جمعہ، 21 اگست، 2015

قرآن و حسین ع، ایک اٹوٹ بندھن: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

 قرآن و حسین ؑ، ایک اٹوٹ بندھن
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

 آیات وروایات کے تناظر میں قرآن اورامام حسین ؑکے درمیان ایساگہرا رابطہ اور اٹوٹ بندھن پایاجاتا ہے کہ جس کو ظلم کی تیغ برّاں بھی جدانہ کرسکی، سیلاب زمانہ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے منھ کی کھائی اوراس بندھن نے ہرموڑپرفتح وکامرانی حاصل کی۔خامۂ فکر نے قرطاس ذہن پریہ نقش ابھاراکہ’’قرآن وامام حسین ؑمیں رابطہ کے چند نمونے‘‘بیان کئے جائیں؛ لہٰذا یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن اورامام حسین ؑمیںکیا کیا مناسبتیں پائی جاتی ہیں! آخر قرآن وامام حسین ؑمیں کیسا رابطہ ہے! کتناگہرااورعمیق ارتباط ہے!کتنی جہت سے قرآن اور امام حسین ؑایک ساتھ ہیں؟اس اٹوٹ بندھن کے چندنمونے مندرجہ ذیل ہیں:
اتحاد و اتفاق کی دعوت:ایک رابطہ یہ ہے کہ قرآن بھی اتحاد کی دعوت دیتا ہے اور حسین ؑبھی اتحادویکجہتی کاپیغام دیتے ہیں، اس کی مثال اس آیت سے لے لیجئے کہ قرآن کریم نے بالکل واضح وآشکارطورپردعوت اتحاددی ہے:{ خداکی ریسمان کواتحادکے ساتھ تھام لواور متفرق نہ ہو} سوال یہ ہے کہ جب خدانے ’’ریسمان الٰہی کو تھام لو‘‘ کہہ دیا تھا توپھر’’ متفرق نہ ہو‘‘کہنے کی کیاضرورت تھی؟ دعوت اتحاد توپہلے ہی جملے میں مکمل ہوگئی تھی! خداوندعالم ’’متفرق نہ ہو‘‘ کہہ کر یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ ہم صرف اتحادکی دعوت نہیں دے رہے ہیں بلکہ اس امرپر تاکید بھی کررہے ہیںکہ دیکھوکسی بھی صورت میں اتحاد سے چشم پوشی نہ کرنا۔یہ قرآن ہے جس نے اتحادکی دعوت دی اور ادھر امام حسینؑ ہیں جومرقعہ اتحاد ہیں، امام حسین ؑکی پوری زندگی کو توایک طرف رکھئے کہ انھوںنے کیسے کیسے اتحاد کی مثالیں قائم کی ہیں!، ان کی حیات طیبہ کے چند لحظوں کولے لیجئے جن کی جھلک میدان کربلا میں نظر آتی ہے، کسی ایک انسان کو اپناہم مزاج بنانا بھی بہت دشوارگذارامر ہوتا ہے لیکن حسین ؑنے اس مشکل امرکوکتناآسان بنادیا،میدان کربلامیں ایک حسین ؑنہیں بلکہ بہتر حسین ؑ نظر آتے ہیں،سن کافرق ضرور ہے لیکن ارادوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا،جوجذبہ کڑیل جوان کے دل میں ہے وہی ششماہہ کے دل میں اوروہی جذبہ اسی سال کے بوڑھے مجاہد کے دل میں انگڑائی لے رہا ہے۔
قرآن بھی عظیم،حسین بھی عظیم: ایک رابطہ جوقرآن اورامام حسین ؑکے درمیان ہے وہ یہ ہے کہ قرآن بھی عظیم ہے اور حسین ؑبھی عظیم ہیںاس لئے کہ ان دونوں کاسرچشمہ ایسی باعظمت ذات ہے کہ جس کی عظمت لم یزل ،اسکی شان بھی لم یزل اوروہ خودبھی لم یزل ہے،اس نے قرآن کو جاویدانی بنایا،حسین ؑکوبھی حیات جاوید سے نوازا۔
قرآن بھی عالمین کے لئے رحمت،حسین ؑبھی عالمین کے لئے رحمت:ایک رابطہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن کوعالمین کے لئے رحمت بناکر نازل کیاگیااسی طرح حسین ؑبھی عالمین کے لئے رحمت ہیں، قرآن کے لئے ارشاد ہوتا ہے: {یہ کتاب(قرآن کریم)ہدایت ہے اوررحمت ہے مومنین کے لئے}(سورۂ نمل؍۷۷)۔ اس آیت میں کسی طرح کی کوئی قید وشرط نہیں لگائی گئی کہ کس زمانے کے مومنین اورکس علاقہ کے مومنین!،اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب ہردور میں ہرمومن کے لئے رحمت ہے۔ اور ادھرحسین ؑکودیکھئے،حسین ؑاس رسول ؐکانواسہ ہے جس کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہوتاہے: {اے رسول! ہم نے تمہیںعالمین کے لئے صرف اور صرف رحمت بناکربھیجاہے}(انبیاء؍۱۰۷)،یہاں پراعتراض ہوسکتا ہے کہ اس آیت سے حسین ؑکاکیامطلب؟قارئین کرام! رسول ؐکی حدیث یاد کیجئے: ’’حسین منی و انا من الحسین‘‘ حسین مجھ سے ہے اور میںحسین سے ہوں؛ عزیزو!رسولؐنے اس حدیث میں منّیت کوبیان کیاہے اور منّیت کا مطلب یہ ہوتاہے کہ جوخواص نسبت دینے والے میں پائے جاتے ہیںوہی خواص اس میںبھی موجود ہیںجس کو اپنی طرف نسبت دے رہا ہے؛ توعزیزو! رسول ؐکی حدیث منّیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح قرآن عالمین کے لئے رحمت ہے اسی طرح حسین ؑبھی عالمین کے لئے رحمت ہیں۔
قرآن سید الکتب، امام حسین ؑسید الشہداء:ایک رابطہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن کوسید الکتب کہا گیا ہے اسی طرح حسین ؑبھی سید الشہداء اور سردار جوانان جناںہیں،جس طرح قرآن کو تمام آسمانی و غیر آسمانی کتابوں پرفوقیت حاصل ہے اسی طرح حسین ؑکوبھی تمام شہدا اورتمام اہل بہشت پر فوقیت حاصل ہے؛ رسول اسلام ؐ نے فرمایا: ’’ان الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنۃ‘‘ بے شک(میرے دونوںنواسے)حسن وحسین جوانان جنت کے سردارہیں۔ آج اس دنیا میںجنت تقسیم ہورہی ہے لیکن جنت تقسیم کرنے والے یہ بھول گئے کہ جنت ملکیت کس کی ہے؟۔
قرآن بھی فاسق کا پردہ اٹھانے والا،حسین ؑبھی پردہ اٹھانے والے:ایک رابطہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن نے منافقوںکے چہروںسے نقاب اٹھائی ہے اسی طرح حسین ؑنے بھی منافقوںکے چہرے پہچنوائے ہیں، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: {بے شک منافق مرد اور عورتوں کی علامت یہ ہے کہ ان میں سے بعض افراد بعض افرادکومنکرات کا حکم دیتے ہیںاورنیکیوںسے روکتے ہیں}(توبہ؍۶۷)؛ قرآن نے یہاں منافق کاچہرہ دکھایاکہ منافقوں کی صفت یہ ہے کہ وہ قرآن کے برخلاف عمل کرتے ہیں؛ اسی طرح حسین ؑکو دیکھئے کہ جب آپ مدینہ سے خارج ہونے لگے اورلوگوںنے آپ کومشورہ دیا کہ کیا ضرورت ہے جانے کی! تو آپ نے فرمایا: ’’ألاترون الی الحق لایعمل بہ و الی الباطل لا یتناھی عنہ‘‘ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیاجارہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جارہاہے! حسین ؑنے اپنے اس فقرے سے سمجھادیا کہ منافقوںکاایک گروہ وجود میں آیا ہے میں اس کا پردہ فاش کرنے جارہا ہوں۔
قرآن بھی ہدایت،حسینؑ بھی چراغ ہدایت:ایک رابطہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن کوہدایت قرار دیا گیا ہے اسی طرح حسین ؑبھی ہدایت ہیں؛ قرآن کے لئے ارشادہوتاہے:{یہ وہ کتاب ہے کہ جس میںذرہ برابربھی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں ہے،(یہ)صاحبان تقویٰ کے لئے ہدایت ہے}(بقرہ؍۲)۔ اور ادھر حسین ؑکی شان میں رسول اسلامؐ فرماتے ہیں: ’’ان الحسین مصباح الھدیٰ و سفینۃ النجاۃ‘‘ بے شک حسین چراغ ہدایت و کشتی نجات ہیں۔یعنی جیسے قرآن ہدایت کرتاہے اسی طرح حسین بھی ہدایت کرتے ہیں،جس طرح قرآن راہ نجات دکھاتاہے اسی طرح حسین ؑ بھی کشتی نجات ہیں۔
قرآن بھی شفیع،حسین ؑبھی شفیع:ایک رابطہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن شفیع امت ہے اسی طرح حسین ؑبھی شفاعت کرنے والے ہیں، قرآن کے لئے ارشاد ہوتاہے: ’’نعم الشفیع القرآن‘‘ یعنی قرآن بہترین شفاعت کرنے والا ہے اور ادھرامام حسین ؑکی شفاعت کے بارے میں دعاکی جاتی ہے: ’’اللھم ارزقنی شفاعۃ الحسین‘‘اے معبود ! ہمیں شفاعت حسین ؑسے بہرہ مند فرما۔اگرایک طرف سے قرآن کی شفاعت ہو اوردوسری جانب سے حسین ؑکی شفاعت ہو تو اس سے بڑھ کر کیاخوش قسمتی ہوسکتی ہے!۔
قرآن بھی شفا،حسین ؑبھی شفا:ایک رابطہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن شفا دیتا ہے اسی طرح حسین سے بھی شفا ملتی ہے، قرآن کے لئے ارشاد ہوتا ہے:{ہم قرآن میں سے وہی نازل کرتے ہیںجس میںمومنین کے لئے شفا اور رحمت ہوتی ہے}(اسراء؍۸۲)۔اور حسین ؑکی ذات میں ایسی شفارکھی گئی کہ جس خاک میں آپ کالہو مل گیا وہ خاک بھی خاک شفابن گئی۔حسین ؑکی زندگی میں شفا کے متعدد نمونے نظر آتے ہیں،جب فطرس شفاحاصل کرنے آیا تورسولؐ نے حکم دیا کہ حسین ؑکے گہوارے سے مس کردو، فطرس کو مس کیا گیااور شفا مل گئی،اب یہ اعتراض کرنا غلط ہے کہ گہوارہ کیوںسجاتے ہو! ۔ قرآن اورحسین ؑہمیشہ ایک ساتھ رہے اورایک ساتھ ہی رہیں گے،ان میں جدائی محال ہے اس لئے کہ ایسے رسولؐ کاقول ہے جوجھوٹ نہیں بولتااور اس کی زبان پر وحی کاپہرہ ہے، یہ تووہی کہتے ہیں جو وحی کہتی ہے، حسین ؑاور قرآن کی معیت کو رسولؐ نے اس طرح بیان فرمایا: ’’انی تارک فیکم الثقلین،کتاب اللّٰہ و عترتی اہل بیتی، ان تمسکتم بھما لن تضلوابعدی‘‘یعنی میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت (میرے اہل بیت ؑ)، اگر تم ان دونوں سے متمسک رہوگے تومیرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے۔رسولؐ نے دونوںکوایک ساتھ لینے کاحکم دیا ہے ’’قرآن واہل بیت‘‘اوراہل بیت ؑکی ایک فردکانام حسین ؑہے،حسین اصحاب کساء کی پانچویں فرد ہے، حضور اکرمؐ کا دونوں کو ایک ساتھ بیان کرنابتارہا ہے کہ فقط ایک کادامن تھام لینے سے منزل مقصودحاصل نہیں ہوگی،اگرمنزل نجات تک رسائی کے خواہاں ہیں تو دونوں کا دامن ایک ساتھ تھامنا ہوگا، ’’حسبنا کتاب اللّٰہ‘‘ کا دعویٰ کرنے والے کسی بھی منزل تک نہیں پہونچ سکتے اس لئے کہ کتاب تو کسی حالت میں کافی ہو ہی نہیں سکتی، اگر کتاب کافی ہوتی تو شاہراہوں اورچوراہوں پرقوانین کی کتاب کورکھ دیا جاتا۔شاہراہوںپر ٹریفک پولیس کاوجودبتارہا ہے کہ خالی کتاب کافی نہیں ہے بلکہ کوئی ایسا ہونا چاہیئے جوکتاب کا مطالعہ کرکے قوانین کو نافذکرے، اس ترقی یافتہ دورمیں جب کہ ہر چوراہے پر ریڈلائٹ(Red Light)اورگرین لائٹ(Green Light) لگی ہوئی ہے اس کے باوجود بھی بعض مقامات پر دیکھتے ہیںکہ ٹریفک پولیس کھڑی ہوئی ہے، ہم سوال کرتے ہیں کہ بھائی ایسا کیوں؟جب لائٹ موجودہے توتمہاری کیاضرورت ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ لائٹ خراب ہوگئی، اب سمجھ میں آیا! لائٹ کاہونایاقانونی کتاب کاہوناکافی نہیں ہے بلکہ ایک قانون داںکی بھی ضرورت ہے، لہٰذا یہ سمجھ لیجئے اگر قرآن کتاب قانون ہے تو قانون داں کوحسین ؑکہاجاتاہے۔قرآن اور حسین ؑمیں وہی رابطہ ہے جولفظ جمال اورلفظ زینت کے درمیان ہے۔جمال کسے کہتے ہیں؟ انسان کی اندرونی صفات حسنہ کو جمال کہاجاتا ہے اور زینت صرف ظاہری آرائش کوکہاجاتاہے۔ حسین ؑجمال ہیں توقرآن زینت ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرقرآن کے باطن کوسمجھنا ہے تو پہلے حسین ؑکو سمجھنا ہوگا، قرآن حسین ؑکاظاہر ہے اور حسین ؑقرآن کاباطن ہے، اگرحسین ؑکوسمجھ لیاتوقرآن خودبخودسمجھ میں آجائے گااوراگرحسین ؑکو نہیں سمجھے توقرآن کے حافظ توبن سکتے ہیں قرآن فہم نہیںبن سکتے۔ آخرکلام میں حسن ختام کے عنوان سے یہ عرض کروں گاکہ ’’حسین ؑاورقرآن میں جدائی کاتصورکرنابھی محال ہے‘‘،اس جملہ کواگر ایسے تعبیر کروں تو بہتر ہوگاکہ قرآن و حسین ؑایک ایسی تحریرہے کہ اگرتفسیرکی جائے تو قرآن بنتاہے اوراگراس کالب لباب کیاجائے توحسین ؑبنتاہے ۔ اس اٹوٹ بندھن کا ثبوت امام حسین ؑنے نوک نیزہ سے تلاوت کرکے دیا ہے کہ زمانہ ہمارے سروتن میں جدائی ڈال سکتا ہے لیکن اگر کوئی ہمارے اورقرآن کے درمیان رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا تو وہ منھ کی کھائے گا۔ حسین ؑقرآن کے بغیراورقرآن حسین ؑکے بغیر کچھ نہیں اس لئے کہ ان دونوں میں سے ایک جسم ہے تو دوسرا جان ہے، جہاں جسم ہوگا وہیں جان ہوگی، اگرجان نہیں ہوتی تو جسم کو مردہ تصورکیاجاتا ہے؛ امام حسین ؑنے نوک نیزہ سے یہی درس دیا ہے کہ ہمیں مردہ مت سمجھنا بلکہ ہم موت کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں چونکہ ہم زندۂ جاوید ہیں اس لئے قرآن کریم بھی تاقیام قیامت زندہ رہے گاکیونکہ قرآن اورہمارے درمیان ایسا اٹوٹ بندھن ہے جوکسی بھی حال میں نہیں ٹوٹ گا۔ ’’والسلام علی من اتبع الھدیٰ‘‘ 
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر حسن رضوی ’’چھولسی‘‘

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

 
افکار ضیاء. Afkar-e-Zia - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords