، لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے دلوں کو نفس کی غلامی سے آزاد رکھیں چونکہ نفس کی غلامی ہی اس کی جڑ ہے، نفس کی غلامی ہی انسان کے دل کو سیاہ کرتی ہے۔

سیاہ لباس:۔
عام حالات میں ، سیاہ لباس پہننا مکروہ ہے لیکن اگر ایام عزا آگئے تو وہی لباس جو ابھی تک مکروہ تھا اب مکروہ نہیں رہتا بلکہ اس کا حکم بدل جاتا ہے، اگر اس کی تفصیل درکار ہو تو آیات عظام میں سے کسی کے بھی استفتائات میں مراجعہ کرسکتے ہیں۔

سیاہی، خدا کی نعمت:۔
سیاہی، نظر بد سے محفوظ رکھتی ہے، ہمارے معاشرہ میں خوبصورت بچوں کی پیشانی پر سیاہی کا ٹیکا لگایا جاتا ہے تاکہ بچہ نظر بد سے محفوظ رہے ۔
یہ سیاہی جب تک سیاہی تھی فقط سیاہی تھی اور بس.....لیکن جب کاجل یا سرمہ بن کر محبوب کی آنکھوں میں پہونچ گئی تو اب محبوب کی آنکھوں کے بارے میں نعت شریف پڑھی جانے لگی، کیا سرمہ سے پہلے محبوب کی چشم نازنین، قابل تعریف نہیں تھیں؟ کیوں نہیں،  تعریف تو اس وقت بھی کرتے تھے لیکن اس سیاہی نے محبوب کی آنکھوں میں چار چاند لگا دیئے، یہ اور بات ہے کہ اسی محبوب نے جب قلم کے ساتھ سیاہی طلب کی تو کچھ لوگوں نے اپنی سیاہ دلی کی اظہارکیا۔

سیاہ پوست انسان بھی خدا کی مخلوق ہے:۔
بہت سے لوگ، سیاہ پوست انسانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جوکہ عرب کے بدؤوں کا نظریہ تھا قوم و قبیلہ کا تعصب، کالے گورے کا تعصب، جس کو اسلام نے مذموم قرار دیا ہے ، اسلام نے ہمیشہ مساوات اور برادری کا درس دیا ہے لیکن اس سیاہ دل کے تعصب کا کیا کیا جائے جو باز آنے کو تیار نہیں، بعض لوگ تو سیاہ پوست انسان کو خدا کی مخلوق ہی شمار نہیں کرتے، جب کہ ایسا نہیں ہے، اس کا بھی وہی خدا ہے جو ان بعض لوگوں کا خدا ہے، جس مٹی سے وہ پیدا کئے گئے ہیں اسی مٹی سے یہ بیچارہ بھی خلق ہوا ہے لیکن یہ اس وقت سمجھ میں آئے گا جب تعصب کی عینک اتاردی جائے گی۔
ایک مرتبہ، ملکہ وکٹوریہQueen.victoria) ملکۂ حبشہ سے ملنے گئی، اس سے پہلے اس نے کسی حبشی کو نہیں دیکھا تھا، جیسے ہی ملکۂ حبشہ کے پاس پہونچی، بے ساختہ قہقہہ مارکر ہنسنے لگی، جیسے جیسے اسے دیکھتی تھی، ایسے ایسے ہی ہنسی تیز ہوتی جاتی تھی، ملکۂ حبشہ اس راز کو سمجھ گئی، اس نے ملکہ وکٹوریہ سے کہا کہ کیا تم میرے رنگ پر ہنس رہی ہو؟کیا میرا خدا وہی نہیں جو تمھارا خدا ہے؟ کیا میں اسی مٹی سے پیدا نہیں ہوئی جس سے تمھاری خلقت ہوئی ہے؟کیا صرف تم ہی انسان ہو میں انسان نہیں ہوں؟
تو سنو!میرا جواب بھی سن لوکہ میری سیاہی اور تمھاری سفیدی کی کیا حقیقت ہے؟
تم گوری ہو، سفیدہو، بہت خوبصورت ہو، اس کے باوجود اھر تمھارے چہرہ کی ذراسی سفیدی میرے چہرہ پر لگادی جائے تو میرے چہرہ پر بد نما داغ پڑ جائے گا اور لوگ مجھے جذام کی مریض کہیں گے، لیکن اگر میری ذرہ برابر سیاہی تمھارے حسین و جمیل چہرہ پر لگادی جائے تو تمھاری خوبصورتی کو چار چاند لگادے گی اور لوگ اس''تل'' پر قربان ہونے لگیں گے۔

جناب جون کی سیاہی:۔
اسی ملک(حبشہ)کے ایک سیاہ پوست واسی کا نام ''جون'' ہے۔
جون اس شخصیت کا نام ہے جن کو حضرت علی علیہ السلام نے ایک سو پچاس دینار میں خریدا تھا اور ابوذر کی غلامی میں دے دیا تھا، جب جناب ابوذر کو جلا وطن کیا گیا تو جناب جون،  جناب ابوذرکے ساتھ ربذہ گئے اور ابوذر کی شہادت کے بعد مدینہ واپس آگئے اور مولا علی علیہ السلام کی خدمت میں مصروف ہوئے، آپ  کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام کی خدمت کی، اور امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور ہمیشہ امام حسین علیہ السلا م کے ساتھ رہے یہاں تک کہ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک امام علیہ السلام کے ساتھہ رہے۔
ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ'' کالے کے آگے دیہ نہیں جلتا'' یعنی سیاہ پوست انسان کی سیاہی چراغ کی روشنی پر بھی غالب آجاتی ہے''  لیکن کربلا کے میدان میں شب عاشور امام حسین علیہ السلام حکم دیتے ہیں کہ چراغوں کو گل کردیا جائے (چونکہ جوہری  ہیروں کو پرکھناچاہتا ہے)قم کی سرزمین سے جناب مولاناشعیب نقوی آواز دیتے ہیں:۔
یہ کہکے شاہ والا نے چراغوں      کو بجھا ڈالا
نہ چمکے جو اندھیرے میں وہ ہیرا ہو نہیں سکتا
یا صرف جناب جون علیہ السلام کی شان میں جناب مولاناگلزار  چھولسی گویا ہیں:۔
شمع گل  کردی یہی کہتے ہوئے سرور نے
آج شب جون کے چہرہ    کی ضیا کافی ہے
اب آئیئے صبح کا نظارہ کیا جائے، صبح عاشور کے آفتاب نے شہنشاہ دوجہاں کو سلامی دی، جنگ کا آغاز ہوا،جو ن امام  کی خدمت میں آئے اور میدان کی اجازت طلب کی لیکن امام  نے جون کے اصرار کے باوجود اجازت نہیں دی ، جون نے اپنے دل میں سوچا کہ میں سیاہ پوست کہاں اور یہ خاندان رسالت کی نورونی ہستیاں کہاں؟ آخر آسمان و زمین میںکیا نسبت؟ ایک ناچیز ذرہ اور آفتاب کا کیا تقابل؟
جون  نے دست ادب جوڑ کر عرض کی، مولا  میں سمجھ گیاا کہ آپ مجھے کیوں اجازت نہیں دے رہے ہیں ؟ آپ نہیں چاہتے کہ میرے جسم کی بدبو اور میری سیاہی، آپ کی پاک و پاکیزہ خوشبو اور تنویر میں ملے۔
آقا حقیر پر نظر عنایت ہو، میرے جسم کی بدبو خوشبو سے تبدیل ہوجائے، میرا سیاہ چہرہ، نورانی ہوجائے بس یہ سن کر امام  نے اجازت دیدی، یہ نوّے سال کا ضعیف العمر میدان وغا کی جانب چلا، جسم سے پیرہن بھی اتارد یا تاکہ عشق حسین میں پیراہن کی باریکی کے برابر بھی کوئی چیز حائل نہ ہو، اتنے کشتے لگا دئے کہ یزیدی جوانوںمیں الامان الحفیظ کی صدائیں گونج اٹھیں، لیکن تنہا شیر کو روباہوں نے گھیر لیا ، زمین پر آئے امام حسین علیہ السلام جون  کے سرہانے پہونچے اور اپنا دست مبارک جون کے چہرہ پر پھیر کر دعا کی ''اللھم بیض وجھہ و طیب روحہ واحشرہ مع محمد وآل محمد''    
پرور دگار! جون کے چہرہ کو نور عطا فرما، اس کے جسم کی بو کو خوشگوار بنادے اور اس کا حشر محمد و آل محمد کے ساتھ ہو، امام  کی اس دعا کا اثر اس وقت دیکھا گیا جب جون کی لاش کو دفن کیا جارہا تھا ، ااپ کے جسم سے نور ساطح تھااور آپ کی خوشبو سے فضا معطر تھی (وسیلة الدارین فی انصار الحسین١١٥، منتخب التواریخ٣١١)
 جب جناب جون علیہ السلام کی یہ فضیلت نظر آئی تو بے ساختہ غافرکے دل سے آواز نکلی:۔
مہتابِ  شبِ    کرب و بلا       جون کا چہرہ
یا ملکِ حبش      کا   یہ       در بیش بہا ہے
خیرات میں کچھہ نور عطا کردے اسے جون
سورج بھی  ترے در پہ   گدائی کو کھڑا ہے
جناب جون  نے دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا کہ چہرہ کی سیاہی بری چیز نہیں ہے، دل کو نورانی ہونا چاہیئے، اگر دل سیاہ ہے تو چہرہ کی سفیدی کسی کام کی نہیں ، اگر انسان سیاہ پوست ہو اور اس کا کردار قابل قدر ہو تو امام وقت بھی اس کے لئے دعا کرتا نظر آتا ہے اور اس کے چہرہ کی سیاہی نو ر سے تبدیل ہوجاتی ہے۔
پرور دگار! ہمیں بھی اس قابل بنا کہ امام وقت کی دعائیں ہمارے شامل حال رہیں اور ہمارے دلوں کی تاریکیاں نور سے تبدیل ہوجائیں۔
                                      (آمین)
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ 
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر حسن رضوی چھولسی

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords